مزاری بلوچوں کے بڑے قبائل میں سے ایک ہے ـ یہ رند قبیلے کی شاخ ہے ـ مانا جاتا ہے جنگوں میں بہادری دکھانے کی وجہ سے سردار چاکر خان رند نے ان کو “مزاری” کا نام دیا ـ بلوچی میں شیر کو “مزار” کہا جاتا ہے،  مزاری یعنی شیر کی خصلت رکھنے والا ـ
اس قبیلے کا مرکز راجن پور کا خطہ روجھان مزاری ہے جہاں قبیلے کے سردار کا قلعہ ہوا کرتا تھا ـ تاہم قبیلے کے اراکین پنجاب اور سندھ میں پھیلے ہوئے ہیں ـ مزاری سرداروں کے بگٹی سرداروں سے گہرے تعلقات ہیں ـ نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے براہمدغ بگٹی مزاری سرداروں کے ہی داماد ہیں ـ کہا جاتا ہے نواب بگٹی کے ساتھ پہاڑوں پر جانے والوں میں مزاری جوانوں کی بھی ایک کثیر تعداد شامل تھی ـ
دیگر بلوچ سرداروں کی طرح مزاری سردار بالخصوص سردار بلخ شیر مزاری پاکستان کے عسکری اسٹبلشمنٹ سے قریب رہے ہیں ، وہ جنرل ضیا الحق کے بھی بااعتماد ساتھی سمجھے جاتے تھے ـ پی ٹی آئی کو غچہ دینے والے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی میر دوست محمد مزاری انہی کے پوتے ہیں ـ سردار بلخ شیر کے چھوٹے بھائی شیر باز مزاری کی شہرت البتہ ایک عالم اور اصول پسند سیاست دان کی رہی ہے ـ
لال مسجد والے شدت پسند برادران مولانا عبدالرشید اور مولانا عبدالعزیز بھی مزاری ہیں ـ پاکستانی صحافی حامد میر کے مطابق جب پرویز مشرف اور لال مسجد انتظامیہ کے درمیان مزاکرات ناکام ہوئے تو مولانا عبدالرشید نے ان سے کہا اب مشرف سے بلوچی معاملہ ہوگا ـ
ڈاکٹر شیرین مزاری کا شمار بھی اس قبیلے کے اہم ارکان میں ہوتا ہے ـ ان کے والد میر عاشق محمود مزاری فیوڈل لارڈ تھے ـ شیرین مزاری کے بھی پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ سے قریبی تعلقات رہے ہیں ـ وہ دورانِ صحافت انہی کی پالیسیوں کو آگے بڑھایا کرتی تھی ـ ایک طرح سے وہ آئی ایس آئی کے تھنک ٹینک کی رکن تھی  ـ فوج نے جب پروجیکٹ عمران خان شروع کیا تو انہیں تحریک انصاف کی کشتی میں بٹھا کر پارلیمنٹ پہنچایا گیا ـ پاکستان کے سینئر سیاست دان اور ن لیگ کے اہم رہنما خواجہ آصف نے ایک دفعہ ان کی بھاری جسامت پر فقرہ کستے ہوئے انہیں “ٹریکٹر ٹرالی” کے نام سے پکارا (جیالوں کا اصرار ہے بدتمیز صرف انصافی ہوتے ہیں) ـ
اپنے دورِ حکومت میں بلوچ جبری گمشدگان کے معاملے میں ان کا رویہ دیگر انصافی قائدین بالخصوص فواد چوہدری کی مانند معاندانہ تو نہ تھا تاہم اپنے پیوستہ طبقاتی مفادات کے باعث قابلِ ستائش بھی نہ تھا ـ انہوں نے بحیثیتِ وفاقی وزیر انسانی حقوق جبری گمشدگی کے خلاف ایک قانونی بل بھی تیار کیا جو پاکستان کی قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ جا کر جبری گمشدگی کا شکار ہوگیا ـ شیرین مزاری نے بل کی گمشدگی کو “نامعلوم قوتوں” کی کارستانی قرار دیا ـ یہ بل موجودہ “جمہوری” دور میں بھی لاپتہ ہے ـ ان کی بیٹی ایمان مزاری جبری گمشدگی پر اپنے واضح موقف کے باعث آج کل بلوچ طلبا کی ڈارلنگ بنی ہوئی ہیں ـ
اسٹبلشمنٹ کے دو دھڑوں کے درمیان جاری حالیہ تصادم کے باعث شیرین مزاری کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ہے ـ یقینی طور پر وہ اس وقت اسٹبلشمنٹ کے مغلوب دھڑے کی نمائندگی کر رہی ہیں،  غالب دھڑا انہیں مسلسل گرفتار کرکے زچ کرنے کی کوشش میں کامیاب رہا ہے ـ امید ہے شیرین مزاری اپنے بزرگ بلخ شیر مزاری کی طرح پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی نگاہوں میں سرخرو رہنے کی کوشش کریں گی گوکہ ایک راستہ شیر باز مزاری کا بھی ہے ـ مگر شیر باز مزاری والے راستے میں اکبر بگٹی بننے کا بھی مکمل امکان ہے ـ اتنی بلوچیت بھلا ان میں کہاں؟  ـ