ایک بلوچ بچے کی ڈائری
/ بلوچستان میں دہشت گردی، مشرف آمریت کے جبر و استبداد کے پس منظر کی کہانی ایک بچے کے احساسات کی زبانی
تحریر ،  عبدالغفار بگٹی
——————

میں شاید گاؤں کا واحد فرد رہ گیا تھا کہ جس کو اب بھی آوازیں سنائی دیتی تھیں. باقی تمام اب ان آوازوں کی گرفت سے آزاد تھے. شاید اس لیے کہ ایک زمانے سے بمباری اور گولیوں کے شور نے ان کی سماعت چھین لی تھی۔ میں تو شہر میں رہتا رہا ہوں مجھے تو گاڑیوں کے ہارن, چلتی مشینوں کی ڈگڈگی  یا پھر سابق فوجی دستوں کے شادیانے بجانے کی آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں۔ اور ہاں، اگر  کبھی جب جلدی آنکھ کھلتی تو ہاسٹل کے لان میں بیٹھے پرندوں کی چہچانے کی آوازیں بھی سن لیتا تھا
 اچانک اس کو پھر سے اس آواز نے اپنے اندر لپیٹ لیا
اب اس کے خیالات کا ربط  ٹوٹ چکا تھا
اس آواز کے ساتھ چاند بھی کھڑکی سے اندر جھانک رہا تھا.ابھی اسے کھڑکی بند کرنے کی ہمت بھی نہیں ہورہی تھی
وہ روز کی طرح آج بھی کچھ پوچھنے آیا تھا۔
وہ ہر روز اپنا سوال اس کی سماعتوں کی نظر کر کے چلاجاتا اور اگلے روز جواب طلب کرتا. اور یہ سلسلہ گاؤں میں چھٹیوں کے دنوں  میں رہتا اور شہر جاتے آخری رات اس کے کان میں گاؤں کی تمام داستانیں سنا کر نکل جاتا
کچھ دن پہلے اس نے خلاف معمول ایک کے بجائے دو سوال پوچھ لیے تھے. ” دہشتگرد  کون ہوتے ہیں؟ اور وہ یہ کام کیوں کرتے ہیں؟”
اگلے دن میں نے اس بتایا کہ دہشتگرد تو وہ ہوتے ہیں جو دہشت پھیلاتے ہوں. جن کی موجودگی میں خوف و ہراس پھیلتا ہو، اور لوگ ان کے سامنے اپنے حق کی بات کرنے سے بھی ڈرتے ہوں
اور وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی کوئی غلطی چھپانے کے لئے دہشت پھیلاتے ہوں۔
ہمممم! کچھ دیر بعد پھر سے گرجدار سوال نے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔ وہ کہنا لگا کہ
“آج کل آپ  لوگ کس سے زیادہ خوف کھاتے ہو؟”
میں سوچنے لگا .کافی دیر کی خاموشی نے اس کی برداشت کے پیمانے لبریز کردیے تھے اور وہ طیش میں آ کے بولنے لگا۔
“بتاتے کیوں نہیں؟”
میں  ڈرتے ڈرتے بول پڑا
آج کل…. ریاست اور خدا .. بس بول دیا۔۔۔۔ یا منہ سے نکل گیا۔
“وہ ڈاننتے ہوئے کہنے لگا کہ آپ ریاست اور خدا کو دہشتگرد کہہ رہے ہو؟”
میں نے کہا، نہیں تو۔۔۔
خدا اور ریاست کو نہیں، ان کا وجود انسانیت کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے. اور ریاست کے اداروں کے وجود کا مطلب امن و امان ہوتا ہے.وہ تو سب کو تحفظ فراہم کرتے ہیں. سب اپنے جان و مال اور عزت و آبرو ,عقیدے کو محفوظ سمجھتے ہیں. مگر آج کل خدا اور ریاست کے منتظمین نے ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے. خدا نے ہمیں زندگی بخشی اور ریاست نے ہماری زندگی کے تحفظ  کا ذمہ اٹھا رکھا ہے .مگر اب خدا کے منتظمین ہمارے لئے زندگی تنگ کررہے ہیں اور ریاستی ادارے گھر۔
میری بات ختم ہونے کی دیر تھی. کہ رونے کی آواز انے لگی. جب تک میں جاگتا رہا, وہ آواز آتی رہی

دوسرا حصہ
 

ایک بلوچ بچہ  تھیلی نما بیگ اٹھائے حصول علم کے لیے ڈیرہ بگٹی  شہر کے درمیان گزرنے والی واحد ٹوٹی سڑک پر چلتا جارہا تھا . یہ وہ سڑک تھی جسے بم دھماکوں نے کئی اطراف سے تباہ کر رکھا تھا. ایک دو جگہوں پر گہرے شگاف پڑنے کی وجہ بارش کا پانی جمع ہوچکا تھا. اس کو ایک دو دفعہ پلنگنا پڑا. مگر اب اس نے اپنا آدھا سفر طے کرلیا تھا. مگر اس نہتے  سفر میں  اس کے ذہن میں ماضی کے گزرے تلخ نقوش بھی ساتھ ابھر رہے تھے.اس کو وہ جنگی  فوجی جہاز نظر آ رہے تھے جو اس کے سر کے اوپر سے تلملا رہے تھے .اس کو وہ دن یاد آرہا تھا جب اس کے ابو نے کمرے میں بیٹھنے سے سختی سے منع کیا تھا اور خصوصاً اس کو باہر بٹھا دیا تھا, کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ فوجی جہاز بچوں اور عورتوں پر فائرنگ نہیں کرتے. دن کی روشنی نکلنے کے ساتھ کمرے سے باہر بٹھا دیا کرتے تھے. اور غروب آفتاب کے بعد کمرے میں جانے کی اجازت ہوتی. اس کو یاد آ رہا تھا کہ کئی دن تک  دل دہلانے والے دھماکوں کی آوازوں سے اس کے کان مانوس ہوگئے تھے.اس کی امی کی واحد بکری گھر سے چرنے کے لئے نکلی تھی، مگر شام تک واپس نہیں آئی. اگلے دن گھر سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر اس کی لاش ملی تھی جس پر ہیلی کاپٹر کی گولیوں کے نشان تھے .اس دن پہلی دفعہ اس نے اپنی  امی کو روتے ہوئے دیکھا تھا .اماں روتے ہوئے کہے رہی تھی، “اللہ مشرف کے بچوں کو بھی دودھ والی چائے سے محروم کرے جس طرح اس نے میرے بچوں کو چائے سے محروم کردیا.” اس کے ذہن میں گھر چھوڑنے کا آخری منظر بھی چل رہا تھا جب اس کے ابو, چاچو کا پانی والا بوزر لے آئے تھے اور سارے بستر اور  بچوں کو اس میں ڈالا گیا تھا اور سب کسی گمنام رستے کی طرف چل پڑے تھے . دن بھر بھوکا سفر کرنے کے بعد, شام کے وقت وہ کسی جنگل کے پاس رکے تھے اور ساری رات آگ جلا کر اس کے گرد بیٹھے تھے.اتنی دیر میں اپنے خیالوں کی سیر کاٹتے کوئے سکول کے دروازے تک پہنچ گیا تھا .اسکول میں داخلے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ آج پھر سے بے مقصد ادھر آیا ہے. کیونکہ  جس عظیم ہستی نے اسے علم کی شمع سے اُس کی زندگی کی ان گھٹا ٹوپ وادیوں کو منور کرنا تھا، کسی کام سے اسکول تشریف نہیں لائے تھے . ہیڈ ماسٹر کے دفتر کا چکر لگا کر استاد کا پوچھنے گیا مگر پتہ چلا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب خود پچھلے ہفتے سے اسکول سے غیر حاضر ہیں. دل پر پتھر رکھ کر بوجھل قدموں کے ساتھ اسکول سے باہر نکلا اور اسی راستے سے گزرتے ہوئے لوگوں کو اجنبی نگاہوں سے دیکھتا چلا گیا۔ راستے میں بنے چائے کے ہوٹل کے ساتھ کچھ لوگ چٹائی پر بیٹھے شہر کے گزرے ہوئے حالات ,حکومتی گرفتاریوں اور طاقت ور حلقوں کے جرمانوں کی داستانیوں کے ساتھ  موسم کی اچانک تبدیلی پر تبادلہ خیال کررہے تھے۔ گھر پہنچے کے بعد اگلے ہفتے تک اسکول نہ جانے کا ارادہ کر لیا۔ ویسے بھی اسکول  اپنے شوق سے جایا کرتا ہوں نہ کہ گھر والوں کے کہنے پر ۔کیونکہ گھر والے تو پڑھے لکھے نہیں تھے