سانحہ  ۹ / مئی ۲۰۲۳ کا سانحہ اتنا افسوسناک ، المناک اور دلخراش واقعہ ہے کہ اس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے ، کم ہے ؛ جتنے آنسو بہائے جائیں تھوڑے ہیں اور  اپنے جتنے بھی بال نوچیں جائیں ، کم ہیں –  اپنے ہی منہ پر طمانچہ مارنے کو دل چاہ رہا ہے ۔ ہاتھ اس سانحے کے اوپر لگھتے ہوئے کانپ رہے ہیں، زبان اس پر بولتے ہوئے لڑ کھڑا جاتی ہے اور قلم اس سانحے پر لکھتے ہوئے شرما رہا ہے کہ کیا لکھیں اور کیا نہ لکھیں ۔  یہ  اتنا غضبناک  سانحہ ہے کہ اس کی معافی تو شاید مل جائے لیکن تلافی ممکن نہیں ۔ شیشہ جب توڑ دیا جائے تو وہ اپنی اصلی شکل میں کبھی واپس نہیں آ سکتا ۔  کسی قوم پر اس سے برا وقت نہیں آ سکتا جب اس کے اپنے ہی لوگوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی گھر کو آگ لگا دی ہو اور پھر اس پر فخر بھی محسوس کیا ہو تالیاں بھی بجائی ہوں اور خوشیاں  بھی منائی ہوں اور اس سے بھی بڑی زیادتی اس وقت ہوئی جب پوری قوم اس سانحے کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنی دھرتی ماں کی بے حرمتی  پر باہر نکلنے کی بجائے گھروں میں بیٹھی رہی ۔ اب جوں جوں  لوگوں کے ضمیر جاگتے جا رہے ہیں توں توں اس سانحے کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں ، اپنی بہادر فوج کے حق میں ریلیاں نکل رہی  ہیں اور سنجیدہ طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ کیا ہمیں بحیثیت پاکستانی اس سوچ کی حمایت کرنی چاہیے جس کے زیر اثر آ کر یہ سانحہ رونما ہوا
اپنے شہداء کی قربانیوں کا جس طرح مذاق اڑایا گیا ، ان کے خون سے جو بے وفائی کی گئی ، جس طرح ان کی تصویروں اور مجسموں  کی بے حرمتی کی گئی ہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ جن لوگوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ان کے خلاف قانون تو اپنا راستہ لے گا ہی، دھرتی ماں بھی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ان کا انتظار کر رہی ہے کہ کب وہ اس میں دفن ہوں اور کب وہ اپنے تمام زہریلے حشرات ان کی قبروں میں انڈیلے جنہوں نے اس دھرتیُ ماں کی عصمت کو تار تار کیا ہے ۔ قیامت کے روز  قائم ہونے والی میزان عدل پر وہ سب شہداء اور ان کی روحیں بھی اب ان لوگوں کی منتظر رہیں گی  جنہوں نے ان  کے مجسموں کو توڑا ، ان کی تصویروں پر پتھر اور جوتیاں برسائیں اور ان کو پھاڑا ۔ رب کائنات ان شہداء اور ان کے یتیم ہونے والے بچوں کو اس جزا کے دن اختیار دے گا کہ وہ خود ان افراد کی سزا تجویز کریں جنہوں نے ان کے خون سے بے وفائی کئ ۔ ان شہداء کی روحیں اب تنہائی میں اور  رات کے اندھیروں میں ان لوگوں کا ضرور پیچھا کیا کریں گی جنہوں نے ان شہداء کی روحوں کو تڑپایا ہے ۔
سانحۂ ۹/ مئی سقوط ڈھاکہ سے بھی بڑا سانحہ ہے ۔ ۱۹۷۱ میں پاکستان کے قلعے کی دیواریں گرا دی گئیں تھیں اور چھت توڑ دی گئی تھی لیکن ۲۰۲۳ کے اس سانحے نے تو مملکت خداداد پاکستان کی بنیاد کو ہی ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عمارت کو ایسی مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے کہ قیامت تک اس کی اساس کی ایک اینٹ بھی نہ ہل سکے اس کے لئے ضروری ہے کہ وطن کے ہر  شہری خصوصا بچوں کے دلوں میں وطن اور اپنی پاک فوج سے محبت اور عقیدت کے جذبے کو اجاگر کیا جائے  ان کو وطن کی اہمیت کا احساس دلایا جائے اپنی افواج سے محبت و عقیدت کا درس دیا جائے ، فوجی وردی کے تقدس اور شہید کے خون کی عظمت بتائی جائے پانچویں کلاس تک ہر کتاب کے آخری صفحے پر قومی پرچم اور نشان حیدر پانے والے شہداءُکی تصویروں کا چھاپنا لازمی قرار دیا جائے ، سکولوں کالجوں یونیورسٹیز اور سوشل میٹنگز میں باقاعدگی سے اپنی افواج کے ساتھ یکجہتی کے پروگراموں کو تشکیل دیا جائے سوشل میڈیا پر  فوجی نغموں اور قومی ترانوں کو مسلسل سنایا جائے ٹی وی پروگراموں میں حاضر فوجیوں اور شہداء کی فیملیز کو بلایا جائے تمام والدین پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دلوں میں وطن اور افواج پاکستان سے محبت کے جذبے کو اجاگر کریں ان کو شہداء کی بہادری کی کہانیاں سنائیں اور  ان کے دلوں میں فوج کو جوائن کرنے اور شہادت پانے کے جذبے کو اُبھار یں
۹ / مئی کے سانحے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے یہ ملک و قوم کے ساتھ اتنا بڑا جرم اور ظلم ہوا ہے قیامت تک جسکی تلافی ممکن  نہیں ، ہر پاکستانی شہری کو اپنی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اس سانحے کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے.
 سانحہ ٩ مئی پر ممتاز کالم نگار ڈاکٹر تنویر احمد خان کی اشکبار کر دینے والی تحریر