مستقبل میں طبقاتی انقلاب کیسا ہو گا ؟

   فرانس ، روس ،  چین ، کیوبا جیسےانقلابات کم ہوں گے،  تیسری دنیا کے لیفٹ کا تخلیقی رد عمل غیر متشدد جمہوری طریقے سے طاقت کا توازن بدلے گا ۔
    
بائیں بازو کے لیڈران اورکارکنوں میں سب سے زیادہ زیر بحث آنے والے موضوع  انقلاب کے مستقبل پر گفتگو کی جانی  ہے اس ضمن میں  تخیل اورمفروضہ یا قیاس آرائی کے  کردار  پر مذید گہرائی میں جا کر بحث کا سلسلہ جاری رہے گا تاہم انقلاب کےموضوع زیر نظر تحریر بھی قارئین کے لیے سوچ کے نے درکھولے گی ۔  
ایرک ہابسبام Eric Hobsbawm کا یہ کہنا سچ ہے کہ ہم مستقبل کے بارے میں نہیں جان سکتے۔ اس کا کہنا ہے کہ” انقلابی حالتیں  امکانات سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا تجزبہ پیش گوئی والا نہیں ہوتا  ۔ ان کے بارے میں پیشین گوئی پر خطر ہوتی ہے ” ۔ مستقبل سے متعلق غور وفکر پیش گوئی سے مختلف ہے ۔ غور وفکر سے وہ بصیرت حاصل ہو سکتی ہے جو ہمیں بہتر مستقبل کے حصول میں مدد دیتی ہے ۔ اس کے تین طریقے ہیں۔
 ماضی کے انقلابات کا مطالعہ ، ( ماضی کے تجزیہ یا مطالعہ سے ہمارے لبرلز اور  لمپن ، ان گھڑت لیفٹ کو بہت چڑ ہے۔ طرح طرح کے القابات سے نوازتے ہیں  ) حال ، ماضی سے کس قدر  مختلف  ہے ؟  مستقبل کیسا  ہوگا ؟ سماجی سائنسی طریقے سے ۔
  مستقبل کو نظریوں،  وجوہات، واقع ہونے والے عملوں اور نتیجوں کے حوالے سے دیکھنا ، ان نظریوں کی روشنی میں نتیجہ اخذ کرنا کہ مستقبل حال سے کیسے تبدیل ہو رہا ہے۔
 قوت تخیل کو استعمال کرتے ہوئے مستقبل کے امکانات سے متعلق قیاس آرائی ( مفروضہ قائم ) کرنا۔
انقلاب کی تعریف
تھیڈاسکوکپول Theda Skocpol کے بقول “کسی معاشرے، ریاست اور طبقاتی ڈھانچے کی کشمکش سے طبقاتی بنیادوں پر اٹھنے والی بغاوتوں کے ساتھ اور جزوی طور پران کے ذریعے ہونے والی فوری اور بنیادی تبدیلی 
بیسویں صدی انقلابوں کی صدی تھی ۔ گلوبلائزیش/ فری مارکیٹ اور سوویٹ ناکامی کے بعد یہ سوالات ابھر رہے ہیں کہ انقلابوں کا دور ختم ہو گیا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیوں؟ اگر نہیں تو مستقبل کے انقلابات کیسے ہوں گے ؟ فوکویاما کے نزدیک تاریخ کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔ جیف گوڈون Jeff Godwin کہتا ہے ” کیونکہ تاریخی طور پر آمرانہ جابر حکومت متشدد انقلابی تصادم کی پذیرائی رکھتی تھی۔ اس لیئے کالونیلزم  کے خاتمہ کے ساتھ بیلٹ بکس اب انقلابوں کا تابوت بن گیا ہے ۔ ایرک سیلبین Eric Selbin اقتصادی دلیل سے اس موقف کو رد کرتا ہے کہ  ” جیسے جیسے  عالمی سطح پر امیروں اور غریبوں میں فرق بڑھتا جا تا ہے اور نیولبرل ازم اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوتا ہے ۔ انقلابات کا امکان بڑھتا جاتا ہے ۔ فوران،  سیلبین سے اتفاق کرتا ہے کہ نیولبرل ازم کے غلبے کے ساتھ  شمال اور جنوب میں نابرابری گہری ہوتی چلی جائے گی اور یہ کہ تیسری دنیا کے بائیں بازو کی طرف سے تخلیقی رد عمل پیدا ہوگا جو غیر متشدد جمہوری طریقے سے طاقت کا توازن بدلے گا ۔
انقلابات کے بارے کہا جاتا ہے کہ قصہ پارینہ ہو گئے ہیں ۔ ٹوقویل ( Tocqueville ) کہتا ہے کہ عظیم  انقلابات کمیاب ہوتے ہیں اور زیادہ کم ہو سکتے ہیں :” ہو سکتا ہے فرانس ، روس ،  چین ، کیوبا جیسےانقلابات کم ہو جائیں لیکن جب تک استحصال،  نابرابری ، ناانصافی، اور ظلم و جبر جاری ہیں لوگ آزادی،  برابری اور انصاف کے لیے دستیاب وسائل کے ذریعے جدوجہد کرتے رہیں گے ۔ انقلابات  گہری نسانی تخلیق ہوتے ہیں نہ کہ ناگزیر قدرتی افعال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انقلاب آتے نہیں بلکہ لائے( کیے ) جاتے ہیں . مزید وضاحت  کے لئے ہابسبام کی پھر ضرورت پڑ گئی ، اس کے الفاظ میں  ” انقلابی حالات ” ہوتے ہیں۔ معروض اور موضوع   ۔ مزید گفتگو، مکالمہ، جاری ہے