آج ہم آپ کو عوام کی آواز ہم عوام ویب سایٹ پر خوش آمدید کہتے ہیں

بھگت سنگھ پھانسی‎

بھگت سنگھ پھانسی‎

    

 تئیس مارچ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں سکھدیو اور راج گرو کی شہادت کا دن ہے۔ پاکستان میں تو نہیں لیکن بھارت میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں اور ہندوستان سوشلسٹ ریولوشنری پارٹی بارے  بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ بھگت سنگھ پر ایک سے زاید فلمیں بھی بن چکی ہیں لیکن بھگت سنگھ کے مقدمے میں اس کے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف گواہی دینے والوں کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ شاذ ہی کسی کو پتہ ہو کہ یہ ہنس راج وہرہ کی گواہی تھی جس کی بنا پر بھگت سنگھ کو پھانسی ہوئی تھی۔ استغاثہ نے پونچھ ہاوس لاہور  میں خصوصی ٹربیونل کے روبروہ ساڑھے چار سو کے قریب گواہ پیش کئے تھے جن میں پانچ نوجوان وہ بھی تھے جو بھگت سنگھ کی پارٹی میں شامل رہے تھے ان میں ایک ہنس راج وہرا بھی تھا۔
ہنس راج وہرہ کا والد گوروآن دتہ مل لاہور کے سنٹر ل ٹریننگ کالج( موجودہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور) میں ریاضی کا پروفیسر تھا۔ ہنس راج ایف سی کالج کا سٹوڈنٹ اور لاہو سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا۔ یہ بھگت سنگھ کے قریبی ساتھی  سکھ دیو کا رشتہ دار بھی تھا اور سکھ دیو ہی نے اسے پارٹی اور بھگت سنگھ سے متعارف کرایا تھا۔ جب بھگت سنگھ نے ایس ایس پی آفس لاہور سے نکلنےوالے پولیس آفیسر سانڈرس کو قتل کیا تو پہلے ہی دن پولیس نے وہرہ کو گرفتار کرلیا لیکن تین ہفتوں کے بعد پولیس نے اسے چھوڑدیا تھا پھر جب بھگت سنگھ سکھ دیو اور راج گرو گرفتار ہوئے تو وہرہ کو ایک بار پھر گرفتارکرلیا گیا تھا۔وہرہ اس گرفتاری کے دوران سلطانی گواہ بن گیا اور بطور گواہ وہ عدالت میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف پیش ہوا تھا۔
بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھدیو کی سزائے موقت کے بعد وہرہ کو رہا کردیا گیا اور وہ پنجاب حکومت کے خرچے پر لندن سکول آف اکنامکس میں تعلیم کے لئے انگلستان چلا گیا وہاں سے ماسٹرز کرنے کے بعد اس نے لندن یونیورسٹی سے جرنلزم میں ڈپلومہ کیا اور لاہور واپس آیا تو اسے پنجاب حکومت کے بیورو آف انفارمیشن میں اسٹنٹ انفارمیشن کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔ پھر اس نے لاہور سے نکلنے والے معروف انگریزی اخبار سول اینڈ ملڑی گزٹ جائن کرلیا۔ وہ یہاں سے امریکہ چلا گیا اور وہاں ٹایمز آف انڈیا اور دکن کرانیکل کے نمائندے کے طور پر کام کرتا رہا۔ اس نے اپنی وفات سے قبل سکھد یو کے بھائی کو ایک خط لکھا تھا جس میں  کہا تھا کہ جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس وقت تک سکھدیو پولیس کو اقبالی بیان دے چکا تھا اور جب میں نے  سکھدیو کا بیا ن دیکھا تو میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ میں بھی اقبال جرم کرلوں۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں راج گرو اور سکھدیو کے خلاف عدالت میں استغاثہ نے457گواہ پیش کئے تھے۔ ان میں چار گواہ وہ تھے جو کسی نہ کسی حیثیت سے بھگت سنگھ اور ہندوستان سوشلسٹ پارٹی اور نوجوان بھارت سبھا سے وابستہ رہے تھے۔ان چاروں نے عدالت میں اقبالی بیانات ریکارڈ کرائے تھے اور بعدازاں اپنے اقبالی بیانات کو عدالت میں پیش ہوکر تسلیم بھی کیا تھا۔ یہ چار گواہ۔۔۔ ہنس راج وہرہ، فونندر گھوش،جے گوپال اور من ہوہن بینر جی تھےکچھ دوستوں نے کہا ہے کہ انھوں نے سن رکھا ہے کہ مشہور موسیقار خواجہ خورشید انور بھی بھگت سنگھ کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے اور انہوں نے بھی بھگت سنگھ کے خلاف اقبالی بیان دیا تھا۔ ایک صاحب نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اعتزاز احسن کے والد احسن علیگ کا تعلق بھی بھگت سنگھ کے گروپ سے تھا۔ یہ افراد ممکن ہے بھگت سنگھ کے ساتھیوں میں شمار ہوتے ہوں لیکن نہ تو گواہاں کی فہرست میں ان کا نام ہے اور نہ ہی پولیس نے جن افراد کو گرفتار کیا تھا ان میں شامل تھے۔یہ سب اورل ہسٹری کا کرشمہ ہے۔ اسی طرح نواب محمد احمد خان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے ڈیتھ وارنٹس پر دستخط کئے تھے ۔ اس ضمن میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ نواب محمد نواب احمد خان اعزازی میجسٹریٹ تھے نہ کہ باقاعدہ جوڈیشل  سروس کا حصہ تھے۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس لاہور سانڈرس جن کی قبرلاہور کے گورا قبرستان گلبرگ میں ہے،  کو 17-دسمبر 1927 ایس ایس پی آفس سے باہر نکلتے ہوئے گولی مار کر قتل کردیا تھا۔بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا ٹارگٹ دراصل ایس ایس پی جیمز سکاٹ تھا جس نے سائمن کمیشن کی آمد کے خلاف لاہور کے ریلوے سٹیشن کے بالمقابل احتجاجی مظاہرے میںشریک افراد پر لاٹھی چارج کیا تھا اور اس لاٹھی چارج میں لالہ لاجپت رائے شدید زخمی ہوگئے اور کچھ دنوں بعد  زخموں کی تاب نہ لا کر فوت ہوگئے تھے۔ یہ جے گوپال سلطانی گواہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو اشارہ کرتا کہ یہ ایس ایس پی جیمز سکاٹ ہے اس نے سانڈرس کو جیمز سکاٹ سمجھتے ہوئے گھات میں بیٹھے ہوئے بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو اشارہ کیا اور انہوں نے سانڈرس پر فائرنگ کردی۔ سانڈرس نے ایک روز قبل ہی اپنے عہدے کا چارج لیا تھا۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں پر مقدمہ چلانے کے لئے وایسرائے ہند لارڈ ارون نے ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا تھا جس کے تین ارکان میں جسٹس جے کولڈ سٹریم، جسٹس آغا حیدر اور جسٹس جے سی ہلٹن شامل تھے۔ ٹربیونل کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ملزموں کی غیر حاضری میں بھی مقدمے کی سماعت کرسکتاہے۔بھگت سنگھ کیس کے تفتشی افسر ایس پی خان بہادر عبدالعزیز تھے۔ اس تفتیش کے صلے میں انھیں آوٹ آف ٹرن سلیکشن گریڈ میں ایس پی پرموٹ کیا گیا اور اگلے تین سالوں میں اسے ڈی آئی جی پرموٹ کردیا گیا۔ خان عبدالعزیز برٹش پولیس سروس میں پہلی مثال تھے کہ وہ ہیڈکانسٹیبل بھرتی ہوئے اور بطور ڈی آئی جی ریٹایر ہوئے تھے۔ ان کے بیٹے  مسعود عزیز کو بھی پولیس میں ڈی ایس پی بھرتی کیا گیا تھا اور لائل پور حال فیصل آباد میں انھیں انگریز سرکار نے پچاس ایکڑ زرعی اراضی بھی انعام کے طور پر دی تھی۔ 

  یاد رہے چار سلطانی گواہوں میں سے جے گوپال نے بیس ہزار روپے نقد لئے تھے اور فونندر ناتھ گھوش اور من موہن بینر جی کو پچاس پچاس ایکڑ زمین بہار کے ضلع چمپارن میں دی گئی تھی۔ وہرہ نے کوئی نقد انعام لینے کی بجائے لندن سکول آف اکنامکس میں پنجاب سرکار سے سکالر شپ لیا تھا اور واپس ہندوستان آکر محکمہ اطلاعات میں ملازمت لے لی تھی۔   

About The Author

لیاقت علی ایڈوکیٹ

زیر نظر تحریر کے لکھاری لیاقت علی ایڈووکیٹ سوشل میڈیا میں اپنی منفرد، بیباک و دبنگ تحریروں کی بنا پر بے حد مقبول ہیں جواں سالی میں لیفٹ کی عملی سیاست کا حصہ بنے ، ضیاء آمریت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، گزشتہ دو دہائیوں سے عملی سیاست کی بجائے انسانی حقوق ، جمہوریت اور فروغ امن کی سربلندی کے لیے علمی و دانشمندانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔

Leave a reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.