سوال اور شدت پسند رویے کسی لیڈر سے متعلق ہو، مذہب سے متعلق، نظریے سے متعلق، یا پیر و پیشوا سے متعلق، سوال اٹھاتے ہی سہولت سے اسکا جواب دینے کی کوشش کرنے کی بجائے غصہ، چیخم دھاڑ، اور غلیظ گالیوں پر اتر آنا پاکستان اور اسکے متاثرین کا عمومی رویہ بن چکا ہے۔ آخر عمومیہ اس قدر متشدد رویے کی حامل کیوں ہے؟ کیا عوام جاہل ہوتے ہیں اس لیے متشدد ہوتے ہیں یا عوام جاہل نہیں ہوتے بلکہ اس شدت پسندی کی وجوہات کچھ اور ہیں؟ یہ مسئلہ وطنِ عزیز تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کے مذہب پرست، قوم پرست، نظریہ پرست کسی نہ کسی سطح پر اپنی سوچ سے شدت کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی کسی ایسے سوال کا سامنا ہوتا ہے جس کا جواب نہیں ہوتا اور اس عدم جوابی یا جہالت کے باعث لوگ اپنے نظریات کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں تو ان میں غلط ہونے کا خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ غلط ہونے یا غلط دیکھے جانے کا خوف ہے جو انسان کو متشدد رویوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اشرافیہ کے لیے غلط ہونا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کی سب سے عزیز چیز غلط اور درست کا مسئلہ نہیں بلکہ انکا شرف ہے جو انکی مالی خوشحالی سے مشروط ہے۔ اس لیے اشرافیہ جتنی خوشحال ہوتی ہے اتنا ہی غلط و صحیح کے گھن چکر سے دور رہتی ہے۔ دوسری طرف عوام ہیں جو ساری زندگی اپنی اور اپنے پیاروں کی بقا کی جدوجہد میں گزارتے ہیں۔ انکے پاس صحیح ہونے کے احساس کے علاؤہ اور کچھ بھی نہیں کیونکہ انہیں اشرافیہ کی ملازمت کرنی ہے اور ملازمت کے لیے اشرافیہ کا پہلا اصول صحیح ہونا اور غلط سے دور رہنا ہے۔ عوام میں سے کوئی فرد اگر غلط ثابت ہو جائے تو اس کی بقا کی جدوجہد مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے عوام ہمیشہ غلط اور صحیح کے اس گھن چکر میں پڑے رہتے ہیں جسے اشرافیہ کے نمائندے قومیت، مذہب، اور نظریے کے نام پر عام لوگوں پر مسلط رکھتے ہیں۔ اس لیے غلط ہونے یا غلط ثابت ہونے کا خوف ہے جو انسانوں کو شدت پسند بنا دیتا ہے اور اس خوف کی بنیاد اشرافیہ کی پھیلائی ہوئی جہالت اور شدت پسندی ہے جو عوام کو فرقہ واریت اور قومی نفرت کے ہاتھوں شدت پسند بنائے رکھتی ہے۔ یہی عوام اگر خوشحال ہوں اور غربت کی بجائے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے ذرائع انہیں میسر ہوں تو عوام اس شدت پسندانہ رویوں سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔ پھر وہ سوال کے جواب میں گالیاں نہیں دیتے بلکہ سہولت سے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جمال خاشقجی کے قتل کا سانحہ اب پانچ سال پرانا ہے اور اس کے بعد سے اس ہولناک قتل جیسا کچھ بھی نہیں ہوا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سعودی سرکاری مؤقف نے کئی بار یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جرم ایک ہولناک غلطی تھی جسے کبھی دُہرایا نہیں جا سکتا اور ایک ڈیٹا پوائنٹ، خواہ وہ کتنا ہی حیران کن کیوں نہ ہو، ٹرینڈ لائن نہیں بناتا۔
جی ہاں، اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے انسانی حقوق کے معیارات اور بعض اوقات حکومتی لائن عبور کرنے والوں کو دی جانے والی سخت سزائیں ایک مسئلہ ہیں، لیکن اس مسئلہ کو ایک ایسے ملک کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جو تیزی سے اور انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے، جن میں سے بہت سی متنازع ہیں اور رجعت پسند مذہبی اور سماجی عناصر ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ حکومت سماجی امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ اس طرح کی تبدیلیاں ، بشمول خواتین کے حقوق اور مذہبی اعتدال پسندی ، معاشرے پر مسلط کی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب شدت پسند انتہا پسندوں، القاعدہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) سے ہمدردی رکھنے والوں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، جو انہی اصلاحات کی وجہ سے ریاست کے خلاف اپنے پروپیگنڈے میں تشدد کی وکالت جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ کوئی تجریدی یا نظریاتی نکتہ نہیں ہے۔ جزیرہ نما عرب میں القاعدہ (یمنی القاعدہ) باقاعدگی سے آن لائن ویڈیوز پوسٹ کرتی ہے جن میں ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف گفتگو کی جاتی ہے اور ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف پرتشدد حملوں پراکسایا جاتا ہے۔
سعودب عرب میں اب تک تشدد کی عدم موجودگی جیسے مسائل پر بات کرنا مشکل ہے ، کیونکہ حکومت نے جو پالیسیاں اختیار کی ہیں،انھوں نے ایسی چیزوں کو ہونے سے روک دیا ہے۔ پھر بھی، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سکون پہلے سے طے نہیں کیا گیا تھا، اور اصلاحات کی مزاحمت کی وجہ سے تشدد آسانی سے ہو سکتا تھا اور چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں، انسانی حقوق کا سوال تبدیلی کی ان حرکیات میں گہرے انداز میں پیوست ہے، جس میں جبر کا خطرہ بھی شامل ہے۔

آج کا سعودی عرب کھیلوں میں دھوم مچا رہا ہے اور ناقدین کی جانب سے ’’کھیل دھلائی‘‘(اسپورٹس واشنگ) کے نعرے بلند کیے جارہےہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات کا مقصد سعودی عرب کی اندرون ملک انسانی حقوق کی صورت حال سے مغرب میں لوگوں کا دھیان ہٹانا ہے۔ یہ ناقدین نیو کاسل یونائیٹڈ جیسی فٹ بال ٹیم کی خریداری یا لیو پی جی اے گالف وینچر کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔دونوں نے سعودی عرب کے لیے مثبت تعلقات عامہ کے بجائے زیادہ منفی میڈیا کوریج پیدا کی ہے۔ یقیناً اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مملکت اس طرح کی سرمایہ کاری کیوں کررہی ہے؟
سعودی عرب اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو چھپانے کے لیے اتنے بڑے وعدے نہیں کرتا ہے۔ بلکہ، یہ وعدے دو وجوہات کی بنا پر کرتا ہے:
سب سے پہلے، سعودی عرب مملکت کے اندر کھیلوں کو فروغ دینے پر گہری توجہ مرکوز کررہا ہے۔لہٰذا، فٹ بال اسٹار کرسٹیانو رونالڈو جیسے کسی بڑے کھلاڑی کے ساتھ مہنگا معاہدہ طے کرنے سے مقامی فٹ بال لیگ کو مہمیز دینے کا ایک بڑا موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ، اعلیٰ درجے کے کھلاڑیوں کو شامل کرنا سعودی پرو لیگ کے معیار کو بلند کرتا ہے اور اس کے کھلاڑیوں کے درمیان مسابقتی کارکردگی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
اس سے سعودی نوجوانوں میں بھی بڑے پیمانے پر جوش و خروش پیدا ہوتا ہے، جو فٹ بال کے جنون میں مبتلا ہیں۔نوجوانوں کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ کھیلوں سے پُرجوش ہوں اور ان سے وابستہ ہوں، بجائے اس کے کہ وہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہوں، جیسا کہ پہلے ہوا تھا۔
دوسرا، اس طرح کے ہائی پروفائل کھلاڑیوں کی خدمات ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں، یعنی ان سے سعودی عرب کو ایک سیاحتی مقام کے طور پر فروغ دینے میں مدد ملتی ہے، کیونکہ سیاحت تیل سے ماوراء اقتصادی تنوع کا ایک اہم شعبہ ہے۔جب رونالڈو اپنے پچاس کروڑ سوشل میڈیا فالوورز کو سعودی عرب کے بارے میں کوئی پیغام پوسٹ کرتے ہیں، ایک ایسی پوسٹ جو لوگوں کو ایک ایسی جگہ سے متعارف کرواتی ہے جس کے بارے میں انھوں نے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، تو یہ سعودی عرب کو ایک پرکشش سفری مقام اور ایک ایسے ملک کے طور پر فروغ دینے کا کام کرتا ہے جہاں دلچسپ پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ بہت سے سوچے سمجھے مقاصد میں سے ایک ہے جو سعودی عرب کو ایک اہم عالمی سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی کو تقویت دیتا ہے، ایک ایسا ملک جو حال ہی میں بیرونی دنیا کے لیے بند تھا۔ سعودی عرب، ہزاروں میل طویل خوب صورت ساحلوں، تاریخی مقامات اور گالف کورس جیسی دیگر سہولیات کے ساتھ 2030 تک لاکھوں سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔.
سعودی ویژن 2030 کے تحت داخلی اقتصادی ترقی پر یہ ایک لیزر فوکس ہے جو سعودی عرب میں ترقی کے عمل کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کیا کر رہا ہے اور اس کے بارے میں بہت کچھ بتا رہا ہے۔

گذشتہ چند سال میں خواتین کو سعودی عوامی زندگی کے بہت سے شعبوں سے الگ تھلگ رکھنے کے بعد افرادی قوت اور عوامی جگہ میں مکمل طور پر ضم کر دیا گیا ہے۔ ان کے روزگار کی تعداد دُگنا سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ مردوں کی سرپرستی کے نظام کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کی بدولت معاشرے کے ایک اہم تعلیم یافتہ اور متحرک حصے کو منافع بخش روزگار میں لایا گیا ہے۔اس اقدام نے معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے ، خاندانی آمدن میں اضافہ کیا ہے ، اور کھیلوں کے شعبے میں خواتین کی شمولیت کے ذریعےان کی صحت کو بہتر بنایا ہے۔ مثال کے طور پر، خواتین کو کھیلوں میں شرکت سے منع کیا گیا تھا یہاں تک کہ اسکولوں میں بھی طالبات کی کھیلوں میں شرکت پر پابندی تھی لیکن آج سعودی عرب میں خواتین کی فٹ بال لیگ ہے۔آرٹ، موسیقی اور تھیٹر جیسی ثقافتی سرگرمیاں ، جو پہلے عملی طور پر زیر زمین موجود تھیں ، نہ صرف شروع کی گئیں بلکہ اب ان کی سرکاری گرانٹ ، سہولیات ، تقریبات اور خصوصی تعلیم اور تربیت کے ساتھ فعال طور پر معاونت اور حمایت کی جاتی ہے۔

قوانین کو جدید بنانے اور شہریوں کی قانونی خدمات اور انصاف تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے قانونی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جا رہی ہیں، خاص طور پر خواتین کے لیے، جو آج بچوں کی تحویل اور شادی کے تنازعات کے معاملات میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مؤثر طریق کار رکھتی ہیں، جبکہ پہلے مروج نظام مردوں کے حق میں سخت متعصب تھا۔
نصاب کو مکمل طور پر اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے اور مذہبی علوم اور رٹے سے یاد کرنے والے مضامین کے بجائے ریاضی، سائنس، غیر ملکی زبانوں اور تنقیدی سوچ جیسے عملی مضامین پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔یہ فہرست جاری ہے اور تبدیلیاں اتنی وسیع ہیں کہ کوئی بھی ایسا ملک تلاش کرنا مشکل ہوگا جو اتنے کم وقت میں اتنی بڑی تبدیلی سے گزرا ہو اور اسے خانہ جنگی یا مسلح انقلاب کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔
آج کا سعودی عرب اپنے گھر کو منظم کرنے، اپنے خطے کو زیادہ پرامن بنانے اور اپنے عالمی تعلقات کو مستحکم بنیادوں پراستوار کرنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔ یہ استحکام عالمی خوش حالی کی ایک طاقت ہے اور اسے اسی طرح تسلیم کیا جانا چاہیے۔
اور جہاں ملک میں پیچیدہ اور تیز رفتار سماجی اور معاشی اصلاحات پر بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کا ذکر کرنا مناسب ہے، وہیں مثبت تبدیلیوں کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے، جن میں خواتین کو بااختیار بنانا، مذہبی اعتدال پسندی، معاشی تنوع اور علاقائی امن و استحکام کی کوششیں شامل ہیں۔ سعودی عرب میں تبدیلی کی رو کو سیاہ و سفید، اچھے یا برے کی سادہ اصطلاحات کی روشنی میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ معروضی اور منصفانہ ہونے کے لیے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو ایک باریک نقطہ نظر اپنانا چاہیے جس میں پیچیدگیوں اور اس میں شامل مضمرات کو تسلیم کیا جائے اور ایسا کرتے ہوئے زمینی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے،اس کا زیادہ متوازن جائزہ پیش کیا جائے۔