پاکستان کا ریاستی بیانیہ ہو یا نصابی کتب دونوں ہی یہ دعوی کرتے ہیں کہ قیام پاکستان پورے ہندوستان کے مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ تھا اور مسلم لیگ اور جناح ہندوستانی مسلمانوں کے واحد متفقہ رہنما تھے لیکن یہ کہیں نہیں بتایا جاتا کہ اگر مسلمانوں میں اس بارے اتفاق رائے اس قدر مکمل تھا تو تین کروڑ مسلمانوں نے بھارت میں رہنے کو کیوں ترجیح دی تھی ۔مسلم لیگ کی حکمت عملی کو اس حوالے سے کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس نے مسلم اکثریتی صوبوں کے نام پر ملک کے قیام کا مطالبہ کیا لیکن اس کے لئے تمام تر تحریک مسلم اقلیتی صوبوں میں چلائی تھی۔ تقسیم پنجاب اور بنگال ہوئے لیکن نقل مکانی مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے کی تھی۔ قیام پاکستان کے جلو میں ہونے والی اتھل پتھل کے باوجود تین کروڑ مسلمانوں نے نئے ملک میں آنے سے انکار کردیا تھا اور گذشتہ اکہتر سالوں میں یہ تین کروڑ بیس کروڑ بن چکے ہیں اور بھارت کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ایک قوم کہنے والی مسلم لیگی قیادت تقسیم ہند کے وقت بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ’بھارت کا وفادار شہری‘ بن کر رہنے کی تلقین کر رہی تھی کیونکہ اسے اس حقیقت سے آگاہی تھی کہ ’ہندوستان کے تمام مسلمان‘ پاکستان میں نہ تو آسکتے ہیں اور نہ ہی اس میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ یہاں کھپ سکیں۔کچھ افراد کو تو یہ بھی موقف ہے کہ مسلم لیگ کی ’مسلمان قوم‘ اگر ساری کی ساری پاکستان کا رخ کرلیتی تو پاکستان کا وجود قائم نہیں رہ سکتا تھا۔
مسلم لیگ اور جناح کی مسلم علیحدگی پسندی کے خلاف جن شخصیات، سیاسی و سماجی تنظیموں اور اخبارات و رسائل نے آواز اٹھائی اور دو قومی نظریہ کو مسلمانوں کے اجتماعی مفاد سے متصاد م قرار دیا تھا شمس الاسلام نے اپنی کتاب’ تقسیم کے مخالف مسلمان ‘ میں انہی کا ذکر کیا ہے۔ شمس الاسلام کہتے ہیں تقسیم ہند کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی وفاداری اور حب الوطنی پر سوال اٹھنے لگے تھے۔ انتہا پسند ہندو وں کا موقف تھا کہ اب جب کہ مسلمانوں نے اپنا علیحدہ ملک حاصل کر لیا ہے تو مسلمانوں کابھارت میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔یہی وہ صورت حال تھی جس کی بنا پر انھوں نے یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا اور ان شخصیات اور تنطیموں کا کھوج لگایا جو مسلم لیگ کی علیحدگی پسندی کی تحرک کے رو برو ڈٹ گئے تھے۔ شمس الاسلام نے سب سے پہلے جس شخصیت کا اس ضمن میں ذکر کیا ہے وہ شبلی نعمانی ہیں۔انھوں نے شبلی نعمانی کی نظموں کا حوالہ دیا ہے جو انھوں نے مسلم لیگ اور اس کی انگریز سرکار سے وفاداری کے پس منظر میں لکھی تھیں۔ کتاب کا اہم حصہ وہ ہے جس میں انھوں نے سندھ کے دو دفعہ وزیرا عظم( ان دنوں صوبائی وزیر اعلی کو وزیر اعظم کیا جاتا تھا) رہنے والے اللہ بخش سومرو کی مسلم لیگ اور اس کے دو قومی نظریہ کے خلاف جد وجہد کا ذکر کیا ہے۔ اللہ بخش سومرو 1938-42 کے درمیانی سالوں میں دو دفعہ سند ھ کے وزیر اعلی منتخب ہوئے تھے۔ سومرو نے آزادمسلم کانفرنس کے نام سے ان تمام مسلمان شخصتیوں اور تنظیموں کو اکٹھا کیا تھا جو دو قومی نظریہ کی مخالف تھیں۔ سومرو وہ پہلے صوبائی وزیر اعظم تھے جنھیں انگریز سرکار نے برطرف کیا تھا کیونکہ انھوں نے انگریز کے دیئے ہوئے خطاب اور اعزازات احتجاجی طور پر واپس کردیئے تھے۔ اللہ بخش سومرو کو ان کے سیاسی مخالفین نے شکار پور میں قتل کرادیا تھا۔ ان کے قتل کے الزام میں مسلم لیگ کے رہنما ایوب کھوڑو اور ان کے بھائی کو گرفتار کیا گیا تھا ۔
کتاب میں جمعیت علمائے ہند، مجلس احرار، مومن کانفرنس، جمیعت اہل حدیث ،انجمن وطن بلوچستان، آل انڈیا مسلم مجلس، اور سیدعبداللہ بریلوی ایڈیٹر بمبئی کرانیکل کی انڈین مسلم کانگریس کی متحدہ قومیت اور مسلم لیگ کی علیحدگی پسندی اور دو قومی نظریہ کے خلاف سرگرمیوں اور لٹریچر کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔