انقلاب کا مطلب صورتحال کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے پہلے سے یکسر بہتر صورتحال کو تخلیق کرنا ہے۔ انقلابات سیاسی بھی ہوتے ہیں، معاشی، سماجی، فکری، اور تکنیکی بھی۔ کوئی سیاسی جماعت جب انقلاب کا نعرہ بلند کرتی ہے تو اس کا مطلب سیاسی نظام کو یکسر تبدیل کر کے پہلے سے کہیں بہتر نظام کو تشکیل کرنا ہے۔  مگر سیاسی انقلابات کے مختلف “کلر” اور “لیول” بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے انقلابی ہونے کا دعویٰ کرنے سے پہلے یہ بھی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ جس انقلاب کے لیے جدوجہد کرنا ہے اس کا مقصد کیا ہو گا اور اسکا “کلر” اور “لیول” کیا ہو گا۔ دنیا میں  گزشتہ کچھ صدیوں میں مندرجہ ذیل اقسام کے سماجی انقلابات رونما ہوئے ہیں۔
1) برطانیہ، فرانس، یورپ، اور امریکہ میں سرمایہ دار اور تاجر طبقہ کی قیادت میں رونما ہونے والے نیلے انقلابات جنہوں نے بادشاہوں، جاگیر داروں اور مذہبی پیشواؤں کی حکمرانی پر مبنی پرانے دقیانوسی نظام کا خاتمہ کیا اور ان ممالک میں لبرل ڈیموکریسی کا نظام قائم کیا جس کا معاشی ماڈل سرمایہ دارانہ صنعتی پیداوار اور سیاسی نظام جمہوری پارلیمان سے متعلق تھا۔ ان انقلابات کے نتیجے میں فرانس اور جرمنی میں بادشاہت کا مکمل خاتمہ ہوا مگر برطانیہ میں بادشاہت محدود تو ہوئی مگر اس کا خاتمہ نہ ہو سکا۔
2) روس اور چین میں مارکسی انقلابیوں کی قیادت میں رونما ہونے والے سرخ انقلابات جنہوں نے یورپ کے ڈیموکریٹک انقلابات کے مندرجہ بالا فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک سے سامراجی غلامی اور اثرو نفوذ کا مکمل خاتمہ کیا اور ان ممالک میں محنت کش طبقہ کی آمریت کا نظام قائم کیا جس کا معاشی ماڈل اشتراکی منصوبہ بندی اور سیاسی ماڈل عوامی جمہوریت قائم کرنے سے متعلق تھا۔ روس اور چین سمیت سارے سوشلسٹ بلاک میں اشتراکی منصوبہ بند معیشت تو قائم ہوئی مگر عوامی جمہوریت پر پارٹی کی آمریت حاوی رہی۔
3) دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے ، امریکہ اور روس کے دو عالمی طاقتوں کے طور پر ابھرنے، اور ان دونوں سوہر طاقتوں کا دو مختلف نظاموں یعنی لبرل ڈیموکریسی اور محنت کش طبقہ کی سوشلسٹ آمریت کا نمائندہ بن کر ابھرنے کے باعث یورپ کے لیے ان دو عالمی طاقتوں کے مابین توازن قائم کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ اس صورتحال میں یورپ میں سوشل ڈیموکریٹک سیاسی جماعتوں کی قیادت میں گلابی انقلابات کا سلسلہ شروع ہوا جنہوں نے روس کے سوشلزم اور امریکہ کی جمہوریت کے ملاپ سے سوشل ڈیموکریسی کا نظام قائم کیا جس کا معاشی ماڈل مکسڈ اکانومی پر مبنی تھا اور اس کا سیاسی اظہار آزاد خارجہ پالیسی کی صورت میں ہوا۔ 70 کی دہائی تک گلابی انقلابات کا سلسلہ پوری دنیا میں پھیلا اور پاکستان میں اس کا اظہار پیپلز پارٹی کے عروج اور ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کی شکل میں ہوا۔ روس اور امریکہ دونوں سوپر طاقتیں ان گلابی انقلابات پر اثر انداز ہوئیں اور جہاں یہ تضاد گلابی سے سرخ ہونے کی شکل اختیار کر گیا وہاں ان گلابی انقلابات کو خون کی سرخی میں بھگو دیا گیا۔ پاکستان سے لے کر انڈونیشیا تک فاشسٹ فوجی آمریتوں کے ذریعے یہ کارنامہ انجام دیا گیا۔
4) سوویت روس کے انہدام اور امریکہ کے دنیا کی واحد سوپر پاور بن کر ابھرنے کے بعد سے دنیا بھر میں رائٹ ونگ پاپولرازم پر مبنی کھٹے انقلابات کا سلسلہ جاری ہے جس کی قیادت مڈل کلاس پارٹیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان کھٹے انقلابات کا مقصد سابقہ سرخ اور گلابی انقلابات کی باقیات یعنی سرکاری تحویل میں لیے گئے اشتراکی ملکیت یا مکسڈ ملکیت پر مبنی انٹرپرائزز کو مکمل طور پر قومی سرمایہ داروں یا پھر عالمی کارپوریشنوں کے مالکان کے ہاتھوں فروخت کرنا، اور سابقہ سرد جنگ عہد میں سوشلزم یا سوشل ڈیموکریسی کی بنیادوں پر آزاد یا ماسکو نواز خارجہ پالیسی رکھنے والی ریاستوں کو مکمل سامراجی تسلط میں لانا ہے۔ دنیا کی جن ریاستوں نے نجکاری اور سامراجی کنٹرول کا یہ عمل “رضاکارانہ” طور پر انجام دیا ہے ان ریاستوں میں کھٹیائے جانے کا یہ عمل انقلابات کی بجائے کھٹی یا کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے ذریعے سرانجام دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جن ریاستوں نے اس ایجنڈے پر عمل کرنے سے انکار کیا یا اس ایجنڈے پر عمل شروع تو کیا مگر کہیں بیچ میں “اڑی پھسی” ڈالی وہاں کھٹے انقلاب کا عمل شروع ہو گیا۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کھٹیائے جانے کا یہ عمل انقلابی اور جمہوری ہر دو صورتوں میں جاری ہے۔ یوکرین کی موجودہ صورتحال، عرب میں جنم لینے والی نام نہاد عرب بہار المعروف تحریر سکوائر ماڈل کھٹے انقلابات کی بڑی مثالیں ہیں۔ عرب اور یوکرین دونوں سماجوں میں کھٹے انقلابات کا نتیجہ مکمل سامراجی غلامی اور قومی اداروں کی سامراجی فروخت کی صورت میں نکلا ہے۔
حالیہ عالمی منظرنامے میں، روس کے زوال کے بعد، چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے۔ روس ہی کی طرح چین بھی نہ صرف دوسری بڑی طاقت کے طور پر سامنے آ رہا ہے بلکہ روس ہی کی طرح اس کا معاشی ماڈل بھی امریکی ماڈل سے مختلف ہے۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ چینی معاشی ماڈل روس سے بھی مختلف ہے لیکن روس کی طرح زوال پزیر ہونے کی بجائے چین کا تیزی سے ترقی کرتے چلے جانا چینی ماڈل کی برتری ثابت کرتا ہے۔ بہرحال امریکہ اور چین کے معاشی ماڈل کا فرق فی الوقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی ایک طرف امریکہ نام نہاد فری مارکیٹ اکانومی کا داعی ہے تو دوسری طرف چین سوشل مارکیٹ اکانومی کا داعی ہے۔ چین نے دنیا بھر کو چین سے سیکھنے کی دعوت دی ہے۔ یعنی چین کامیاب امریکی معاشی ماڈل کے مقابلے میں کامیاب چینی معاشی ماڈل متعارف کروا رہا ہے۔ اس صورتحال نے عالمی پیمانے پر ایک تفاوت کی صورتحال پیدا کر دی ہے اور بہت سے ممالک نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مقابلے میں چین کے قیادت میں قائم کردہ برکس بینک میں شمولیت کی درخواستیں جمع کرا دی ہیں۔ 2050 کی اکنامک پروجیکشن کے مطابق چین دنیا کی پہلی بڑی معیشت ہو گا جبکہ انڈیا اور امریکہ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہوں گے۔ امریکہ اس صورتحال میں دفاعی پوزیشن میں ہے اور اپنے عالمی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکہ روس سرد جنگ عہد میں پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا ہے۔ مگر موجودہ صورتحال میں پاکستان چین کے ساتھ بھی گہرے روابط رکھتا ہے۔ امریکہ اور چین میں جاری عالمی اثر و رسوخ کی اس جنگ میں پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ روس امریکہ تفاوت کے سابقہ دور میں پاکستان امریکہ کا اور ہندوستان روس کا اتحادی تھا۔ اور امریکہ چین تفاوت کے حالیہ دور میں ہندوستان امریکی اتحادی ہے جبکہ پاکستان چین کا اتحادی بننے جا رہا ہے جبکہ کچھ طاقتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان امریکی کیمپ ہی میں رہے۔ پاکستان کی اپنی صورتحال بھی ترقی اور تنزلی کا فکر انگیز ملاپ ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ بات خارج از امکان نہیں کہ پاکستان میں کوئی سیاسی قوت کھٹے انقلاب کا نعرہ بلند کرے اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے علاقائی تعاون کی راہیں مسدود کرنے کے کوشش کرے۔
پاکستان کو چینی کیمپ میں جانے سے روکنے کی کوشش اور اس کے لیے عمران خان اور تحریکِ انصاف کی انقلابی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان، جس نے اپنی حکومت جانے کے بعد پہلے اینٹی امریکہ اور پھر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے بڑے بڑے دعوے کیے ہیں، دراصل امریکہ اور اس کی اتحادی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ سیاسی لیڈر ہے۔ پاکستان میں عمران خان کے دورِ حکومت میں سی پیک کو عملاً نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ اس خدمت کے باوجود جب افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران خان صاحب کے نظریاتی دھڑے نے اپنے ہاتھ اس گنگا میں دھونے کی کوشش کی تو امریکہ نے اپنی آشیرباد واپس لے لی جس کے جواب میں خان صاحب نے اینٹی امریکہ بیانیہ قائم کیا اور اس پر خوب سیاست کی۔ پاکستان کی نئی عسکری قیادت نے چین کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نئی صورتحال میں امریکہ کے پاس اس سے بہتر کوئی اور آپشن موجود نہیں کہ خان صاحب کو واپس آن بورڈ لے لیا جائے۔ تحریکِ انصاف رائٹ ونگ مڈل کلاس فینامینا ہے جو زیادہ سے زیادہ سامراجی ایجنٹوکریسی اور فاشزم کے درمیان سوئنگ کر سکتا ہے۔ انکی برداشت اتنی کم ہے کہ انہوں نے صرف اتنی بات پر ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی کہ عمران خان کو گرفتار کیوں کیا گیا۔ حالانکہ سیاسی جدوجہد میں گرفتاری ہو جانا شاندار تصور کیا جاتا ہے۔ مگر تحریکِ انصاف کے سیاسی آئیڈیلز اسکی قیادت کی طرح انتہائی طفلانہ ہیں۔ عمران خان ایک فاشسٹ مسخرہ ہے جس کی قسمت میں مکمل جمہوریت پسندی ہے نہ پورا فاشزم۔
پاکستان میں، کسی بھی دوسری پراکسی اسٹیٹ کی طرح، کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا نظام رائج ہے۔ پاکستان میں لبرل ڈیموکریسی یا قومی جمہوریت کی تکمیل مسٹر جناح سے لے کر عمران خان تک ہمارے تمام لبرل لیڈروں کا دیرینہ خواب رہی ہے۔ مگر یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا کیونکہ بادشاہت، جاگیراداری، اور پیشوائیت کی مشترکہ قوت سے ٹکرانے کے لیے  درکار انقلابی صلاحیت جناح سے لے کر نیازی تک تمام دیسی لبرلز میں مفقود رہی ہے۔ اس ناکامی کو سہارا دینے کے لیے انکے پاس زیادہ سے زیادہ یہی آپشن رہی ہے کہ فاشزم کا سہارا لے کر لوگوں کو اسلامی پاکستان یا نئے پاکستان جیسے تصورات کے پیچھے لگا دیا جائے اور وقت اور زندگیوں کا زیاں کرنے کے بعد واپس اسی کنٹرولڈ دیموکریسی میں پناہ لے لی جائے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ حالیہ صورتحال میں عمران خان اور تحریکِ انصاف کا انقلابیت سے بھرپور ٹرن مستقبل قریب کے بھرپور ڈیموکریٹک یوٹرن سے ہمکنار ہونے والا ہے کیونکہ کھٹا انقلاب ایجنٹوکریٹک مفادات کی حدود کے اندر ہی رہتا ہے اور ان حدود کے اندر رہتے ہوئے جمہوریت سے روگردانی نہیں کی جا سکتی۔ سو تحریکِ انصاف کے کھٹے انقلابیوں سے گزارش ہے کہ لیفٹ کے سرخ انقلابی اپنی دانشورانہ قناعت پسندی اور پاکستان کے چین کی طرف جھکاؤ کی بدولت پہلے ہی جذب و مستی کی ایک صوفی کیفیت سے سرشار ہیں۔ سو ان سرخوں کو اسی صوفی کیفیت میں مگن رہنے دیں۔ اگر آپ انکو جگانے کی کوشش کریں گے تو سب سے پہلے وہ آپ کے کھٹے پن کو واضح کریں گے اور پھر سرخ سرخ کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے ہجوم میں گھس جائیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے، ہجوم انکے ساتھ کیا کرتا ہے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بہرحال آپکے اور ان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے انقلابی “لیول” کے مطابق اپنی کھٹی میٹھی جدوجہد جاری رکھیں اور سرخوں کو انکے حال پر چھوڑ دیں۔ وہ کسی اور راہ کے راہی ہیں۔