مسلسل انقلابیت  اب گنڈاپور کے نظریہ مسلسل انتشاریت تک پہنچ گئی ہے،۔صرف علاقائی تجارت معاشی ابتری میں کمی لا سکتی ہے
از، واصف اختر

  دو بار محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت 582بی کا شکار بوئی اور ہر بار سپریم کورٹ نے اس عمل کو درست قرار دیا۔ دونوں بار آئی جے آئی اور فرشتوں کی ووٹنگ کے ذریعے پارٹی کو الیکشن ہرایا گیا۔ پارٹی نے احتجاج بھی کیے لیکن کبھی جمہوری روایات کو پامال کرتے ہوئے ریاستی اداروں پر کسی طرح کا حملہ نہیں کیا بلکہ صرف قانون سازی اور قانونی چارہ جوئی کے ذریعے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں رہی۔ اس کا کریڈٹ جہاں بھٹو خاندان کی قیادت کو جاتا ہے وہیں پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو بھی جاتا ہے جنہوں نے اپنے انقلابی نظریات کی روشنی میں عوامی ابھار اور چند ہزار کی یلغار میں حدِ فاصل قائم رکھی۔ 1970, 1986, اور 2007 کی بڑی عوامی تحریکوں کے دوران پارٹی کے اندر انقلاب اور انتخاب کی بحث موجود رہی لیکن اس بحث کا فیصلہ انتخاب کے حق میں ہوا کیونکہ تینوں مرحلوں میں انقلاب کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے مفقود تھے۔ بعد کے کچھ انقلابیوں کا خیال تھا کہ اس وقت انقلاب ہو سکتا تھا۔ اس موضوع پر راشد رحمان سے گفتگو رہی جو 1970 کے تحریکی دور کے فعال کارکن تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ عوامی ابھار ایوب خان کے خلاف تھا جس میں ایوب مخالف تمام قوتیں متحد ہو گئی تھیں۔ بلکل ویسے ہی جیسے 1977 میں بھٹو مخالف قوتوں نے اتحاد بنا لیا تھا۔ سو ایسی صورت میں اس تحریک کو انقلاب کہنا بذاتِ خود فکری کم فہمی ہے۔ مزید یہ کہ جن نکات پر اتحاد بنتے ہیں اتحادی سیاست بھی انہی نکات تک محدود ہوتی ہے۔ بہرحال مسلسل انقلابیت اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ قدامت پسند ریاستوں کو جدید قومی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے درکار انقلاب کا کردار جمہوری ہوتا ہے۔ لوگ آمریت اور آمرانہ فیصلوں کے خلاف متحد ہوتے ہیں تاکہ آمریت کو جمہوریت سے تبدیل کیا جا سکے۔ اس عمل میں انقلابیوں کا کردار یہی ہوتا ہے کہ اپنے پروگرام پر عوام کی وسیع تر حمایت جیتنے کی کوشش کریں اور ناکامی کی صورت میں کم از کم پر اکتفا کریں اور یہاں سے آگے کے سفر کے لیے تیاری کریں۔ لیکن مسلسل انقلابیت اپنا سفر طے کرتے ہوئے تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور اب علی امین  گنڈاپور کے نظریہ مسلسل انتشاریت تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ پاکستان کے تمام انقلابی تحریک انصاف سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے۔ اس کی ٹھوس وجوہات ہیں اور وہ یہ کہ انکی مسلسل انقلابیت خان اور گنڈاپور صاحب کی شکل میں منعکس ہو رہی ہے۔ دوسری طرف وہ فکر ہے جس نے خود کو مرحلہ واریت اور مسلسل انقلابیت نامی مفاد پرستی اور انتہا پسندی سے علحدہ رکھا ہے اور عوامی جمہوریت کے پراجیکٹ کو آگے بڑھانے کے لیے دنیا بھر میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین دنیا بھر کے ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے عوامی جمہوریت کی بنیاد پر دنیا بھر کی 150 سے زائد معیشتوں سے اپنا تعلق استوار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے عوامی جمہوری پراجیکٹ کو چین سے سیکھنا چاہیے اور علاقائی تفاوت کی بجائے علاقائی تعاون کی طرف بڑھنا چاہیے۔ پاکستانی عوام کی بھلائی کے لیے اس سے ہٹ کر کوئی راستہ نہیں۔ صرف علاقائی تجارت کو یقینی بنانے سے مہنگائی، بے روزگاری، اور غربت میں خاطر خواہ کمی کی جا سکتی ہے