محکمہ بہبود آبادی پنجاب کاتاریخ ساز دن
بیٹیوں کی قدر و قیمت بارے آگاہی وقت کی اہم ضرورت
خواتین کے عالمی دن کے موقع پرپاپولیشن ویلفئیرکی تقریبات نے تاریخ رقم کی
عورت،ماں ِبہن بیوی اوربیٹی جیسے رشتے انمول اور لازوال ہیں
خواتین کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کئے بغیرقومی ترقی کا خواب ادھورا
ماں کی گود سے ہی بچے کو رواداری کا سبق ملے گا تو وہ معاشرہ کا مفید شہری بنے گا
محکمہ بہبود آبادی پنجاب کو جدید خطوط پر استوار کر نے کا سہرا سیکر ٹری پاپولیشن ویلفئیر اورڈائریکٹرجنرل کے سر پر ہے

بیٹیاں کمزوری نہیں باپ کی بلکہ پورے خاندان کی طاقت ہوتی ہیں۔آج کے دن کا اس سے بہتر کوئی پیغام نہیں ہو سکتا۔عورت،ماں ِبہن بیوی اوربیٹی بھی ہے۔یہ تمام رشتے ایسے انمول اور لازوال ہیں جن کی کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔یہاں اکثرعورت کے حقوق کے حوالے سے مغرب کی مثال دی جاتی ہے لیکن میں بلا خوف تردید یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ عورت کو ہر حیثیت بھی جو عزت اور مقام اسلام نے دیا اور نبی کریم نے عملی طور پر عورت کو جوعزت واحترام دیا۔نہ ماضی میں اس کی مثال تھی نہ آج ہے نہ کبھی مل سکے گی۔پاکستان کی تاریخ میں خواتین نے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔قیام پاکستان سے لے کر محترمہ فاطمہ جناح سمیت دیگر خواتین کی روشن مثالیں موجود ہیں لیکن اس کے بعد بھی پاکستان کی بیٹیوں نے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کیا۔آئی ٹی ایکسپرٹ ارفع کریم یا ملالہ یوسف زئی،شرمین عبید چنائے،کامن ویلتھ ایوارڈ فار ایکسی لینسی حاصل کرنے والی مونا پرکاش،پروفیشنل ٹریننگ کورس میں ٹاپ کرکے لنکنز ان ایوارڈ حاصل کرنے والی بیرسٹر مریم ملک،ہالینڈ کی حکومت سے ہیومن رائٹس ٹیولپ ایوارڈ حاصل کرنے والی نگہت داد،نیلسن منڈیلا پرسٹی جیئس ایوارڈ حاصل کرنے والی سوات کی تبسم عدنان)کس کس کا نام لیا جائے۔اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی خدمت سرانجام دینے والی ٹیم میں ایک پاکستانی نژاد خاتون سائنس دان نرگس ماولوالا بھی شامل تھی۔ایسی سینکڑوں بلکہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں سب کا نام لینا ممکن نہیں لیکن میں یہ ضروری کہوں گی کہ مجھے اپنی ان بہنوں اور بیٹیوں پر فخر ہے۔ پوری قوم کو اپنی بیٹیوں پر فخر ہے۔عورتیں ہماری آبادی کا نصف سے زائد ہیں اور دیہات ہوں یا شہر ماضی قریب میں عورتوں کا کردار ہر جگہ بڑھ چکا ہے لیکن معاشرے میں صحیح مقام یقینی بنانے کے لئے ان کا معاشی طور پر خود مختار ہونا ضروری ہے۔ خواتین کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کئے بغیرقومی ترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔ خواتین کے کردار کے بغیر ترقی کی ہر کاوش بے سود ہو گی۔ خواتین کی ترقی او رخوشحالی کے لئے کوئی بھی پالیسی اور کوئی بھی اقدام مردوں کے تعاون کے بغیر کامیابی کی منزل طے نہیں کر سکتا۔مردوں کو اپنی بہنوں،بیٹیوں اور ماؤں کو ان کے حقوق دلانے کے لئے اپنے سوچ اور قلب میں وسعت پیدا کرے او رعورتوں کے حوالے سے اپنی سوچ اور رویے میں مثبت تبدیلی لانا ہو گی۔ہر معاشرے میں حقوق کی یکساں فراہمی کے لئے تعلیم بنیادی ضرورت ہے۔ اس لئے ہمیں عورت کی تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہیے۔کیونکہ ایک عور ت کی تعلیم دراصل ایک خاندان اور ایک نسل کو تعلیم دلانے کے مترادف ہے۔عورتوں پر ظلم ہی نہیں ان کو اپنے حقوق سے بھی دستبردار ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔عورتوں کو جائیداد کے حق سے محروم رکھاجاتا ہے اور کم عمری میں ان کی مرضی کے بغیر ہی ان کی شادی کرکے ان سے تعلیم کا حق چھین کر ان پر خاندان کی ذمہ داری کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل اور ان پر تیزاب پھینک کر انہیں زندہ در گور کر دیا جاتا ہے۔ایک طرف معاشرے میں عورتوں کے حقوق اور مقام کا احساس بڑھتا جارہا ہے تو دوسری طرف انتہا پسندی اور دہشت گردی کے موجودہ تناظر میں خواتین کا کردار بہت زیادہ اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ خواتین کی مدد اور تعاون کے بغیر انتہا پسندی اورتشدد کے خلاف جنگ کو نہیں جیتا جا سکتا۔ ماں کی گود سے ہی بچے کو رواداری کا سبق ملے گا تو وہ معاشرہ کا مفید شہری بنے گا۔ ملک میں تحمل،رواداری اور برداشت کے فروغ میں خواتین کا کردار کلیدی ہے۔ماضی میں خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لئے قابل قدر اقدامات کئے۔
محکمہ بہبود آبادی پنجاب کو جدید خطوط پر استوار کر نے کا سہرا سیکر ٹری پاپولیشن ویلفئیرسلمان اعجاز اورڈائریکٹرجنرل ثمن رائے کے سر پر جاتا ہے جنہوں نے افسران و اہلکاران کو ان کی اہمیت و افادیت بارے آگاہی اور ان کی خدمات کو وقت کی مناسبت سے نکھارا۔آج ہر شخص کہنے پر مجبور ہے کہ محکمہ بہبود آبادی حکومت پنجاب کے ماتھے کا جھومر بن گیا ہے۔ماں باپ اور بزرگوں کے دل و دماغ میں بیٹیوں کی قدر و قیمت بارے آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس سلسلہ میں ایسے والدین و بزرگواران کو شعوری طور پر آگاہی دینا ہو گی جو بیٹیوں کو زحمت سمجھتے ہوئے ان کی ہر مقام پر حق تلفی کو ترجیح دیتے ہوئے ان کے حقو ق سلب کر لیتے ہیں۔ محکمہ بہبوود آبادی پنجاب نے صوبہ بھر میں قائم اپنے پاپولیشن دفاتر میں ویمن ڈے کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کر کے دنیا کو پیغام دیا کہ آج کے ترقیافتہ دور میں عورت جتنی طاقتور ہے قہ پہلے کبھی نہ تھی۔حکومت پنجاب نے ہر سطح پر ان کو مفید اور معاشرے کا کارآمد شہری بناے پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔اس سلسلہ میں ان کو تعلیم یافتہ بنانے،اعلیٰ نوکریوں کا حصول، گھر ہستی چلانے اور مسقبل کے بہترین فیصلوں بارے آگاہی نکی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔انہیں ہر قسم کی صحت سے وابستہ سہولیات چھوٹے خاندان کی خوشحالی بارے ابتدائی سطح پر معلومات کی فراہمی سے ان کو شادی سے پہلے اور بعد کے فیصلہ سازی بارے شعور یافتہ بنایا جا رہا ہے۔
وویمن پروٹیکشن بل اورانسداد تشددمراکز کو عالمی اعزازی یافتہ پراجیکٹ میں شامل کیاگیا ہے۔ورک پلیس پر خواتین کے لئے واش رومز،ڈے کیئر سنٹرز،ورکنگ ہاسٹل،ملازمتوں میں 15فیصد کوٹہ،خواتین کے لئے سرکاری ملازمت میں عمر کی رعایت،بچے کی پیدائش کے بعد تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں،پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین اور 1043ہیلپ لائن بھی حکومت کا اعزاز ہے۔اس سال وویمن ڈے کے عالمی دن کاموضوع ”ملک کی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لئے خواتین کی فلاح وبہبود پر سرمایہ کاری“ ہے۔حکومت خواتین کو معاشی نقصانات اور تشدد سے بچاؤ کے لئے زیروٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔حکومت نے خواتین ڈے پر اپ ڈیٹڈ ”وویمن سیفٹی ایپ“ لانچ کی جارہی ہے۔یہ ایپلی کیشن پولیس 15سسٹم سے مربوط ہے اورپنجاب پولیس کو رئیل ٹائم الرٹ فراہم کرتی ہے۔جب بھی ایپ استعمال کرنے والی خاتون گھبراہٹ یا مشکل میں ہوگی ایہ ایپلی کیشن خود بخود گھبراہٹ زدہ خاتون کی لوکیشن پولیس کے ساتھ شیئر کرتی ہے۔اس ایپلی کیشن میں پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے ڈیوٹی آفیسرکے ساتھ لائیو چیٹ،قریبی رشتے داروں کے ساتھ لوکیشن اورکمرشل سواری کی تفصیلات بھی ریکارڈ کی گئی ہیں۔ایپ کو استعمال کرنے والی خاتون سفر کا آغاز کرتی ہے تو راستے سے ہٹنے پر خودبخود الارم پیدا ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں یہ ایپ اپنی مثال آپ ہے۔ جس سے خواتین میں احساس تحفظ پیدا ہوگا اوروہ بے خوف خطر آگے بڑھ سکیں گی۔
محکمہ بہبودِآبادی پنجاب نے ٹی سی آئی گرین سٹار کے تعاون سے عالمی یومِ خواتین اور جشنِ بہاراں کے سلسلے میں آگاہی سٹال کا اہتمام کیا۔ جو ایک ہفتہ جاری رہے گا۔ سٹال کا فتتاح ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن ویلفیئر ڈپارٹمنٹ پنجاب ثمن رائے نے کیا۔ اس موقعے پر ڈجی محکمہ بہبودِآبادی پنجاب نے عوام الناس سے تعارف کیا اسٹال کی افادیت کے متعلق سوالات کئے، خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق خود رہنمائی بھی کی، اور خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات بھی تقسیم کئے۔ اس ضمن میں ایک واک کا بھی اہتمام کیا گیا۔ ڈی جی ثمن رائے کا کہنا تھا کہ خواتین کی فلاح و بہبود میں ہی قوم کی ترقی کا راز چھپا ہے اس لیے سب کو خواتین کی تعلیم اور زندگی کے مختلف شعبوں میں شمولیت کو فروغ دینا چاہیے.عالمی یومِ خواتین کے سلسلے میں ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفس، لاہور نے ٹی سی آئی گرین سٹار کے تعاون سے آگاہی سیمنار کا انعقاد کیا جس میں ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفیسر مظہر اقبال، ڈائریکٹر پلاننگ عامر امجد،، ریجنل ڈائریکٹر میری سٹوپ عامر یوسف، ڈسٹرکٹ ڈیمو گرافر طاہر صدیقی، ماہر ِ نفسیات، شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے، اور عوام الناس کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس ضمن میں سائکالوجسٹ انزہ جاوید نے خواتین کی ذہنی فلاح و بہود پر زور دیا۔ جرنلسٹ اور سوشل میڈیا انفلوانسر تحریم قاضی نے خواتین کو یکساں حقوق فراہم کرنے میں مردوں کے کردار پر بات کی، شازیہ سراج سٹی مینجر ٹی سی آئی گرین سٹار نے خواتین کو خواتین کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے پر اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔ ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفیسر مظہر اقبال نے خواتین کی اہمیت و کردار پر بات کی اور اس بات کا اعادہ کیا کہ محکمہ بہبودِآبادی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے گا اور مزید بہتری کی راہ پر گامزن ہوگا۔خواتین نے شبانہ روز محنت اور لگن سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ خواتین اور بچوں پر تشدد اور ہراسگی کے واقعات پر زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ دیگر طبقات کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کے قانونی حقوق کے تحفظ کے ایجنڈے پر کاربند ہے۔
خواتین کو بااختیار بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور بااختیار بنانے کا مطلب اس کوبہادربنانااوروسیع پیمانے پر اپنی زندگی کوتشکیل دینے کے لئے انتخاب اوراس پر عمل کی آزادی کو آگے بڑھانا ہے یعنی وسائل اور فیصلوں پر کنٹرول ہے۔ ایک بااختیارعورت وہ ہو گی جو پر اعتماد ہو، جو اپنے ماحول کا تنقیدی تجزیہ کرتی ہو اور جو اپنی زندگی کو متاثر کرنے والے فیصلوں پرکنٹرول رکھتی ہو۔ بااختیار بنانے کا خیال سماجی تعامل کی تمام سطحوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ کمزور اور پسماندہ لوگوں کو آوازدینے میں پایا جاتا ہے۔ اس کے لیے صلا حیتوں کی توسیع کے لیے ضروری آلات اور مواد تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔خواتین کو بااختیار بنانے کے پانچ اجزاء ہیں: خواتین میں خود کی قدر کا احساس، انتخاب کرنے اور تعین کرنے کا ان کا حق، مواقع اور وسائل تک رسائی کا ان کا حق، گھر کے اندر اور باہر، اپنی زندگی کو کنٹرول کرنے کااختیار،پسندیدہ چیز حاصل کرنے کا ان کا حق اور قومی اور بین االقوامی سطح پر ایک زیادہ منصفانہ سماجی اور اقتصادی ترتیب بنانے کے ل یے سماجی تبدیلی کی سمت کو متاثر کرنے کی ان کی صالحیت۔ عام طور پر، بہت کم لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانا اور صنف ایک غیر ملکی ایجنڈا ہے لیکن اس کی واحد غلط فہمی پوری دنیا میں خواتین کو تاریخ کے آغاز سے ہی چیلنجز اور صنفی عدم مساوات کا سامنا رہا ہے۔ اگر ہم قرآن اور حدیث سے مدد لیں تو معلوم ہوگا کہ دونوں خواتین کے حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیتے ہیں جن میں تعلیم، عبادت، آزادی رائے، شریک حیات کے انتخاب، معاشی آزادی اور سماجی کردار کے حقوق شامل ہیں۔قومی ترقی کومردوں اور عورتوں دونوں میں وسائل کی مساوی تقسیم کے ساتھ متوازن ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان میں خواتین کل آبادی کا تقریبا 51 فیصد ہیں اور خواتین کی فعال شمولیت کے بغیرپاکستان ترقی کی مطلوبہ سطح کو حاصل نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی اسے غربت کی لعنت وراثت میں ملی اور اس غربت کا بوجھ خواتین کی آبادی پر بہت زیادہ ڈاال گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کی اکثریت زراعت کے کاموں، گھر کی دیکھ بھال، پانی اٹھانے اور جمع کرنے کے کاموں میں مصروف ہے۔ لیکن پیداواری سرگرمیوں میں ان کا کام غیر تسلیم شدہ ہے اور اس وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت کم دکھائی دیتی ہے۔اس حوالے سے محمد علی جناح نے فرمایا ” کوئی بھی قوم اس وقت تک عظمت کی بلندی پرنہیں چڑھ سکتی جب تک کہ تمہاری عورتیں تمہارے شانہ بشانہ نہ ہوں۔ ہم بری رسم و رواج کا شکار ہیں۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے کہ ہماری خواتین کو گھروں کی چار دیواری میں قیدی بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ہماری خواتین کو جس ناگفتہ بہ حالت میں رہنا پڑتا ہے اس کی کہیں بھی ”اجازت نہیں ہے۔عالمی سطح پر صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانا، ترقی کے حصول کے لیے اہم ہتھیار ہیں اس لیے خواتین کو مرکزی دھارے میں النا بہت ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں محکمہ بہبود آبادی کے دفاتر میں تعینات عملے کے کام کی آن لائن لائیو وڈیو مانیٹرنگ اور اس کے لیے مرکزی مانیٹرنگ اور کنٹرول روم قائم کیا ہے۔ اس مقصدکیلئے سیکر ٹری پاپولیشن اور ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن ویلفیئرنے وزیر اعلیٰ کے ویژن کے مطابق محکمہ کی طرف سے کئے جانے والے کاموں، بجٹ اور کاموں کے بارے میں مانیٹرنگ کا عمل شروع کر دیا ہے۔ شہریوں کو ضروری معلومات اور رہنمائی کی فراہمی کے لیے چار ہندسوں پر مشتمل ہیلپ لائن قائم کرنے اور اسے روزانہ 12 گھنٹے فعال رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ اس مقصد کے لئے محکمہ بہبود آبادی کی جانب سے فراہم کی جانے والی خدمات کے بارے میں عوامی آگاہی کے لیے ایک موثر میڈیا مہم چلائی جارہی ہے۔ محکمے کے کاموں کی اہمیت کے پیش نظر عملے کی تربیت کے لیے ایک جامع نظام وضع کیا جا رہا ہے۔ عوامی آگاہی کے پیغامات اور پروگراموں کی تیاری کے لیے پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں اسٹوڈیو قائم کیا گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے ‘چھوٹے خاندان کا خوشحال پاکستان’ کے نعرے کو فروغ دینا ہو گا۔ محکمہ بہبود آبادی کی تنظیم نو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق کی جارہی ہے۔ صوبہ بھر میں محکمہ کے سوشل موبلائزرز اور فیلڈ ورکرز کی کارکردگی قابل ذکر ہے۔ محکمہ بہبود آبادی پنجاب کے مختلف منصوبوں کی رپورٹنگ اور مانیٹرنگ کے لیے ویب پورٹلز اور ڈیش بورڈز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں ای رجسٹریشن، سٹریٹجک مینجمنٹ یونٹ، علمائے کرام اور خطیبوں سے رابطے، خدمات کو مضبوط بنانے اور سروس ڈیلیوری پروگرام شامل ہیں۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی ٹیم نے تمام ڈیش بورڈز اور پورٹلز بنانے میں بے حد معاونت کی ہے۔
باخبر انتخاب کرنا اور اپنے دستیاب وسائل کے مطابق خاندان قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات حاصل کرنے کے لیے شوہر اور بیوی دونوں کے درمیان مشاورت ایک خوشحال مستقبل کی طرف ایک چھلانگ ہے کیونکہ ماں اور بچے کی صحت کے لیے پیدائش میں وقفہ ضروری ہے۔ اس سلسلے میں نوبیاہتا جوڑوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آبادی کے اس عالمی دن کے موقع پر ہمیں خواتین کو سماجی و اقتصادی طور پر بااختیار بنانے کا عہد بھی کرنا ہے۔ ایک بااختیار عورت آبادی میں تیزی سے اضافہ وغیرہ جیسے چیلنجوں پر قابو پانے میں مدد کر سکتی ہے۔ باپ، بھائی اور شوہر، خاندان کے مرد ارکان ہونے کے ناطے، ہمیں اپنی خواتین خاندان کے ارکان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا۔ پائیدار سماجی و اقتصادی ترقی حکومت پنجاب کی اولین ترجیح ہے۔ یہ مقصد اسی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب ہم سب اپنے معاشرے میں چھوٹے اور متوازن خاندان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔ تمام اسٹیک ہولڈرز، سرکاری محکموں اور ترقیاتی شراکت داروں کی مشاورت سے پنجاب پاپولیشن پالیسی تیار کی گئی۔