جس دن ستیل اوڈو اور اس کی گھر والی کو مسلمان ہونا تھا اس دن مسجد میں اتنے نمازی آئے کہ مسجد کے باہر بھی تین چار صفیں قائم ہو گئیں۔ اس سے پہلے یا تو عید پر اتنا ہجوم ہوتا یا کوئی مال دار آدمی اپنے مرحوم باپ کی مغفرت کے لئے بریانی کی دیگ چڑھاتا تو لوگ کھنچے چلے آتے۔ مسجد کے پیش امام مولوی امیر علی نے بھی ستیل کے قبولِ اسلام کی بڑی تشہیر کی تھی۔ لوگوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا تھ کہ ایسا موقع عیدوں سے بھی زیادہ مبارک ہوتا ہے۔ گوٹھ کے باشندے بھی کچھ دینی جذبہ رکھتے تھے، اس لئے بہت سوں نے سر پر پیچ دار پگڑی باندھی اور مسجد میں آ گئے۔ مولوی صاحب خود بھی اچھی خاصی آن بان میں دکھائی دیئے ۔ سر پر ہری مونگیا دستار ، جسم پر سفید بے داغ شلوار کُرتا اور پاؤں میں نئی جوتی۔ ہاتھوں میں نقشیں عصا جس کے نچلے سرے میں لوہے کی شام لگی ہوئی تھی۔ وہ محراب کے قریب کچی زمین میں اپنا عصا اس طرح گاڑتے جیسے دین کا جھنڈا ہو۔ مولوی صاحب اس دن خطبے کی جو کتاب لائے وہ بھی نئی تھی۔ کچھ قرآنی آیات کی تلاوت کے بعد جب وہ سندھی نظم کے اس قصے پر پہنچے جہاں چاروں اصحاب پاک کی ثنا تھی تو نمازیوں کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ فرض پڑھاتے ہوئے بھی مولوی صاحب نے سورہ رحمٰن کی اثر آفرینی سے نمازیوں کے دلوں کو روحانی انبساط بخشا۔ پھر نماز کے بعد مختصر تقریر میں گوٹھ کے لوگوں کو مبارک باد دی اور ایک پنج وقتہ نمازی کو بھیج کر ستیل اور اس کی گھر والی کو بلوایا جو نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہنے مولوی صاحب کی بیٹھک میں موجود تھے۔ مسجد میں ستیل اور اس کی گھر والی (مائی ٹلی) کو اپنے سامنے بٹھا کر مولوی صاحب نے بلند آواز میں ستیل سے پوچھا، “بابا! تم اور مائی ٹلی اپنی خوشی سے دینِ محمدی قبول کرنا چاہتے ہو؟” “ہاں مولبی صاحب !” “اپنی رضا و رغبت کے ساتھ یا کسی زور اور زبردستی سے؟” “سائیں ! پوری رجا و رگبت اور کُھشی سے۔” “موئی ٹلی! تم بھی؟” “ہاں سائیں ! میں بھی۔” سمٹی سمٹائی مائی ٹلی نے اپنے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ مولوی صاحب نے یہ سن کر حاضرین سے رجوع کیا۔ “سنتے ہو بھائیو!” “ہاں ہاں سائیں! ہم سب نے سن لیا۔” مولوی صاحب نے شہادت کی انگلی چھت کی جانب اُٹھائی اور تین مرتبہ بلند آواز سے کہا، “اے اللہ ! تُو شاہد رہنا’ اے اللہ! تُو شاہد رہنا’ اے اللہ ! تُو شاہد رہنا” مولوی صاحب نے اس کے بعد ستیل اور مائی ٹلی کو مبارک باد دی اور بڑی خوش دلی سے پوچھا، “روزے رکھو گے؟ نماز پڑھو گے؟ اور نیک کام کرو گے؟” “ہاں ہاں سائیں ! کیوں نہیں جو آپ کرتے ہو وہی کروں گا۔ روجے رکھوں گا، نماج پڑھوں گا۔” “میری جیسی داڑھی بھی رکھو گے؟” “رکھوں گا جرور رکھوں گا۔” ستیل نے سچے دل سے اقرار کیا۔ اچانک مولوی صاحب کی نظر ستیل کے کانوں پر پڑی جن میں سونے کی بالیاں لٹک رہی تھیں۔ “یہ سونے کی بالیاں اُتار کر مائی کو دے دو۔ اسلام میں مردوں کے لئے سونا پہننا حرام ہے۔” ستیل نے یہ سن کر جلدی جلدی گھبراہٹ میں سونے کی بالیاں اُتار کر مائی ٹلی کو دیں جس نے انہیں اپنے دوپٹے کے کونے میں باندھ لیا۔ مولوی صاحب نے ستیل سے اگلا سوال پوچھا، “جوا نہیں کھیلو گے؟ دارو نہیں پیو گے؟” “نہ سائیں ! اب کبھی نہیں!” ستیل نے عاجزی سے جواب دیا۔ “جزاک اللہ ! جزاک اللہ !” مولوی صاحب نے اسے شاباش دی اور مزید سوالات پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ اس سے کہا، “تھوڑا سرک کر میرے نزدیک آجاؤ۔” ستیل گھسٹ گھسٹ کر مولوی صاحب کے پاس جا بیٹھا تو انھوں نے کلمہ پڑھوایا، “کہو، لا الہ الا للہ!” ستیل ٹھیک سے نہ کہہ سکا، رکتے رکتے بولا، “لا ئیلا” “ایسے نہیں” ۔ ۔ ۔ کہو، “لا – ا – لاھ” مولوی صاحب نے ہلکے ہلکےلفظ لفظ کو اس طرح دہرایا جیسے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اور اس طرح ستیل اور مائی ٹلی نے پورا کلمہ توحید تھوڑی سی مشق سے ٹھیک ٹھیک پڑھ لیا۔ سب نمازی ایک بے دین اور اس کی گھر والی کو مسلمان ہوتا دیکھ کر خوشی سے کھل اُٹھے۔ انھوں نے مولوی صاحب کو مبارک باد دے کر ستیل اور مائی ٹلی کو مبارک باد دی۔ ایک پُر جوش شخص نے تو زور دار نعرہ تکبیر لگایا جس کا جواب حاضرین نے اتنی بلند آواز میں دیا کہ اس کی گونج دُور تک سنائی دی۔ پھر مولوی صاحب نے ستیل کی جانب منہ کر کے کہا، “آج سے تمہارا نام عبداللہ اور مائی ٹلی کا نام فاطمہ ہو گیا۔” کچھ لوگ جانے لگے تو مولوی صاحب نے انہیں اشارے سے رکنے کی تاکید کی اور کہا، “بھائیو! ذرا ٹھہرنا، ابھی ان کا نکاح پڑھانا ہے۔” یہ سن کر ہر ایک اپنی جگہ پر جما رہا۔ مولوی صاحب نے دونوں کی مرضی معلوم کی اور نکاح پڑھا دیا۔ گوٹھ کے باہر اوڈوں کی جھونپڑیوں میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ عورتیں اور لڑکیاں الگ الگ ٹولہ بنائے کوسنے دے رہی تھیں۔ ہائے گوڑا ہائے گھوڑا کا شور تھا۔ مرد اپنے مکھی پھگن مل کی چارپائی کے چاروں طرف بیٹھے زبردست بحث مباحثے میں مصروف تھے۔ مکھی پھگن مل بار بار غصے میں اپنی رانوں پر ہاتھ مار کر بڑبڑا رہا تھا۔ اس کو جب اس بات کی سن گن ملی تھی تو ستیل کو بہت سمجھایا اور منتیں کی تھیں۔ بھگوت گیتا کا واسطہ دیا تھا اور آخر میں پنچایت کے سامنے اپنی چودھراہٹ کی رنگین پگڑی تک ستیل کے پاؤں میں ڈالنے کا تاثر دیا تھا ، مگر ستیل نے صاف صاف جتا دیا تھا، ” مکھی ! تم کچھ بھی کرو ، میں نے جو کچھ کرنا ہے ضرور کروں گا۔” “مگر تو اپنا دھرم کیوں بدل رہا ہے؟” “میری مرجی۔” “آخر پھر بھی؟” ستیل سوچ میں پڑ گیا۔ ایک کھسیانی سی ہنسی اس کے لبوں پر آئی اور اس نے کہا، “مجھے اپنا دھرم اب اچھا نہیں لگتا۔” “گھوڑا رے گھوڑا!۔۔۔ ۔ارے تجھ کو آخر کیوں نہیں اچھا لگتا اپنا دھرم؟” “اچھا مکھی! بتا ہم کون ہیں؟” “ہم ہندو ہیں۔” “اچھا بتا ہندو لاش کو چتا میں جلاتے ہیں، مسلمان کیوں دفن کرتے ہیں؟” “یہ ہماری ریت ہے وہ ان کی ریت ہے۔” “اچھا ہم بکرا حلال کر کے کیوں کھاتے ہیں؟” “یہ بھی ہماری رسم ہے باپ دادا سے۔” “پر یہ تو مسلمانوں کی رسمیں ہیں۔” “تو چریا ہے! یہ رسمیں ان کی بھی ہیں اور ہماری بھی۔” “پھر تم کیسے کہتے ہو کہ ہم ہندو ہیں؟” “نہیں تو کیا ہیں ڑے ! ” “آدھے ہندو آدھے مسلمان۔ دھڑ دنبہ، گردن بکری” مکھی پھگن مل لاجواب سا ہوگیا، مگر اس نے بات کو بدلا، “بھلے سے ہم کچھ بھی ہیں ۔ پر دھرم کیوں بدلیں” “مجھے مسلمانوں کا دھرم پسند ہے۔” “تو کیا ہمارا دھرم جھوٹا ہے؟” “ہاں جھوٹا ہے۔” ستیل نے دلیری سے جواب دیا جس پر پنچایت میں بیٹھے اوڈوں کے لہو نے جوش مارا۔ موتی اور کچھ دوسرے تو ستیل کی پٹائی کرنے آگے بڑھے، مگر مکھی نے ہاتھ جوڑ کر روکا اور کہا، “پنچو! مارنے پیٹنے سے کچھ نہ ہوگا۔ اس کو مسلمانوں نے تاویج (تعویذ) پلائے ہیں۔” مکھی کی یہ بات ان سب کے دلوں میں اس طرح اتر گئی جیسے ان کے پھاوڑے گیلی زمین میں کُھب جاتے ہیں۔ کئی ملی جُلی آوازیں اُبھریں، “مولوی کو بے سک (بےشک) تاویج دینے میں کمال ہے۔ سبھی تاویج لکھا کر لے جاتے ہیں۔” جوش میں کھڑے ہو جانے والے اوڈ اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے اور غصے میں بھر کر زور زور سے چرس کے دم لگانے لگے۔ مکھی نے سب کو چُپ دیکھ کر پھر ستیل کی جانب منہ کیا اور پوچھا، “تجھ کو مسلمانوں کا دھرم کیوں اچھا لگا ہے؟” “سب مسلمان بھائی ساتھ ساتھ نماج پڑھتے ہیں۔ کھانے پینے میں چُھوت چھات نہیں ہوتی۔ ہندو بھی کوئی دھرم ہے؟ برہمن، کھتری، اوڈ، اچھوت سب الگ الگ۔” مکھی حیرت سے ستیل کو دیکھتا رہا اور سوچنے لگا کہ سچ مچ یہ بات تو ہے کہ برہمن ، اچھوتوں اور اوڈوں کو اپنے پاس نہیں آنے دیتے۔ ایک تھالی میں کھانا تو بہت دور کی بات ہے۔ مسلمان تو ایسا نہیں کرتے۔ اب مکھی نے دوسری چال چلی اور کہا، “ستیل تُو مسلمان ہو جائے گا تو ہم سے تیرا کوئی واسطہ نہیں رہے گا۔” “نا رہے ، ہاں ہاں نہ رہے۔” “ہم تجھے اپنے پاس بھی نہیں آنے دیں گے۔ ولر کے پاس بھی نہیں۔” مکھی نے ستیل کو دھمکی دی۔ ولر کی گھر والی ستیل کی سگی بہن تھی۔ “دھمکی کسے دیتے ہو، ہاں ہاں نہ آنے دینا۔ میں مسلمان بھائیوں کے ساتھ اٹھوں بیٹھوں گا اور سمجھوں گا کہ بہن مر گئی۔” اتنی بڑی بات سُن کر مکھی نے ٹھنڈے انداز میں بات کی۔ اسے یقین تھا کہ ستیل کہیں نہ کہیں ہار کر اس کے جال میں آجائے گا، مگر جب کوئی چال کامیاب نہ ہوئی تو مکھی پر جھنجھلاہٹ سوار ہو گئی، “یاد رکھنا ستیل! گدھوں پر چاہے پانچ زینیں کس کر گھوڑوں میں بٹھا دو تو بھی گدھے ہی رہیں گے، گھوڑا نہیں بن جائیں گے۔” پنچایت اُٹھنے کے بعد مکھی نے ولر کو سمجھایا تھا کہ پگڑی کا واسطہ دے کر ستیل کی منت سماجت کرنا کہ اپنا دھرم نہ چھوڑے، لیکن ستیل پر اپنے بہن بہنوئی کی منتوں کا بھی کوئی اثر نہ پڑا اور وہ مولوی امید علی سے طے شدہ وقت پر جمعہ کے دن گھر والی کو لے کر سیدھا مسجد چلا گیا اور کلمہ پڑھ کر باقاعدہ داخلِ اسلام ہو گیا۔ مسلمان ہونے کے بعد ستیل کافی بدل گیا تھا۔ پہلے وہ ہر دوسرے تیسرے دن داڑھی نہ منڈاتا تو اسے چین نہ آتا۔ اب اس نے باقاعدہ داڑھی رکھ لی تھی جو اس کے بھرے بھرے چہرے پر بڑی سجتی تھی۔ نماز پڑھنے مولوی صاحب سے بھی پہلے مسجد میں آجاتا۔ جھاڑو دینا، پانی کے گھڑے بھرنا اور بڑے ذوق و شوق سے عربی پڑھنا اس کے معمولات میں شامل ہوگیا۔ مولوی صاحب کو بھی اس سے پہلے کسی غیر مسلم کے مسلمان بنانے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی، اس لئے وہ بہت خوش تھے اور آتے جاتے تعریف کرتے، “بھائی ! یہ اپنا عبداللہ کتنا نیک اور کیسا محنتی مسلمان ہے۔” کبھی کبھی مولوی صاحب کسی بے نمازی کو اللہ ، رسول اور آخرت کا وعظ دیتے تو عبداللہ کی مثال دے کر کہتے، “ارے ! نماز پڑھو، ذکر کرو، نہیں تو قیامت کے دن یہ اوڈ تمہاری مسلمانی کو شکی کر دے گا۔” عبداللہ کا دینی ذوق و شوق اور مسلمانوں سے سچی ہمدردی کے جذبے کو دیکھ کر مولوی صاحب اس کی دلداری کرتے اور کہتے تھے، “عبداللہ! گھبرانا مت۔ رب سائیں تمہارے گناہ معاف کرے گا۔ صبح کو بھولا شام کو لوٹ آتا ہے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔” عبداللہ بھی مولوی صاحب کی شفقت سے بہت متاثر تھا۔ وہ عرض کرتا، “سائیں ! آپ اللہ کے پیارے بندوں میں ہیں، میرے لئے دعا کرو کہ پچھلے گناہ معاف ہو جائیں۔” مولوی صاحب فوراً ہاتھ اُٹھا کر دُعا کرتے اور دعا میں بڑی عاجزی سے کچھ شعر بھی پڑھتے، “عرض سن ہم عاصیوں کی مصطفےٰ کے واسطے” اس دوران عبداللہ والہانہ سے انداز میں برابر آمین آمین کہتا رہتا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر داڑھی میں جذب ہوتے رہتے۔ ایک دن عصر کی نماز سے کچھ پہلے اس کا بھانجا “بھابھیو” بھاگتا ہوا آیا اور اپنی ماں کی بیماری کا حال بتایا۔ عبداللہ کو پہلے ہی خبر مل گئی تھی، مگر مکھی پھگن مل سے کئے گئے فیصلے کا خیال کر کے وہ نہیں گیا حالانکہ بہن کی بیماری کا اسے صدمہ تو بہت تھا۔ اس نے بھابھیو سے کہا، “میں نہیں جاؤں گا۔ مکھی غصہ کرے گا۔ تُو بیل گاڑی میں اسے ادھر لے آ۔” بھابھیو نے یہ عذر سن کر بتایا، “ماما! تُو اس بات کی فکر نہ کر۔ بابا نے مکھی کو راجی کر لیا ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے آتا ہے تو آ جائے۔” عبداللہ کے خون نے جوش مارا اور وہ بھانجے کے ساتھ اپنی بہن کو دیکھنے چلا گیا۔ عصر کی نماز پر جب مولوی صاحب نے عبداللہ کو نہ دیکھا تو حیران ہوگئے اور نمازیوں سے پوچھا۔ ان میں سے ایک نے عبداللہ کو نمازیوں کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ بہن بیمار ہے۔ مولوی صاحب کو عبداللہ کا وہاں جانا اچھا نہیں لگا اور کہنے لگے، “اسے نہیں جانا چاہئے تھا۔ جتنی دیر کافروں کی صحبت میں بیٹھے گا، ایمان میں کمزوری پیدا ہوگی۔ کوئی جا کر اسے لے آئے۔” مولوی صاحب کا حکم سن کرفتح ناریجو اُٹھا اور جلدی جلدی قدم اُٹھاتا اوڈوں کی جھونپڑیوں کے علاقے میں داخل ہوا جہاں چاروں طرف نوکیلے کانٹوں کی باڑھ تھی۔ اس نے باہر ہی سے آواز دی، “عبداللہ ، او عبداللہ!” مکھی پھگن مل کا جھونپڑا باڑھ کے پاس ہی تھا۔ وہ اس وقت باہر سے آئے ہوئےمہمان کے ساتھ چوپڑ کھیل رہا تھا۔ آواز سن کر اٹھا اور باہر نکل کرفتح ناریجو سے پوچھا، “کیا ہے فتح؟” “ہمارا عبداللہ تمہارے پاس آیا ہے، اس کو مولوی صاحب بلا رہے ہیں۔” مکھی اس بات پر چڑ سا گیا۔ عبداللہ جو اِن کی ہڈیوں اور خون میں سے تھا، جو جھونپڑیوں میں پیدا ہوا، پلا بڑھا وہ فتح والوں کا کیسے ہوگیا؟ مگر مکھی نے شوخی سے پوچھا، “عبداللہ تمہارا ہے، فتح؟” “ہاں ڑے! ہمارا ہے۔” “تم اس کے وارث ہو؟” “ہاں ہاں ہمارا مسلمان بھائی! ہم اس کے وارث ہیں۔” اسی عرصے میں عبداللہ کو بھی کسی نے فتح ناریجو کے آنے کی اطلاع دی اور وہ بیمار بہن کے جھونپڑے سے نکل کر وہیں آ کر بیٹھ گیا۔ مکھی نے فتح سے پوچھا، “اچھا فتح ، ایک بات بتا۔ کل جو یہ مر جائے تو اس کی گھر والی کو دھکے دے کر تو نہیں نکالو گے نا؟” “کیوں نکالیں گے دھکے دے کر؟” تم مسلمان اس سے نکاح کر لو گے؟” “اگر راضی ہوگی تو اس میں کوئی عیب کی بات نہیں۔” “گھن اور نفرت نہیں ہوگی تمہیں اس سے؟” “گھن اور نفرت کیوں ہوگی، اب تو یہ بھی مسلمان ہے۔” عبداللہ سوال و جواب میں مکھی کو ہارتا ہوا دیکھ کر مسکرانے لگا۔ مکھی کو سخت ناگوار گذرا اور وہ اس طرح اپنے سر کو تھپکی دینے لگا جس طرح چوپڑ میں کسی کو گوٹ مارنے کے لئے سر اور ماتھے کو تھپ تھپاتا تھا۔ اچانک اس نے پوچھا، “اچھا فتح! اگر اس کی بیوی مر جائے تو اس کی شادی اپنے گھرانے میں کر دو گے؟” مکھی کا سوال سن کر فتح کا منہ سرخ ہو گیا۔ آنکھوں میں حقارت و نفرت کا تاثر ابھرا اور اسے ایسا لگا جیسے ایک خسیس اور نیچ اوڈ نے اسے بہت بڑی گالی دے دی ہو۔ مکھی نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ دیہات میں کوئی اپنی ذات سے باہر لڑکی نہیں دیتا۔ ناریجو ناریجوں، کلہوڑے کلہوڑوں میں لڑکی کا رشتہ کرتے ہیں۔ مکھی ڈرنے کی بجائے مسکرانے لگااور فتح سے کہا، “یہ کون سے قانون میں لکھا ہے کہ تم لو گے، مگر دو گے نہیں۔ اسلام میں تو سب مسلمان بھائی بھائی ہیں نا؟” “یہ ہماری رسم ہے بابا دادا سے۔” فتح ناریجو غصے میں گرجا۔ دوسرے دن عبداللہ نے پنچایت میں جرمانہ ادا کیا۔ داڑھی منڈوا کر سونے کی بالیاں پہنیں پھر اوڈوں کی رسم کے مطابق مقدس پانی میں نہا کر اپنے آپ کو تازہ دم کیا۔ ادھر گوٹھ کی مسجد میں عصر کی نماز کے بعد ایک نمازی نے مولوی صاحب سے کہا ، “مولوی صاحب! کتا کیا جانے گیہوں کی روٹی کا مزہ!” دوسرا بولا، “سائیں ! نیچ نیچ ہی ہوتا ہے۔ کوا ہنس کی برابری کیسے کر سکتا ہے؟” مولوی صاحب نے ایک ٹھنڈی سانس بھری، پھر اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا، “ہاں بھائی ! سچ کہتے ہو، کافر آخر کافر ہی ہوتا ہے۔” جمال خاشقجی کے قتل کا سانحہ اب پانچ سال پرانا ہے اور اس کے بعد سے اس ہولناک قتل جیسا کچھ بھی نہیں ہوا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سعودی سرکاری مؤقف نے کئی بار یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جرم ایک ہولناک غلطی تھی جسے کبھی دُہرایا نہیں جا سکتا اور ایک ڈیٹا پوائنٹ، خواہ وہ کتنا ہی حیران کن کیوں نہ ہو، ٹرینڈ لائن نہیں بناتا۔
جی ہاں، اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے انسانی حقوق کے معیارات اور بعض اوقات حکومتی لائن عبور کرنے والوں کو دی جانے والی سخت سزائیں ایک مسئلہ ہیں، لیکن اس مسئلہ کو ایک ایسے ملک کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جو تیزی سے اور انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے، جن میں سے بہت سی متنازع ہیں اور رجعت پسند مذہبی اور سماجی عناصر ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ حکومت سماجی امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ اس طرح کی تبدیلیاں ، بشمول خواتین کے حقوق اور مذہبی اعتدال پسندی ، معاشرے پر مسلط کی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب شدت پسند انتہا پسندوں، القاعدہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) سے ہمدردی رکھنے والوں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، جو انہی اصلاحات کی وجہ سے ریاست کے خلاف اپنے پروپیگنڈے میں تشدد کی وکالت جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ کوئی تجریدی یا نظریاتی نکتہ نہیں ہے۔ جزیرہ نما عرب میں القاعدہ (یمنی القاعدہ) باقاعدگی سے آن لائن ویڈیوز پوسٹ کرتی ہے جن میں ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف گفتگو کی جاتی ہے اور ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف پرتشدد حملوں پراکسایا جاتا ہے۔
سعودب عرب میں اب تک تشدد کی عدم موجودگی جیسے مسائل پر بات کرنا مشکل ہے ، کیونکہ حکومت نے جو پالیسیاں اختیار کی ہیں،انھوں نے ایسی چیزوں کو ہونے سے روک دیا ہے۔ پھر بھی، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سکون پہلے سے طے نہیں کیا گیا تھا، اور اصلاحات کی مزاحمت کی وجہ سے تشدد آسانی سے ہو سکتا تھا اور چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں، انسانی حقوق کا سوال تبدیلی کی ان حرکیات میں گہرے انداز میں پیوست ہے، جس میں جبر کا خطرہ بھی شامل ہے۔

آج کا سعودی عرب کھیلوں میں دھوم مچا رہا ہے اور ناقدین کی جانب سے ’’کھیل دھلائی‘‘(اسپورٹس واشنگ) کے نعرے بلند کیے جارہےہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات کا مقصد سعودی عرب کی اندرون ملک انسانی حقوق کی صورت حال سے مغرب میں لوگوں کا دھیان ہٹانا ہے۔ یہ ناقدین نیو کاسل یونائیٹڈ جیسی فٹ بال ٹیم کی خریداری یا لیو پی جی اے گالف وینچر کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔دونوں نے سعودی عرب کے لیے مثبت تعلقات عامہ کے بجائے زیادہ منفی میڈیا کوریج پیدا کی ہے۔ یقیناً اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مملکت اس طرح کی سرمایہ کاری کیوں کررہی ہے؟
سعودی عرب اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو چھپانے کے لیے اتنے بڑے وعدے نہیں کرتا ہے۔ بلکہ، یہ وعدے دو وجوہات کی بنا پر کرتا ہے:
سب سے پہلے، سعودی عرب مملکت کے اندر کھیلوں کو فروغ دینے پر گہری توجہ مرکوز کررہا ہے۔لہٰذا، فٹ بال اسٹار کرسٹیانو رونالڈو جیسے کسی بڑے کھلاڑی کے ساتھ مہنگا معاہدہ طے کرنے سے مقامی فٹ بال لیگ کو مہمیز دینے کا ایک بڑا موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ، اعلیٰ درجے کے کھلاڑیوں کو شامل کرنا سعودی پرو لیگ کے معیار کو بلند کرتا ہے اور اس کے کھلاڑیوں کے درمیان مسابقتی کارکردگی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
اس سے سعودی نوجوانوں میں بھی بڑے پیمانے پر جوش و خروش پیدا ہوتا ہے، جو فٹ بال کے جنون میں مبتلا ہیں۔نوجوانوں کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ کھیلوں سے پُرجوش ہوں اور ان سے وابستہ ہوں، بجائے اس کے کہ وہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہوں، جیسا کہ پہلے ہوا تھا۔
دوسرا، اس طرح کے ہائی پروفائل کھلاڑیوں کی خدمات ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں، یعنی ان سے سعودی عرب کو ایک سیاحتی مقام کے طور پر فروغ دینے میں مدد ملتی ہے، کیونکہ سیاحت تیل سے ماوراء اقتصادی تنوع کا ایک اہم شعبہ ہے۔جب رونالڈو اپنے پچاس کروڑ سوشل میڈیا فالوورز کو سعودی عرب کے بارے میں کوئی پیغام پوسٹ کرتے ہیں، ایک ایسی پوسٹ جو لوگوں کو ایک ایسی جگہ سے متعارف کرواتی ہے جس کے بارے میں انھوں نے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، تو یہ سعودی عرب کو ایک پرکشش سفری مقام اور ایک ایسے ملک کے طور پر فروغ دینے کا کام کرتا ہے جہاں دلچسپ پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ بہت سے سوچے سمجھے مقاصد میں سے ایک ہے جو سعودی عرب کو ایک اہم عالمی سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی کو تقویت دیتا ہے، ایک ایسا ملک جو حال ہی میں بیرونی دنیا کے لیے بند تھا۔ سعودی عرب، ہزاروں میل طویل خوب صورت ساحلوں، تاریخی مقامات اور گالف کورس جیسی دیگر سہولیات کے ساتھ 2030 تک لاکھوں سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔.
سعودی ویژن 2030 کے تحت داخلی اقتصادی ترقی پر یہ ایک لیزر فوکس ہے جو سعودی عرب میں ترقی کے عمل کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کیا کر رہا ہے اور اس کے بارے میں بہت کچھ بتا رہا ہے۔

گذشتہ چند سال میں خواتین کو سعودی عوامی زندگی کے بہت سے شعبوں سے الگ تھلگ رکھنے کے بعد افرادی قوت اور عوامی جگہ میں مکمل طور پر ضم کر دیا گیا ہے۔ ان کے روزگار کی تعداد دُگنا سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ مردوں کی سرپرستی کے نظام کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کی بدولت معاشرے کے ایک اہم تعلیم یافتہ اور متحرک حصے کو منافع بخش روزگار میں لایا گیا ہے۔اس اقدام نے معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے ، خاندانی آمدن میں اضافہ کیا ہے ، اور کھیلوں کے شعبے میں خواتین کی شمولیت کے ذریعےان کی صحت کو بہتر بنایا ہے۔ مثال کے طور پر، خواتین کو کھیلوں میں شرکت سے منع کیا گیا تھا یہاں تک کہ اسکولوں میں بھی طالبات کی کھیلوں میں شرکت پر پابندی تھی لیکن آج سعودی عرب میں خواتین کی فٹ بال لیگ ہے۔آرٹ، موسیقی اور تھیٹر جیسی ثقافتی سرگرمیاں ، جو پہلے عملی طور پر زیر زمین موجود تھیں ، نہ صرف شروع کی گئیں بلکہ اب ان کی سرکاری گرانٹ ، سہولیات ، تقریبات اور خصوصی تعلیم اور تربیت کے ساتھ فعال طور پر معاونت اور حمایت کی جاتی ہے۔

قوانین کو جدید بنانے اور شہریوں کی قانونی خدمات اور انصاف تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے قانونی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جا رہی ہیں، خاص طور پر خواتین کے لیے، جو آج بچوں کی تحویل اور شادی کے تنازعات کے معاملات میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مؤثر طریق کار رکھتی ہیں، جبکہ پہلے مروج نظام مردوں کے حق میں سخت متعصب تھا۔
نصاب کو مکمل طور پر اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے اور مذہبی علوم اور رٹے سے یاد کرنے والے مضامین کے بجائے ریاضی، سائنس، غیر ملکی زبانوں اور تنقیدی سوچ جیسے عملی مضامین پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔یہ فہرست جاری ہے اور تبدیلیاں اتنی وسیع ہیں کہ کوئی بھی ایسا ملک تلاش کرنا مشکل ہوگا جو اتنے کم وقت میں اتنی بڑی تبدیلی سے گزرا ہو اور اسے خانہ جنگی یا مسلح انقلاب کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔
آج کا سعودی عرب اپنے گھر کو منظم کرنے، اپنے خطے کو زیادہ پرامن بنانے اور اپنے عالمی تعلقات کو مستحکم بنیادوں پراستوار کرنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔ یہ استحکام عالمی خوش حالی کی ایک طاقت ہے اور اسے اسی طرح تسلیم کیا جانا چاہیے۔
اور جہاں ملک میں پیچیدہ اور تیز رفتار سماجی اور معاشی اصلاحات پر بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کا ذکر کرنا مناسب ہے، وہیں مثبت تبدیلیوں کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے، جن میں خواتین کو بااختیار بنانا، مذہبی اعتدال پسندی، معاشی تنوع اور علاقائی امن و استحکام کی کوششیں شامل ہیں۔ سعودی عرب میں تبدیلی کی رو کو سیاہ و سفید، اچھے یا برے کی سادہ اصطلاحات کی روشنی میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ معروضی اور منصفانہ ہونے کے لیے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو ایک باریک نقطہ نظر اپنانا چاہیے جس میں پیچیدگیوں اور اس میں شامل مضمرات کو تسلیم کیا جائے اور ایسا کرتے ہوئے زمینی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے،اس کا زیادہ متوازن جائزہ پیش کیا جائے۔