اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے
 سورئہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ 
تحریر، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
 
فرمایا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا ہے اور سورئہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ ‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۵)
فرمایا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا ہے اور سورئہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ ‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۵) اس سے معلوم ہواکہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ خدا کا فرشتہ غارِحرا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ ماہِ رمضان کی ایک رات تھی۔ اِس رات کو یہاں شب ِقدر کہا گیاہے اور سورئہ دُخان میں اِسی کو مبارک رات فرمایا گیا ہے: ’’ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔ ‘‘ (۳)

اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک کہ یہ اِس رات پورا قرآن حاملِ وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا، اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً ۲۳ ؍سال کے دوران میں جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر نازل کرتے رہے۔ یہ مطلب ابن عباسؓ نے بیان کیا ہے (ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مردُویہ، بیہقی)۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اِس رات سے ہوئی۔ یہ امام شعبی کا قول ہے اگرچہ اُن سے بھی دوسرا قول وہی منقول ہے جو ابن عباس کا اُوپر گزرا ہے۔ (ابن جریر) بہرحال دونوں صورتوں میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر قرآن کے نزول کا سلسلہ اسی رات کو شروع ہوا اور یہی رات تھی جس میں سورئہ علق کی ابتدائی پانچ آیات نازل کی گئیں۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی آیات اور سورتیں اللہ تعالیٰ اُسی وقت تصنیف نہیں فرماتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور آپ کی دعوتِ اسلامی کو کسی واقعہ یا معاملہ میں ہدایت کی ضرورت پیش آتی تھی، بلکہ کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے ازل میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زمین پر نوعِ انسانی کی پیدائش، اس میں انبیاء کی بعثت، انبیا پر نازل کی جانے والی کتابوں اور تمام انبیاء کے بعد آخر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کو مبعوث فرمانے اور آپؐ پر قرآن نازل کرنے کا پورا منصوبہ موجود تھا۔ شب ِقدر میں صرف یہ کام ہوا کہ اس منصوبے کے آخری حصے پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ اُس وقت اگر پورا قرآن حاملینِ وحی کے حوالے کر دیا گیا ہو تو کوئی قابلِ تعجب امر نہیں ہے۔ قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لئے ہیں یعنی یہ وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لئے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کی تائید سورئہ دُخان کی یہ آیت (۴) کرتی ہے: ’’اُس رات میں ہرمعاملے کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے۔ ‘‘ بخلاف اِس کے امام زُہری کہتے ہیں کہ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں، یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے۔ اِس معنی کی تائید اِسی سورہ کے اِن الفاظ سے ہوتی ہے کہ ’’شب ِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘
اب رہا یہ سوال کہ یہ کون سی رات تھی، تو اس میں اتنا اختلاف ہوا ہے کہ قریب قریب ۴۰؍مختلف اقوال اِس کے بارے میں ملتے ہیں لیکن علماے اُمت کی بڑی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک طاق رات شب ِ قدر ہے اور ان میں بھی زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ ستائیسویں رات ہے…غالباً کسی رات کا تعین اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ شب ِ قدر کی فضیلت سے فیض اُٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزاریں اور کسی ایک رات پر اکتفا نہ کریں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت مکّۂ معظمہ میں رات ہوتی ہے اُس وقت دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں دن ہوتا ہے، اس لئے اُن علاقوں کے لوگ تو کبھی شب ِ قدر کو پا ہی نہیں سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن اور رات کے مجموعے کے لئے بولا جاتا ہے۔ اس لئے رمضان کی اِن تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصہ میں ہو اُس کے دن سے پہلے والی رات وہاں کے لیے شب ِ قدر ہوسکتی ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۶‘ص ۴۰۴-۴۰۶)