ہمارے معاشرے میں شادی سے گریز کا رجحان حال ہی میں نمودار ہوا ہے اور زیادہ تر پڑھی لکھی خواتین میں ملتا ہے جو اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ انکا مسئلہ معاشی نہیں نفسیاتی ہے۔ معاشی لحاظ سے وہ خود مکتفی ہوتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ شادی کے بعد انکی آزادی سلب ہوجائے گی۔، مجھے کئی ایسی خواتین سے بات کرنے کا اتفاق ہوا ہے جو تیس پینتیس کی ہوچکی ہیں لیکن شادی نہیں کرتیں۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ترجیح دیتی ہیں جبکہ اس نوع کے نوجوان بالعموم کم تعلیم یافتہ مگر زیادہ خوبصورت لڑکیوں کو ترجیح دیتے ہیں جن پر وہ اپنی برتری جتا سکیں۔ انہیں یہ اندیشہ لاحق ہوتا ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ عورت سے شادی کی تو وہ اشدۃ چشم پر رقص نہیں کرے گی۔
ایک مجرد (کنوارے) نوجوان نے راقم سے کہا کہ جو لڑکی اعلی تعلیم یافتہ ہو اور پچیس چھبیس کی ہوچکی ہو ایک تو وہ خوبصورت نہیں ہوگی کیونکہ حسین لڑکیوں کو افسر لوگ میٹرک یا ایف اے کی جماعتوں ہی سے اچک لیتے ہیں اور دوسرے اس بات کا قوی احتمال ہے کہ وہ اپنی دوشیزگی کھوچکی ہوں کیونکہ چھبیس برس کی عمر تک باکرہ رہنا اسکے الفاظ میں معجزہ سے کم نہیں ہوگا۔ میں نے اسے بتایا کہ بعض پاکباز لڑکیوں کی بکارت کھیل کود میں زائل ہوجاتی ہے لیکن وہ اپنی ضد پر اڑا رہا۔ ایک امریکی نوجوان سے باتیں کرتے ہوئے راقم کو معلوم ہوا کہ وہ شادی کے سخت خلاف تھا۔ اسکے ذہن میں ایک مثالی بیوی کا تصور تھا۔ جو صفات اسنے مثالی بیوی کی گنائیں ان سے مفہوم ہوتا تھا کہ وہ ایک عورت میں پانچ عورتوں کی تلاش کررہا ہے۔ میں نے کہا شادی کا جنسی پہلو ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ انسان کی پدری اور مادری جبلتوں کی تسکین بھی ضروری ہے۔
ایک دن ایک کنواری خاتون لیکچرر نے شادی کے مؤضوع پر بات کرتے ہوئے راقم سے کہا، یہ دنیا مصائب کا گھر ہے۔ اپنے حظ نفس کی خاطر بچے پیدا کرکے کیوں انہیں مصائب و آلام کی دنیا میں دھکیل دوں۔ گفتگو کے دوران میں راقم نے کہا کہ جب آپ پچاس ساٹھ برس کی ہوجائیں گی اور ماں باپ بچھڑ چکے ہونگے تو اس اتھاہ خوفناک تنہائی اور اکتاہٹ کا سامنا کیسے کرسکیں گی؟ بچے مامتا کی تسکین ہی نہیں کرتے بلکہ بڑھاپے کا سہارا بھی بن جاتے ہیں۔ اس پر وہ سوچ سوچ کر کہنے لگیں کہ شائد آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن ایک بات اور بھی ہے۔
جو لوگ مجھ سے شادی کرنے کے آرزومند ہیں انکی نظر میری تنخواہ پر ہے۔ میں نے کہا آپ شائستہ، پڑھی لکھی، خوش شکل ہیں۔ ایک پڑھے لکھے، کھاتے پیتے نوجوان کیلیے آپکی تنخواہ کی نسبت آپکی ذات زیادہ پرکشش ہوگی۔ اس پر وہ بولیں سب مرد خودغرض اور ہوس پرست ہوتے ہیں۔ مجھے مرد کی ذات ہی سے نفرت ہے۔ پھر خفیف ہوکر کہنے لگیں میری مراد آپ جیسے بزرگوں سے نہیں ہے بلکہ نوجوانوں سے ہے۔ راقم الحروف نے کہا آپ تجرد (تنہائی) کی جو بھاری صلیب اٹھا رہی ہیں اس سے آپ کے کندھے شکستہ ہوجائیں گے اور یہ صلیب عمر بھر اٹھانی پڑے گی۔ آخر میں وہ کہنے لگلیں، میں کسی مرد کی—کی محکوم ہوکر نہیں رہ سکتی، آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مرد اپنی زوجہ کو مساوی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس پر بات ختم ہوگئی۔