میری اور سلیم کی دوستی کو پانچ سال کا عرصہ گُزر چکا ہے۔ اس زمانے میں ہم نے ایک ہی سکول سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا، ایک ہی کالج میں داخل ہُوئے اور ایک ہی ساتھ ایف۔اے۔ کے امتحان میں شامل ہو کر فیل ہوئے۔ پھر پرانا کالج چھوڑ کر ایک نئے کالج میں داخل ہُوئے
 اس سال میں تو پاس ہو گیا۔ مگر سلیم سُوئے قسمت سے پھر فیل ہو گیا۔ سلیم کی دوبارہ ناکامیابی سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ آوارہ مزاج اور نالائق ہے۔ یہ بالکل افترا ہے۔ سلیم کا بغلی دوست ہونے کی حیثیت سے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ کہ سلیم کا دماغ بہت روشن ہے۔ اگر وہ کالج کی پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ دیتا۔ تو کوئی وجہ نہ تھی۔ کہ وہ صوبہ بھر میں اول نہ رہتا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے پڑھائی کی طرف کیوں توجہ نہ دی؟ جہاں تک میرا ذہن کام دیتا ہے مجھے اُس کی تمام تر وجہ، وہ خیالات معلوم ہوتے ہیں جو ایک عرصے سے اُس کے دل و دماغ پر آہستہ آہستہ چھا رہے تھے؟ دسویں جماعت اور کالج میں داخل ہوتے وقت سلیم کا دماغ ان تمام اُلجھنوں سے آزاد تھا۔ جنھوں نے اسے ان دنوں پاگل خانے کی چاردیواری میں قید کر رکھا ہے۔ ایام کالج میں وہ دیگر طلبہ کی طرح کھیل کود میں حصہ لیا کرتا تھا۔ سب لڑکوں میں ہر دلعزیز تھا۔ مگر یکایک اس کے والد کی ناگہانی موت نے اس کے متبسّم چہرے پر غم کی نقاب اوڑھا دی
اب کھیل کود کی جگہ غور و فکر نے لے لی۔ وہ کیا خیالات تھے، جو سلیم کے مضطرب دماغ میں پیدا ہُوئے؟
یہ مجھے معلوم نہیں۔ سلیم کی نفسیات کا مطالعہ کرنا بہت اہم کام ہے۔ اس کے علاوہ وہ خود اپنی دلی آواز سے نا آشنا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ گفتگو کرتے وقت یا یونہی سیر کرتے ہُوئے اچانک میرا بازو پکڑ کر کہا ہے۔ ’’عباس جی چاہتا ہے کہ……۔‘‘
’’ہاں۔ ہاں۔ کیا جی چاہتا ہے۔ میں نے اس کی طرف تمام توجہ مبذول کرکے پوچھا ہے۔ مگر میرے اس استفسار پر اس کے چہرے کی غیر معمولی تبدیلی اور گلے میں سانس کے تصادم نے صاف طور پر ظاہر کیا کہ وہ اپنے دلی مدّعا کو خود نہ پہچانتے ہُوئے الفاظ میں صاف طور پر ظاہر نہیں کر سکتا۔ وہ شخص جو اپنے احساسات کو کسی شکل میں پیش کر کے دوسرے ذہن پر منتقل کر سکتا ہے۔ وہ دراصل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے۔ اور وہ شخص جو محسوس کرتا ہے۔ مگر اپنے احساس کو خود آپ اچھی طرح نہیں سمجھتا۔ اور پھر اس اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس شخص کے مترادف ہے۔ جو اپنے حلق میں ٹھنسی ہُوئی چیز کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ مگر وہ گلے سے نیچے اُترتی چلی جا رہی ہو.
یہ ایک ذہنی عذاب ہے۔ جس کی تفصیل لفظوں میں نہیں آ سکتی۔ سلیم شروع ہی سے اپنی آواز سے نا آشنا رہا ہے۔ اور ہوتا بھی کیونکر جب اس کے سینے میں خیالات کا ایک ہجوم چھایا رہتا تھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ بیٹھا بیٹھا اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اور کمرے میں چکر لگا کر لمبے لمبے سانس بھرنے شروع کر دیے.
غالباً وہ اپنے اندرونی انتشار سے تنگ آ کر ان خیالات کو جو اس کے سینے میں بھاپ کے مانند چکر لگا رہے ہوتے۔ سانسوں کے ذریعے باہر نکالنے کا کوشاں ہوا کرتا تھا۔ اضطراب کے انہی نکلیف دہ لمحات میں اس نے اکثر اوقات مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ’’ عباس! یہ خاکی کشتی کسی روز تُند موجوں کی تاب نہ لا کر چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی.
 مجھے اندیشہ ہے کہ……. ‘‘ وہ اپنے اندیشے کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتا تھا۔ سلیم کسی متوقع حادثے کا منتظر ضرور تھا۔ مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ حادثہ کس شکل میں پردہ ظہور پر نمودار ہو گا.
 اس کی نگاہیں ایک عرصے سے دُھندلے خیالات کی صورت میں ایک موہوم سایہ دیکھ رہی تھیں۔ جو اس کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ مگر وہ یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس تاریک شکل کے پردے میں کیا نہاں ہے۔ میں نے سلیم کی نفسیات سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے۔ مگر مجھے اس کی مُنقلب عادات کے ہوتے ہوئے کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کن گہرائیوں میں غوطہ زن ہے۔ اور وہ اس دنیا میں رہ کر اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ ہر قسم کے سرمائے سے محروم کر دیا گیا تھا۔ میں ایک عرصے سے سلیم کو مُنقلب ہوتے دیکھ رہا تھا۔ اس کی عادات دن بدن بدل رہی تھیں.
 کل کا کھلنڈر الڑکا، میرا ہم جماعت ایک مُفکر میں تبدیل ہو رہا تھا۔
 یہ تبدیلی میرے لیے سخت باعث حیرت تھی۔ کچھ عرصے سے سلیم کی طبیعت پر ایک غیر معمولی سکون چھا گیا تھا۔ جب دیکھو اپنے گھر میں خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ اور اپنے بھاری سر کو گھٹنوں میں تھامے کچھ سوچ رہا ہے.
 وہ کیا سوچ رہا ہوتا۔ یہ میری طرح خود اسے بھی معلوم نہ تھا۔ ان لمحات میں میں نے اسے اکثر اوقات اپنی گرم آنکھوں پر دوات کا آہنی ڈھکنا یا گلاس کا بیرونی حصّہ پھیرتے دیکھا ہے.
 شاید وہ اس عمل سے اپنی آنکھوں کی حرارت کم کرنا چاہتا تھا۔ سلیم نے کالج چھوڑتے ہی غیر ملکی مصنفّوں کی بھاری بھرکم تصانیف کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ شروع شروع میں مجھے اس کی میز پر ایک کتاب نظر آئی۔ پھر آہستہ آہستہ اس الماری میں جس میں وہ شطرنج۔ تاش اور اسی قسم کی دیگر کھیلیں رکھا کرتا تھا۔ کتابیں ہی کتابیں نظر آنے لگیں.
 اس کے علاوہ وہ کئی کئی دنوں تک گھر سے کہیں باہر چلا جایا کرتا تھا۔ جہاں تک میرا خیال ہے سلیم کی طبیعت کا غیر معمولی سکون ان کتابوں کے انتھک مطالعہ کا نتیجہ تھا۔ جو اس نے بڑے قرینے سے الماری میں سجا رکھی تھیں۔ سلیم کا عزیز ترین دوست ہونے کی حیثیت میں مَیں اس کی طبیعت کے غیر معمولی سکون سے سخت پریشان تھا۔ مجھے اندیشہ تھا۔ کہ یہ سکون کسی وحشت خیز طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اس کے علاوہ مجھے سلیم کی صحت کا بھی خیال تھا۔ وہ پہلے ہی بہت کمزور جثّے کا واقع ہوا تھا۔ اس پر اس نے خوامخواہ اپنے آپ کو خدا معلوم کن کن الجھنوں میں پھنسا لیا تھا۔ سلیم کی عمر بمشکل بیس سال کی ہو گی۔ مگر اس کی آنکھوں کے نیچے شب بیداری کی وجہ سے سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ پیشانی جو اس سے قبل بالکل ہموار تھی اب اس پر کئی شکن پڑے رہتے تھے.
 جو اس کی ذہنی پریشانی کو ظاہر کرتے تھے۔ چہرہ جو کچھ عرصہ پہلے بہت شگفتہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس پر ناک اور لب کے درمیان گہری لکیریں پڑ گئی تھیں۔ جنہوں نے سلیم کو قبل ازوقت معّمر بنا دیا تھا.
 اس غیر معمولی تبدیلی کو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھاہے۔ جو مجھے ایک شعبدے سے کم معلوم نہیں ہوتی.
 یہ کیا تعجب کی بات ہے۔ کہ میری عمر کا لڑکا میری نظروں کے سامنے بوڑھا ہو جائے۔ سلیم پاگل خانے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ وہ سڑی اور دیوانہ ہے۔ اسے غالباً اس بنا پر پاگل خانے بھیجا گیا ہے کہ وہ بازاروں میں بلند بانگ تقریریں کرتا ہے.
 راہ گذروں کو پکڑ پکڑ کر انہیں زندگی کے مشکل مسائل بتا کر جواب طلب کرتا ہے۔ اور امرا کے حریر پوش بچوں کا لباس اتار کر ننگے بچوں کو پہنا دیتا ہے.
 ممکن ہے۔ یہ حرکات ڈاکٹروں کے نزدیک دیوانگی کی علامتیں ہوں۔ مگر میں یقین کے ساتھ کَہ سکتا ہوں کہ سلیم پاگل نہیں ہے۔ بلکہ وہ لوگ جنھوں نے اسے امن عامہ میں خلل ڈالنے والا تصور کرتے ہوئے آہنی سلاخوں کے پنجرے میں قید کر دیا ہے۔ کسی دیوانے حیوان سے کم نہیں ہیں! اگر وہ اپنی غیر مربوط تقریر کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہے۔ تو کیا ان کا فرض نہیں کہ وہ اس کے ہر لفظ کو غور سے سنیں؟ اگر وہ راہ گذروں کے ساتھ فلسفۂ حیات پر تبادلۂ خیالات کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا اس کے یہ معنی لیے جائیں گے کہ اس کا وجود مجلسی دائرہ کے لیے نقصان دہ ہے؟
 کیا زندگی کے حقیقی معنی سے باخبر ہونا ہر انسان کا فرض نہیں ہے؟ اگر وہ متمول اشخاص کے بچوں کا لباس اُتار کر غربا کے برہنہ بچوں کا تن ڈھانپنا چاہتا ہے تو کیا یہ عمل اُن افراد کو اُن کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتا جو فلک بوس عمارتوں میں دوسرے لوگوں کے بل بوتے پر آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا ننگوں کی ستر پوشی کرنا ایسا فعل ہے کہ اسے دیوانگی پر محمول کیا جائے؟ سلیم ہر گز پاگل نہیں ہے۔ مگر مجھے یہ تسلیم ہے کہ اس کے افکار نے اسے بے خود ضروربنا رکھا ہے۔ دراصل وہ دُنیا کو کچھ پیغام دینا چاہتا ہے۔ مگر دے نہیں سکتا ایک کم سن بچے کی طرح وہ تُتلا تُتلا کر اپنے قلبی احساسات بیان کرنا چاہتا ہے۔ مگر الفاظ اسکی زبان پر آتے ہی بکھر جاتے ہیں۔ وہ اس سے قبل ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔ مگر اب اسے اور اذیت میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ پہلے ہی سے اپنے افکار کی الجھنوں میں گرفتار ہے۔ اور اب اسے زندان نما کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا ہے.
 کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ میں نے آج تک سلیم کی کوئی بھی ایسی حرکت نہیں دیکھی۔ جس سے میں یہ نتیجہ نکال سکوں۔ کہ وہ دیوانہ ہے۔ ہاں البتہ کچھ عرصے سے میں اس کے ذہنی انقلابات کا مشاہدہ ضرور کرتا رہا ہوں۔ شروع شروع میں جب میں نے اس کے کمرے کے تمام فرنیچر کو اپنی اپنی جگہ سے ہٹا ہُوا پایا تو میں نے اس تبدیلی کی طرف خاص توجہ نہ دی دراصل میں نے اس وقت جو خیال کیا۔ کہ شاید سلیم نے فرنیچر کی موجودہ جگہ کو زیادہ موزوں خیال کیا ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ میری نظروں کو جو کرسیوں اور میزوں کو کئی سالوں سے ایک جگہ دیکھنے کی عادی تھیں۔ وہ غیر متوقع تبدیلی بہت بھلی معلوم ہوئی۔ اس واقعے کے چند روز بعد جب میں کالج سے فارغ ہو کر سلیم کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ فلمی ممثلوں کی دو تصاویر جو ایک عرصے سے کمرے کی دیواروں پر آویزاں تھیں اور جنھیں میں اور سلیم نے بہت مشکل کے بعد فراہم کیا تھا۔ باہر ٹوکری میں پھٹی پڑی ہیں اور ان کی جگہ انہی چوکھٹوں میں مختلف مصنفّوں کی تصویریں لٹک رہی ہیں.
چونکہ میں خود ان تصاویر کا اتنا مشتاق نہ تھا۔ اس لیے مجھے سلیم کا یہ انخلاب بہت پسند آیا۔ چنانچہ ہم اس روز دیر تک ان تصویروں کے متعلق گفتگو بھی کرتے رہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس واقعہ کے بعد سلیم کے کمرے میں ایک ماہ تک کوئی خاص قابل ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ مگر اس عرصے کے بعد میں نے ایک روز اچانک کمرے میں بڑا سا تخت پڑا پایا.
جس پر سلیم نے کپڑا بچھا کر کتابیں چُن رکھیں تھیں اور آپ قریب ہی زمین پر ایک تکیہ کا سہارا لیے کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ میں یہ دیکھ کر سخت متعجّب ہوا۔ اور کمرے میں داخل ہوتے ہی سلیم سے یہ سوال کیا۔ کیوں میاں! اس تخت کے کیا معنی؟ سلیم جیسا کہ اس کی عادت تھی مسکرایا اور کہنے لگا۔ ’’کرسیوں پر روزانہ بیٹھتے بیٹھتے طبیعت اُکتا گئی ہے۔ اب یہ فرش والا سلسلہ ہی رہے گا۔ بات معقول تھی۔ میں چپ رہا۔ واقعی روزانہ ایک ہی چیز کا استعمال کرتے کرتے طبیعت ضرور اچاٹ ہو جایا کرتی ہے۔ مگر جب پندرہ بیس روز کے بعد میں نے وہ تخت مع تکیے کے غائب پایا۔ تو میرے تعجّب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اور مجھے شُبہ سا ہوا کہ کہیں میرا دوست واقعی خبطی تو نہیں ہو گیا ہے۔ سلیم سخت گرم مزاج واقع ہُوا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے وزنی افکار نے اسے معمول سے زیادہ چڑ چڑا بنا رکھا تھا۔ اس لیے میں عموماً اس سے ایسے سوالات نہیں کیا کرتا۔ جو اس کے دماغی توازن کو درہم برہم کر دیں یا جن سے وہ خوامخواہ کھج جائے۔ فرنیچر کی تبدیلی، تصویروں کا انخلاب، تخت کی آمد اور پھر اس کا غائب ہو جانا واقعی کسی حد تک تعجب خیز ضرور ہیں اور واجب تھا کہ میں ان اُمور کی وجہ دریافت کرتا۔ مگر چونکہ مجھے سلیم کو آزردہ خاطر کرنا، اور اس کے کام میں دخل دینا منظور نہ تھا۔ اس لیے میں خاموش رہا۔ تھوڑے عرصے کے بعد سلیم کے کمرے میں ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی تبدیلی دیکھنا میرا معمول ہو گیا.
اگر آج کمرے میں تخت موجود ہے۔ تو ہفتے کے بعد وہاں سے اُٹھا دیا گیا ہے۔ اس کے دو روز بعد وہ میز جو کچھ عرصہ پہلے کمرے کے دائیں طرف پڑی تھی۔ رات رات میں وہاں سے اٹھا کر دوسری طرف رکھ دی گئی ہے۔ انگیٹھی پر رکھی ہُوئی تصاویر کے زاویے بدلے جا رہے ہیں۔ کپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں ایک جگہ سے اُکھیڑ کر دوسری جگہ پر جڑ دی گئی ہیں۔ کرسیوں کے رُخ تبدیل کیے گئے ہیں.
گویا کمرے کی ہر شے ایک قسم کی قواعد کرائی جاتی تھی۔ ایک روز جب میں نے کمرے کے تمام فرنیچر کو مخالف رخ میں پایا تو مجھ سے نہ رہا گیا۔ اور میں نے سلیم سے دریافت کر ہی لیا۔ ’’ سلیم میں ایک عرصے سے اس کمرے کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا دیکھ رہا ہوں۔ آخر بتاؤ تو سہی یہ تمہارا کوئی نیا فلسفہ ہے۔؟‘‘ ’’تم جانتے نہیں ہو، میں انقلاب پسند ہوں‘‘ سلیم نے جواب دیا۔ یہ سن کر میں اور بھی متعجب ہوا۔ اگر سلیم نے یہ الفاظ اپنی حسبِ معمول مسکراہٹ کے ساتھ کہے ہوتے تو میں یقینی طور پر یہ خیال کرتا کہ وہ صرف مذاق کر رہا ہے۔ مگر یہ جواب دیتے وقت اس کا چہرہ اس امر کا شاہد تھا، کہ وہ سنجیدہ ہے۔ اور میرے سوال کا جواب وہ اِنہی الفاظ میں دینا چاہتا ہے لیکن پھر بھی میں تذبذب کی حالت میں تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔
’’مذاق کر رہے ہو یار‘‘ ؟
’’تمہاری قسم بہت بڑا انقلاب پسند‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد اس نے ایسی گفتگوشروع کی تھی۔ مگر ہم دونوں کسی اور موضوع پر اظہار خیالات کرنے لگ گئے تھے.
یہ سلیم کی عادت ہے کہ وہ بہت سی باتوں کو دلچسپ گفتگو کے پردے میں چُھپا لیا کرتا ہے۔ ان دنوں جب کبھی میں سلیم کے جواب پر غور کرتا ہُوں۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ سلیم درحقیقت انقلاب پسند واقع ہُوا ہے.
اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ کسی سلطنت کا تختہ اُلٹنے کے درپے ہے۔ یا وہ دیگر انقلاب پسندوں کی طرح چوراہوں میں بم پھینک کر دہشت پھیلاناچاہتا ہے۔ بلکہ جہاں تک میرا خیال ہے۔ وہ ہر چیز میں انقلاب دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظریں اپنے کمرے میں پڑی ہوئی اشیا کو ایک ہی جگہ پر نہ دیکھ سکتی تھیں۔ ممکن ہے میرا یہ قیافہ کس حد تک غلط ہو۔ مگر میں یہ وثوق سے کَہ سکتا ہوں کہ اس کی جستجو کسی ایسے انقلاب کی طرف رجوع کرتی ہے۔ جس کے آثار اس کے کمرے کی روزانہ تبدیلیوں سے ظاہر ہیں۔ بادی النظر میں کمرے کی اشیا کو روز الٹ پلٹ کرتے رہنا دیوانگی کے مترادف ہے۔ لیکن اگر سلیم کی ان بے معنی حرکات کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ امر روشن ہو جائیگا کہ ان کے پسِ پردہ ایک ایسی قوت کام کر رہی تھی۔ جس سے وہ خود ناآشنا تھا.
___ اسی قوت نے جسے میں ذہنی تعصب کا نام دیتا ہوں۔ سلیم کے دماغ میں تلاطم بپا کر دیا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس طوفان کی تاب نہ لا کر ازخود رفتہ ہو گیا۔ اور پاگل خانے کی چاردیواری میں قید کر دیا گیا۔ پاگل خانے جانے سے کچھ روز پہلے سلیم مجھے اچانک شہر کے ایک ہوٹل میں چائے پیتا ہوا ملا۔ میں اور وہ دونوں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ گئے۔ اس لیے کہ میں اُس سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے بازار کے چند دکان داروں سے سنا تھا کہ اب سلیم ہوٹلوں میں پاگلوں کی طرح تقریریں کرتا ہے ۔۔۔ میں یہ چاہتا تھا کہ اس سے فوراً مل کر اُسے اس قسم کی حرکات کرنے سے منع کر دوں۔ اس کے علاوہ یہ اندیشہ تھا کہ شاید وہ کہیں سچ مچ نحبوط القواس ہی نہ ہو گیا ہو۔ چونکہ میں اس سے فوراً ہی بات کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے ہوٹل میں گفتگو کرنا مناسب سمجھا۔ کرسی پر بیٹھتے وقت میں غور سے سلیم کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھے اس طرح گھورتے دیکھ کر سخت متعجب ہوا۔ وہ کہنے لگا…… ’’ شاید میں سلیم نہیں ہوں۔‘‘ آواز میں کس قدر درد تھا۔ گو یہ جُملہ آپ کی نظروں میں بالکل سادہ معلوم ہو۔ مگر خدا گواہ ہے میری آنکھیں بے اختیار نمناک ہو گئیں۔ ” شاید میں سلیم نہیں ہُوں‘‘
گویا وہ ہر وقت اس بات کا متوقع تھا کہ کسی روز اس کا بہترین دوست بھی اسے نہ پہچان سکے گا۔ شاید اسے معلوم تھا کہ وہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ میں نے ضبط سے کام لیا۔ اور اپنے آنسوؤں کو رومال میں چھپا کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ سلیم میں نے سُنا ہے کہ تم نے میرے لاہور جانے کے بعد یہاں بازاروں میں تقریریں کرنی شروع کر دی ہیں.
جانتے بھی ہو۔
اب تمہیں شہر کا بچہ بچہ پاگل کے نام سے پُکارتا ہے ‘‘
’’پاگل! شہر کا بچہ بچہ مجھے پاگل کے نام سے پُکارتا ہے.
پاگل!
 ہاں عباس،
میں پاگل ہُوں___ پاگل___ دیوانہ___ خرد باختہ___ لوگ مجھے دیوانہ کہتے ہیں___ معلوم ہے کیوں؟ یہاں تک کہ وہ میری طرف سرتاپا استفہام بن کر دیکھنے لگا۔ مگر میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔ ’’اس لیے کہ میں انہیں غریبوں کے ننگے بچے دِکھلا دِکھلا کر یہ پوچھتا ہُوں۔ کہ اس بڑھتی ہُوئی غربت کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟
وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اس لیے وہ مجھے پاگل تصّور کرتے ہیں
آہ اگر مجھے صرف یہ معلوم ہو کہ ظلمت کے اس زمانے میں روشنی کی ایک شعاع کیونکر فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہزاروں غریب بچوں کا تاریک مستقبل کیونکر منّور بنایا جا سکتا ہے۔ وہ مجھے پاگل کہتے ہیں.
وہ جن کی نبضِ حیات دوسروں کے خون کی مرہون منّت ہے، وہ جن کا فردوس غربا کے جہنم کی مستعار اینٹوں سے استوار کیا گیا ہے، جن کے سازِ عشرت کے ہر تار کے ساتھ بیواؤں کی آہیں یتیموں کی عریانی، لاوارث بچوں کی صدائے گریہ لپٹی ہوئی ہے___ کہیں، مگر ایک زمانہ آنے والا ہے جب یہی پروردۂ غربت اپنے دلوں کے مشترکہ لہو میں اُنگلیاں ڈبو ڈبو کر ان لوگوں کی پیشانیوں پر اپنی لعنتیں لکھیں گے___ وہ وقت نزدیک ہے جب ارضی جنّت کے دروازے ہر شخص کے لیے واہوں گے۔ میں پوچھتا ہُوں کہ اگر میں آرام میں ہوں۔ تو کیا وجہ ہے کہ تم تکلیف کی زندگی بسر کرو؟ ___ کیا یہی انسانیّت ہے کہ میں کارخانے کا مالک ہوتے ہُوئے ہر شب ایک نئی رقاصہ کا ناچ دیکھتا ہُوں، ہر روز کلب میں سینکڑوں روپے قمار بازی کی نذر کر دیتا ہوں۔ اور اپنی نکمی سے نکمی خواہش پر بے دریغ روپیہ بہا کر اپنا دل خوش کرتا ہُوں، اور میرے مزدوروں کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ ان کے بچے مٹی کے ایک کھلونے کے لیے ترستے ہیں___ پھر لُطف یہ ہے کہ میں مُہذب ہوں، میری ہر جگہ عزت کی جاتی ہے، اور وہ لوگ جن کہ پسینہ میرے لیے گوہر تیار کرتا ہے۔ مجلسی دائرے میں حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ میں خود ان سے نفرت کرتا ہوں___ تم ہی بتاؤ، کیا یہ دونوں ظالم و مظلوم اپنے فرائض سے نا آشنا نہیں ہیں؟ میں ان دونوں کو ان کے فرائض سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ مگر کس طرح کروں؟___ یہ مجھے معلوم نہیں۔‘‘ سلیم نے اس قدر کہہ کر ہانپتے ہوئے ٹھنڈی چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور میری طرف دیکھے بغیر پھر بولنا شروع کر دیا۔ ’’ میں پاگل نہیں ہُوں___ مجھے ایک وکیل سمجھو۔ بغیر کسی اُمید کے، جو اس چیز کی وکالت کر رہا ہے۔ جو بالکل گم ہُو چکی ہے___ میں ایک دبی ہوئی آواز ہوں___ انسانیّت ایک منہ ہے۔ اور میں ایک چیخ۔ میں اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہ میرے خیالات کے بوجھ تلے دبی ہُوئی ہے۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اسی لیے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کہ مجھے بہت کچھ کہنا ہے۔ میں اپنا پیغام کہاں سے شروع کروں___ یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں اپنی آواز کے بکھرے ہوئے ٹکڑے فراہم کرتا ہوں ذہنی اذّیت کے دُھندلے غبار میں سے چند خیالات تمہید کے طور پر پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ اپنے احساسات کی عمیق گہرائیوں سے چند احساس سطح پر لاتا ہوں۔ کہ دوسرے اذہان پر منتقل کر سکوں مگر میری آواز کے ٹکڑے پھر منتشر ہو جاتے ہیں۔ خیالات پھر تاریکی میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ احساسات پھر غوطہ لگا جاتے ہیں___ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جب میں یہ دیکھتا ہوں۔ کہ میرے خیالات منتشر ہونے کے بعد پھر جمع ہو رہے ہیں۔ تو جہاں کہیں میری قوتِ گویائی کام دیتی ہے میں شہر کے رؤسا سے مخاطب ہو کر یہ کہنے لگ جاتا ہوں۔ مرمریں محلّات کے مکینو! تم اس وسیع کائنات میں صرف سورج کی روشنی دیکھتے ہو۔ مگر یقین جانو۔اس کے سائے بھی ہوتے ہیں___ تم مجھے سلیم کے نام سے جانتے ہو، یہ غلطی ہے ___ میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کے جسم پر طاری ہوتی ہے۔ جب وہ غربت سے تنگ آکر پہلی دفعہ ایوانِ گناہ کی طرف قدم بڑھانے لگے___ آؤ ہم سب کانپیں! تم ہنستے ہو۔ مگر نہیں تمہیں مجھے ضرور سُننا ہو گا___ میں ایک غوطہ خور ہُوں۔ قدرت نے مجھے تاریک سمندر کی گہرائیوں میں دبو دیا…… کہ میں کچھ ڈھونڈھ کر لاؤں___ میں ایک بے بہا موتی لایا ہُوں___وہ سچائی ہے___ اس تلاش میں میں نے غربت دیکھی ہے، گرسنگی برداشت کی ہے۔ لوگوں کی نفرت سے دوچار ہُوا ہُوں۔ جاڑے میں غریبوں کی رگوں میں خون کو منجمد ہوتے دیکھا ہے، نوجوان لڑکیوں کو عشرت کدوں کی زینت بڑھاتے دیکھا ہے اس لیے کہ وہ مجبور تھیں___ اب میں یہی کچھ تمہارے منہ پر قے کر دینا چاہتا ہوں کہ تمہیں تصویر زندگی کا تاریک پہلو نظر آ جائے۔ انسانیت ایک دل ہے۔ ہر شخص کے پہلو میں ایک ہی قسم کا دل موجود ہے۔ اگر تمہارے بوٹ غریب مزدوروں کے ننگے سینوں پر ٹھوکریں لگاتے ہیں۔ اگر تم اپنے شہوانی جذبات کی بھڑکتی ہُوئی آگ کسی ہمسایہ نادار لڑکی کی عصمت دری سے ٹھنڈی کرتے ہو۔ اگر تمہاری غفلت سے ہزار ہا یتیم بچے گہوارۂ جہالت میں پل کر جیلوں کو آباد کرتے ہیں۔ اگر تمہارا دل کاجل کے مانند سیاہ ہے۔ تو یہ تمہارا قصور نہیں۔ ایوان معاشرت ہی کچھ ایسے ڈھب پر استوار کیا گیا ہے۔ کہ اس کی ہر چھت اپنی ہمسایہ چھت کو دابے ہُوئے ہے___ ہر اینٹ دوسری اینٹ کو۔ جانتے ہو، موجودہ نظام کے کیا معنی ہیں؟___ یہ کہ لوگو ں کے سینوں کو جہالت کدہ بنائے۔ انسانی تلذد کی کشتی ہو اور ہوّس کی موجوں میں بہا دے، جوان لڑکیوں کی عصمت چھین کر انہیں ایوان تجارت میں کھلے بندوں حُسن فروشی پر مجبور کر دے غریبوں کا خون چُوس کر اُنہیں جلی ہوئی راکھ کے مانند قبر کی مٹی میں یکساں کردے ___ کیا اسی کو تم تہذیب کا نام دیتے ہو___ بھیانک قصابی!! تاریک شیطنیت!!!ْ آہ اگر تم صرف وہ دیکھ سکو۔ جس کا میں نے مشاہدہ کیا ہے! ___ ایسے بہت سے لوگ ہیں۔ جو قبر نما جھونپڑوں میں زندگی کے سانس پورے کر رہے ہیں۔ تمہاری نظروں کے سامنے ایسے افراد موجود ہیں۔ جو موت کے منہ میں جی رہے ہیں۔ ایسی لڑکیاں ہیں۔ جو بارہ سال کی عمر میں عصمت فروشی شروع کرتی ہیں۔ اور بیس سال کی عمر میں قبر کی سردی سے لپٹ جاتی ہیں___ مگر تم___ ہاں تم، جو اپنے لباس کی تراش کے متعلق گھنٹوں غور کرتے رہتے ہو۔ یہ نہیں دیکھتے۔ بلکہ اُلٹا غریبوں سے چھین کر اُمراء کی دولتوں میں اضافہ کرتے ہو۔ مزدور سے لے کر کاہل کے حوالے کر دیتے ہو۔ ڈگری پہنے انسان کا لباس اُتار کر حریر پوش کے سُپرد کر دیتے ہو۔ تم غربا کے غیر مختتم مصائب پر ہنستے ہو۔ مگر تمہیں یہ معلوم نہیں۔ کہ اگر درخت کا نچلا حصہ لاغر مردہ ہو رہا ہے تو کسی روز وہ بالائی حصے کے بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے گر پڑے گا۔‘‘ یہاں تک بول کر سلیم خاموش ہو گیا اور ٹھنڈی چائے کو آہستہ آہستہ پینے لگا۔ تقریر کے دوران میں میں سحر زدہ آدمی کی طرح چُپ چُپ بیٹھا اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ جو بارش کی طرح برس رہے تھے۔ بغور سنتا رہا۔ میں سخت حیران تھا۔ کہ وہ سلیم جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بالکل خاموش ہوا کرتا تھا ۔ اتنی طویل تقریر کیونکر جاری رکھ سکا ہے۔ اس کے علاوہ خیالات کس قدر حق پر مبنی تھے۔ اور آواز میں کتنا اثر تھا___ میں ابھی اس کی تقریر کے متعلق کچھ سوچ ہی رہا تھا۔ کہ وہ پھر بولا۔ ’’ خاندان کے خاندان شہر کے یہ نہنگ نگل جاتے ہیں۔ عوام کے اخلاق قوانین سے مسخ کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے زخم جُرمانوں سے کریدے جاتے ہیں۔ ٹیکسوں کے ذریعے دامنِ غربت کترا جاتا ہے۔ تباہ شدہ ذہنیت جہالت کی تاریکی سیاہ بنا دیتی ہے۔ ہر طرف حالت نزع کے سانس کی لرزاں آوازیں، عریانی، گناہ اور فریب ہے۔ مگر دعویٰ یہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں___ کیا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی جا رہی ہے۔ ہمارے کانوں میں پگھلا ہُوا سیسہ اُتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم مصائب کے کوڑے سے بے حس بنائے جا رہے ہیں۔ تاکہ ہم نہ دیکھ سکیں۔ نہ سُن سکیں اور نہ محسوس کر سکیں!___ انسان جسے بلندیوں پر پرواز کرنا تھا۔ کیا اس کے بال و پر نوچ کر اسے زمین پر رینگنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا؟ ___ کیا امرا کی نظر فریب عمارتیں مزدوروں کے گوشت پوست سے تیار نہیں کی جاتیں؟ ___ کیا عوام کے مکتوبِ حیات پر جرائم کی مہر ثبت نہیں کی جاتی؟ کیا مجلسی بدن کی رگوں میں بدی کا خون موجزن نہیں ہے۔ کیا جمہور کی زندگی کشمکشِ پیہم، انتھک محنت اور قوتِ برداشت کا مرکب نہیں ہے؟___ بتاؤ بتاؤ، بتاتے کیوں نہیں‘‘؟ ’’درست ہے‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ’’ تو پھر اس کا علاج کرنا تمہارا فرض ہے___ کیا تم کوئی طریقہ نہیں بتا سکتے۔ کہ اس انسانی تذلیل کو کیونکر روکا جا سکتا ہے___ مگر آہ! تمہیں معلوم نہیں، مجھے خود معلوم نہیں‘‘!! تھوڑی دیر کے بعد وہ میرا ہاتھ پکڑ کر راز دارانہ لہجے میں یوں کہنے لگا۔ ’’ عباس! عوام سخت تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔ بعض اوقات جب کبھی میں کسی سوختہ حال انسان کے سینے سے آہ بلند ہوتے دیکھتا ہوں۔ تو مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں شہر نہ جل جائے! ____ اچھا اب میں جاتا ہوں، تم لاہور واپس کب جا رہے ہو؟‘‘ ’’یہ کہہ کر وہ اُٹھا۔ اور ٹوپی سنبھال کر باہر چلنے لگا۔ ’’ ٹھہرو! میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں___ کہاں جاؤ گے اب؟‘‘ اسے یک لخت کہیں جانے کے لیے تیار دیکھ کر میں نے اسے فوراً ہی کہا۔ ’’مگر میں اکیلا جانا چاہتا ہوں___ کسی باغ میں جاؤں گا‘‘۔ میں خاموش ہو گیا۔ اور وہ ہوٹل سے نکل کر بازار کے ہجوم میں گم ہو گیا اس گفتگو کے چوتھے روز مجھے لاہور میں اطلاع ملی کہ سلیم نے میرے جانے کے بعد بازاروں میں دیوانہ وار شور برپا کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس لئے اسے پاگل خانے میں داخل کر لیا گیا ہے۔ 
پاکستان میں تھوپی جانیوالی آمریتوں میں 5جولائی کی آمریت سب سے بدترین ہے کہ اس آمریت میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو کوڑے تک مارے گئے۔5جولائی کی آمریت واحد آمریت ہے جس کی علمی و ادبی اور سیاسی و صحافتی سطح پر بھر پور مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ ضیاء دور میں ایم آر ڈی ( بحالی جمہوریت کی تحریک) بھی چلی جس میں سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنوں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ایک اندازے کے مطابق بحالی جمہوریت کی تاریخ میں20ہزار سے زائد سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں بند کیا گیا۔5جولائی کی آمریت اس حوالے سے بھی بدترین رہی کہ اس آمرانہ دور میں پھیلائی گئی نفرت وتعصب اور فرقہ واریت و شدت پسندی کی آگ نے آنے والے سالوں میں نہ صرف پاکستان اور عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ اب اس آگ کے شعلے امریکہ و برطانیہ سمیت دنیا کے طول و عرض میں بلند ہو رہے ہیں۔
تلخ حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں نصف کی قریب عرصہ فوجی آمریتیں رہی ہیں اور بقیہ ماندہ سالوں میں بھی منتخب حکومتیں خارجہ تعلقات و دفاع سمیت متعدد معاملات میں آزاد و خودمختار نہیں رہیں۔ پاکستان میں سویلین حکمرانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے باہمی تعلقات کی نوعیت ہمیشہ سے حساس اور پیچیدہ رہی ہے۔ ہماری ہاں بھٹو صاحب کا پہلا دور حکومت ( 1971۔1977) سول بالادستی کا دور کہا جا سکتا ہے لیکن اس دور میں بھٹو صاحب بذات خود سول ڈکٹیٹر کے طور پر سامنے آئے۔ باقی ماندہ عرصے میں کبھی فوج براہ راست اقتدار کے مسند پر فائز رہی تو کبھی بلواسطہ طریقے سے اقتدار فوجی صدور کی ذات کے گرد طواف کرتا رہا۔ کبھی پارلیمانی حکومت کے تحت غیر پارلیمانی طاقتوں ( سول بیوروکریسی) کی حکمرانی رہی تو کبھی سول حکومت میں فوج کے غیر رسمی مگر موثر کردار کی باز گشت واضح سنائی دیتی رہی ہے۔
 پاکستان میں جمہوری عمل کے کمزور ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہاں ابھی تک صرف دو منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کر نے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ یہ ایک المیے سے کم نہیں کہ ہمارے ہاں ایک آمر کے رخصت ہونے کے بعد دوسرے آمر کی بادشاہت کیلئے باقاعدہ طور پر سیاسی ماحول سازگار بنایا جاتا رہا ہے۔ پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد مقتدرہ نے براہ راست اقتدار پر قابض ہونے کی بجائے جمہوری حکومتوں کو مختلف طریقوں سے کنٹرولڈ کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔2013ء میں بننے والی نواز شریف حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ چلانے کی جرات کی تو ان کے خلاف ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کو ’’سپانسرڈ‘‘ کیا گیا جبکہ ڈان لیک کی پاداش میں اس وقت کے وزیراعظم کو عدالت سے نااہل کرا کے سیاست سے آئوٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو جب جب موقع ملا ہے انہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے سمیت کرپشن اور لاقانونیت کی بدترین مثالیں قائم کی ہیں لیکن اس کو جوا ز بناکر چند ایک مرئی و غیر مرئی عناصر کی جانب سے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کی کوششیں کرنا کسی بھی طرح جسٹفائیڈ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے پارٹی کے اندرونی ڈھانچے کو جمہوری بنانے اور معاشرے میں جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کیلئے کوئی قابل ذکر کوششیں نہیں کیں لیکن ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ جمہوریت ایک ارتقائی عمل ہے ۔
جن ملکوں کی مثالی جمہوریت کی ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے وہاں جمہوری عمل کے تسلسل کی تاریخ دہائیوں کی بجائے کئی کئی صدیوں پر محیط ہے جبکہ ہماری 75سالہ سیاسی تاریخ میں ابھی تک صرف دو جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو فوجی حکومتیں ملکی عدم استحکام اور دیگر معاملات کو ابتر کرنے کے حوالے سے سیاسی حکومتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوئی ہیں۔ فوجی آمر ایوب خان کی امتیازی پالیسیاں مشرقی اور مغربی پاکستان میں معاشی اور سیاسی خلیج گہری کرنے کا باعث بنیں تو ڈکٹیٹر یحییٰ خان کے دور میں اس بدترین سیاسی بحران نے جنم لیا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوا۔ ضیائی آمریت میں ایک استعماری طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے لڑی جانے والی پراکسی وار نے ملک میں فرقہ واریت و انتہا پسندی کے بیج بوئے تو مشرف کی آمریت میں ایک اور پراکسی وار لڑ کر پاکستان دہشت گردی کی دلدل میں دھنس گیا۔
اگرچہ 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی سیاسی حکومت کو ابتدائی تین سالوں میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی قسم کی قابل ذکر مخالفت کی بجائے بھر پور سپورٹ مہیا رہی تاہم اس دور میں سیاسی مخالفین کو ڈرانے، دھمکانے اور دبانے کے لئے فوجی آمریتوں جیسے منفی ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ اس دور میں حکومت یا حکومتی پالیسیوں کے خلاف کھل کر بولنے والوں کے خلاف گھیرا ایسے تنگ کیا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’ حکومت مارتی بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتی‘‘۔ اگرچہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف آنے والی عدم اعتماد کی تحریک میں بھی غیر جمہوری قوتوں کی پشت پناہی شامل تھی لیکن یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں سے بات چیت کے تمام راستے بند کرنے سمیت ایسا آمرانہ طرز عمل اختیار کیا کہ جمہوریت کی مالا جپنے والی جماعتوں نے پہلے عدم اعتماد کامیاب کرانے میں غیر جمہوری قوتوں کا سہارا لیا اور بعد ازاں 9مئی کے واقعہ کے نتیجے میں بننے والے حالات میں مقتدرہ کو کاندھا دینے میں پیش پیش رہیں۔
موجودہ حالات کی صحیح ترجمانی کرنے کے لیے قارئین کو عوامی و انقلابی شاعر جالب مرحوم کی لازوال نظم ’’ جمہوریت ‘‘ پڑھنے کا مشورہ دوں گا کہ آج بھی یہاں ڈر اور خوف سے پورا سچ بولنے پر پابندی ہے، آج بھی یہاں سوچ پر تعزیریں ہیں، آج بھی چند لوگوں کی بات ہی حرف آخر ہے اور آج بھی برائے نام جمہوریت ہے۔ حرف آخر یہی کہ تمام تر نعروں اور وعدوں کے باوجود یہاں نہ تو ووٹ کو عزت مل سکی ہے اور نہ ہی جمہور کی مرضی و منشا کی کسی کو پرواہ ہے۔