الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 167سیاسی جماعتیں رجسڑڈہیں ان میں 25 سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جنھیں معروف معنوں میں مذہبی سیاسی جماعتیں کہا جاسکتا ہے اور وہ اپنی اس شناخت پر اصرار بھی کرتی ہیں۔ان میں کچھ کے ناموں کے ساتھ اسلام، اسلامی موجود ہے تو کچھ نے اپنی فرقہ ورانہ وابستگی کو اپنے نام کا حصہ بنایا ہوا ہے۔جماعت اسلامی ان مذہبی سیاسی جماعتوں میںاس حوالے سے انفرادیت کی حامل ہے کہ وہ فرقہ ورانہ شناخت کو ترجیح دینے سے گریز کرتی اور خود کو کسی ایک فرقے کی بجائےاپنی غیر فرقہ ورانہ مذہبی شناخت پر زور دیتی ہے۔
فروری الیکشن میں ان پچیس مذہبی سیاسی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام(ف) جمعیت علمائے اسلام( نظریاتی) پاکستان راہ حق پارٹی( سابق سپاہ صحابہ پاکستان) پاکستان مرکزی مسلم لیگ( سابق جماعت الدعوۃ) اور تحریک لبیک پاکستان ایسی مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے فروری الیکشن میں بھرپور حصہ لیا لیکن ان کی کارکردگی ماسوائے لبیک کے انتہائی مایوس کن رہی۔گو کہ لبیک نے بھی پنجاب میں ایک صوبائی سیٹ کے علاوہ کوئی بہت بڑی انتخابی کامیابی تو حاصل نہیں کی لیکن اس کے ووٹ بنک میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔
 الیکشن میں مایوس کن  کارکردگی کے باوجود یہ حقیقت اہنی جگہ موجود ہے کہ ریاستی اور سماجی بیانیوں پر ان مذہبی سیاسی جماعتوں کے اثرات بہت گہرے اور دور رس ہیں اور مستقبل قریب میں ان اثرات کے کم ہونےکے امکانات بہت کم ہیں۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کا سیاسی اور نظریاتی اثر ونفوذ بلوچستان اور کے پی کے میں پنجاب اور بلوچستان میں نسبتاً زیادہ رہا ہے۔ان صوبوں کی گذشتہ چھ اسمبلیوں میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو اکثریت حاصل رہی ہے لیکن فروری الیکشن میں ان صوبوں میں تحریک انصاف نے بالخصوص کے پی کے میں نہ صرف مذہبی سیاسی جماعتوں بلکہ پختون قوم پرستوں کو بھی پچھاڑدیا ہے۔ پنجاب اور سندھ جن کے پاس قومی اسمبلی کی 74فی صد نشتیں ہیں ان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی ہمیشہ مایوس کرن رہی اور اس الیکشن میں بھی یہ ٹرینڈ ان صوبوں کی حد تک برقرار رہا ہے
فروری الیکشن میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو بارہ فی صد ووٹ ملے ہیں لیکن ان بارہ فی صد ووٹوں میں روایتی مذہبی سیاسی جماعتوں کی بجائے زیادہ ووٹ تحریک لبیک پاکستان کو ملے ہیں اور وہ سندھ اور پنجاب میں ن لیگ اور تحریک انصاف کے بعد تیسری بڑی پارٹی ووٹوں کے اعتبار سے،بن کر ابھری ہے۔لاہور میں لبیک کے ووٹ پی پی پی، جماعت اسلامی۔ مرکزی مسلم لیگ اورجمعیت علمائے اسلام کے کل ووٹوں سے بھی زیادہ ہیں۔ قومی سطح پر جمعیت نے اکیس لاکھ جب کہ جماعت اسلامی نے تیرہ لاکھ ووٹ حاصل کیےجو لبیک کے حاصل کردہ ووٹوں سے تھوڑے زیادہ ہیں۔
یہ پہلا الیکشن ہے جس میں جمعیت اپنے مظبوط گڑھ کے پے کے سے محض ایک  صوبائی نشست حاصل کرسکی اوروہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عبیدالرحمان کی ہے۔خود مولانا فضل الرحمان ان کے دونوں بیٹے اور قریبی رشتہ دار اس الیکشن میں بری طرح ہار گئے اور مولانا بلوچستان کے ضلع پشین سے پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کی مدد سے قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔بلوچستان میں جمعیت تیسری بڑی پارٹی بن کرابھری ہے لیکن اس کی یہ کامیابی اس کے اپنے کارکنوں اور رہنماوں کی رہین منت نہیں بلکہ قبائلی سرداروں اور الیکٹیبلز کی بدولت ہے۔
پنجاب میں لبیک کے ووٹوں میں گذشتہ الیکشن کی نسبت دو فی صد اضافہ ہوا ہے اور لاہور اور راولپنڈی میں یہ اضافہ دس فی صد کے قریب ہوا ہے۔ پنجاب میں بعض حلقوں میں ن لیگ کی جیت اور تحریک کی شکست اور اسی طرح تحریک کی جیت اور ن کی شکست میں لبیک کے ووٹوں کا رول بہت اہم رہا ہے۔ لبیک کی انتخابی کارکردگی سے لگتا ہے کہ پنجاب میں مذہب کو تشدد اور انتہاپسندی کے لئے استعمال کرنے کے رحجانات میں اضافہ ہوگا جس کا ایک نمونہ ہمیں گذشتہ دنوں اچھرہ کے بازار میں نظر بھی آگیاہے۔