پاک و ہند کے کیمونسٹ رہنما، تحریک آزادی کے ہیرو،  شاعرو ادیب مولانا حسرت موہانی کو خراج تحسین پیش کرنے والی خوبصورت تحریر۔

 فضل الحسن حسرتؔ موہانی سے میرا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ان کی ایک غزل شامل نصاب تھی۔ نہ جانے کیا بات ہوئی کہ غزل کا مطلع دل میں گھر کر گیا۔
اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
گھبرا گئے ہیں بے دلیٔ ہم رہاں سے ہم
 ذوق والے طلبہ اکثر اس مطلع کو دوہراتے اور جنابِ حسرتؔ کو یاد کرتے۔ حسرتؔ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں جو لگن ہے وہ دوسروں میں نہیں ہے۔ اس لئے میں اپنے ہم سفروں کی پست ہمتّی سے پریشان ہوں۔ بغور دیکھیں تو یہ شعر حسرتؔ موہانی کی حیاتِ مستعار کی پے بہ پے احساسِ محرومی کا اشاریہ ہے۔ افسوس وہ اپنا سا شوق اپنے اہلِ وطن میں دس فیصد بھی پیدا نہ کر سکے۔ ہاں ان کی شریکِ حیات کی بات اور ہے۔ نام ان کا نشاط النساء بیگم تھا۔ یہ دیہاتی ماحول میں پلی ہوئی لڑکی نہایت جری، باحوصلہ اور ہر طرح سے حسرتؔ کی رفاقت کیلئے موزوں ثابت ہوئیں۔ حسرتؔ کوقریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا اتفاق مدرسی کے دوران ہوا۔ اس وقت میں نصاب میں شامل غلام احمد فرقتؔ کاکوروی کا مضمون ’حسرتؔ موہانی کے لطائف‘ پڑھا رہا تھا۔ اس دل پذیر مضمون کا ایک ایک لفظ حسرتؔ کی کہانی سناتا ہے۔ اس میں ان کی سادگی، ان کی بے نیازی، ان کی بادشاہی ان کی درویشی، ان کی کج کلاہی اوران کی خود آگہی کا عکس غلام احمد فرقتؔ کے جملوں میں سمٹ آیا ہے۔ تحریر کرتے ہیں :’’مولانا حسرتؔ ۱۲ویں مرتبہ فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد کراچی سے خشکی کے راستے لاہور پہنچے۔ ان کی وضع قطع یہ تھی، مٹیالی سفید بے داغ ڈاڑھی، چہرے پر ہٹی ہوئی جھریاں، بڑی بڑی آنکھوں پر ایک لمبے شیشوں والی عینک، جس کا فریم پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ کوئی اللہ کا بندہ ہمارا بھی قصور معاف کرادے کیونکہ کھال اُترنے کے بعد فریم کی ریڑھ کی ہڈّی نے اندر سے جھانکنا شروع کردیا تھا۔ ہاتھ میں حضرت نوحؑ کے جہیز کی چھتری جس کا کپڑا اپنا سیاہ رنگ چھوڑنے کے بعد عام دنیوی رنگوں سے مختلف رنگ اختیار کرنے پر کمر بستہ تھا۔ بغل میں ایک بستہ جسے ستلی سے باندھ کر پھانسی دیدی گئی تھی۔ ایک عبادت گزار لوٹا جس کے ماتھے پر بار بار خانۂ کعبہ کی زیارت کرنے کے سبب سیاہ گھٹے پڑ گئے تھے۔ ہاتھ میں ایک چھڑی جو کسی زمانے میں خواہ کتنی چھڑی رہی ہو مگر اس وقت ترازو کی ڈنڈی معلوم ہونے لگی تھی…یہ تھے رئیس التحریر حسرتؔ موہانی مرحوم جن کا جواب شاید اب دُنیا نہ پیدا کر سکے۔ ‘‘ (صید و ہدف۔ غ ا ف)
 مولانا حسرتؔ موہانی کا شجرۂ نسب امام رضا سے ملتا ہے۔ ان کے جِد اعلیٰ شیخ سید وجیہ الدین محمود تھے۔ یہ خاندان سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں نیشا پور سے ہجرت کر کے ہندوستان آیا۔ اپنے وطن کے نام پر ہی اس جگہ کا نام ’موہان ‘ رکھا۔ وہ تمام عمراپنے صوفی ہونے کا اعلان بیباکی سے کرتے رہے مشائخ کا جو کردار رہا ہے۔ اپنے قول و فعل سے حسرتؔ موہانی تمام عمر اس کا اظہار کرتے رہے۔ حسرتؔ نامہ لکھنے والوں نےاس کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین فرماتے ہیں کہ حسرتؔ بڑی مستحکم طبیعت کے آدمی تھے۔ جس بات کو صحیح جانتے تھے اس کی پیروی میں اور دوسروں تک اسے پہنچانے میں نہ کسی شخص سے ڈرتے تھے نہ کسی اور سے، شاید خود سے بھی نہیں۔ مولانا حسرتؔ جو آزادی کی لڑائی کا حصّہ بنے وہ ان کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی۔ ان کے اجداداسی طریقت پر گامزن رہے اور وہ جذبہ ان کے یہاں بھی تھا۔ ‘‘ان کے درویش ہونے کی یہ مثال بھی ملاحظہ کریں کہ حکومت نے بہت چاہا کہ انہیں ملک کی حمایت سے الگ کرے۔ اس لالچ میں ان کو ججی کے عہدے کی طرف رغبت دلائی مگر وہ غلامی اور ملازمت پر کسی طور ملتفت نہ ہوئے۔ ‘‘ پرہیزگاروں کی طرح مولانا کو فقیری اور جذبۂ درویشی ورثے میں ملا تھا۔
 میں جناب اسلم کے اس قول سے بھی اتفاق رکھتا ہوں کہ’مولانا حسرتؔ کی نقاب در نقاب شخصیت کی نقاب کشائی آسان نہیں ہے۔ وہ کیا تھے اور کیا نہیں تھے، نہیں کہا جاسکتا۔ ان کی سیاست کا آغاز ۱۹۰۳؁ ء میں علی گڑھ میں بی اے کی طالب علمی کے زمانے میں ہوا اور خیر عمر تک قائم رہا۔ نعرۂ حرّیت بلند کرنے کی پاداش میں تین بار کالج سے نکالے گئے۔ وہ تحریکِ آزادی کے سبھی مرحلوں میں ایک سپاہی کی طرح سرگرمِ عمل رہے اور اپنی تحریر و تقریر سے آزادی کی شمع کو فروزاں رکھّا۔ انہوں نے ایک سودیشی اسٹور کی بنیاد ڈالی اور اس تحریک کو مقبول بنانے کے لئے شمالی ہند کا دورہ بھی کیا۔ سب سے پہلے مکمل آزادی کا نعرہ دیا۔ مولانا حسرتؔ کو گاندھی جی کے اصولوں سے زیادہ ’مارکس‘ کے اصول پر یقین تھا۔ مسلم لیگ میں شامل ہوئے مگر زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکے۔ اسکے بعد ان کا رجحان کمیونسٹ پارٹی کی طرف ہوا۔ مختصر یہ کہ وہ کہین بھی احتجاج اور بغاوت کی روش کو خیر باد نہیں کہہ سکے۔ وہ کہتے تھے کہ درویشی میرا طریق ہے، انقلاب میرا مسلک۔ میں صوفی مومن ہوں اور اشتراکی مسلم۔
 حسرتؔہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے نمائندہ غزل گو تھے۔ جو بلاشبہ میرؔ، غالبؔـ، دردؔ، مومن، امیرؔ، جلال وغیرہ کے بعد غزل کی ایک ناقابلِ فراموش آواز ہیں۔ حسرتؔ علی گڑھ یونیورسٹی کے پروردہ تھے۔ علی گڑھ کے ایک اور فرزند رشید احمدصدیقی انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’حسرتؔ نے غزل کی آبرو اس زمانے میں رکھ لی جب غزل بہت بدنام اور ہر طرف نرغے میں تھی۔ ‘‘حسرتؔ کی تمام غزلوں کی تعداد۷۷۱؍ہوتی ہے جس میں ۳۸۳؍غزلیں قیدِ فرنگ کے دوران کہی گئی ہیں۔ عشق کے ساتھ ساتھ قید و بند کا یہ تجربہ بھی حسرتؔ کے فیضان کا سر چشمہ ہے اور اس تجربہ کی زیریں رَو حسرتؔکی شاعری کے نرم و نازک گداز میں جھلکتی ہے۔