پاکستان میں حقوق نسواں کے سلسلے میں کیا جانے والا کوئی بھی زبانی یا تحریری کام علامہ اقبال کے جس مشہور زمانہ شعرکے بغیر ادھورا تصور کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے.
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز رواں
علامہ اقبال کا مذکورہ شعر عرصہ دراز سے یہاں جسقدر دہرایا جارہا ہے، نہ تو اسے اسقدر سمجھا اور نہ ہی اس پر غور کیاگیاہے۔ جب یہ شعر تخلیق ہوا اس دور کی اشرافیہ اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی عورت گو کہ چلمنوں کی اوٹ تک محدود تھی مگر اس زمانے کے زرعی سماج میں گھر کے اندر اور باہر کوئی بھی پیداواری عمل عورت کے کردار کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔غرض، اس دور کی سماجی تصویر کا جو بھی خاکہ تھا اس پر اگر آج غور کیا جائے تو یہ تصور ابھرتا ہے کہ وجود زن کا رنگ ہر دور اور ہر شعبہ زندگی میں کا فی نمایاں رہا۔ اپنی زیبائش کے لیے رنگوں کی آمیزش کی سائنس پر گہری نظر رکھنے والی عورت کے اپنے وجود کا رنگ موثر ہونے کی شہادتیں ماضی کی زرعی معیشت سے آج کے صنعتی اشیا سے لبالب منڈی کی معیشت کے دور تک ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں۔
بلا شک و شبہ، آج کے صنعتی دور میں منڈی کی معیشت کا تمام تر انحصار اس کے صارفین پر ہے۔ اگر کوئی بازاروں کی چہل پہل اور رونق سے واقف ہے تو اس کے لیے یہ حقیقت قطعاً حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ آج کی عورت عالمی سطح پر فروخت ہونے والی65 سے75 فیصد تک اشیاء کی خریدار ہے۔ عالمی معیشت میں عورت کا کردار صرف خریدار کا ہی نہیں بلکہ مختلف پیداواری افعال میں شراکت کار کا بھی ہے۔ عورت کے اسی کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے ورلڈ بنک کے ماہرین یہ پیش گوئی کر چکے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں عالمی سطح پر عورتوں کی آمدن کا حصہ 5 ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔ تمام تر دنیا میں اس وقت عورتوں کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے اور خود اپنے لیے راہیں منتخب کرنے کا جو اختیار حاصل ہوچکا ہے وہ ماضی کے کسی دور میں بھی ان کے پاس نہیں تھا۔ اب زندگی کے ہر اس شعبے میں عورتوں کا عمل دخل دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں ماضی میں ان کی موجودگی اور کردار کو سختی سے ناقابل قبول تصور کیا جاتا تھا۔ حقوق نسواں کے لیے یہ امرکافی حوصلہ افزا ہے کہ کاروباری دنیا کے اختراع پسند لوگ تبدیل شدہ حالات میں روایتی صنفی تعصب بالائے طاق رکھ کر اپنے لیے نئے امکانات پیداکر رہے ہیں۔ کاروبار ی دنیا میں اب اسی کے آگے بڑھنے کے زیادہ مکانات پیدا ہو رہے ہیں جو عورتوں کے کردار کے حوالے سے رونما ہونے والی تبدیلی کو کھلے دل سے تسلیم کررہا ہے۔ جن لوگوں کو اس تبدیلی کا ادراک ہے وہ سمجھ چکے ہیں کہ یہ عورتیں ہی ہیں جو زیادہ تر گھریلو استعمال کی اشیاء کے انتخاب اور خریداری کا فیصلہ کرتی ہیں۔ صرف کھانے پینے اور گھریلو استعمال جیسی اشیاہی نہی بلکہ ہر سماج میں بنکوں کے کھاتوں، ڈاکٹروں سے علاج اور بچوں کے تعلیمی اداروں تک کے انتخاب کے فیصلے یا تو عورتوں کی مرضی یا ان کے بامعنی مشوروں سے کیے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت عالمی سطح پر عورتوں کو 20 ٹریلین ڈالر مالیت سے زیادہ اشیاء کی خریداری کا اختیار حاصل ہے۔امریکہ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 91 فیصد گھریلو اشیا، 65 فیصد کاروں اور 66 کمپیوٹروں کی خریداری عورتوں کی مرضی یا مشوروں سے کی جاتی ہے۔
مارکیٹ اور خریداری سے متعلق عورتوں کا مذکورہ کردار تو ان کی اپنی اور خاندان کے تمام افراد کی مشترکہ ضرورتوں کے لیے ہوتا ہے مگر اس کے علاوہ پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر ایسا صنعتی عمل بھی جاری و ساری ہے جس کا تمام تر انحصار عورتوں کی ذاتی ضرورتوں پر ہے۔ عورتوں کے ذاتی استعمال کی اشیا بنانے والی صنعتوں کا اگر یہاں نام لکھنے بیٹھیں توپھر کچھ اور بیان کرنے کے لیے جگہ باقی نہیں رہے گی۔ عورتوں کے استعمال میں آنے والی تمام تر اشیا اس وقت ہر درجہ کی صنعتوں میں بنائی جارہی ہیں۔ تقریباً ہر ملک میں ان اشیاء کی تیاری کے ساتھ لاکھوں نہیں تو ہزاروں مردوں کا روزگارضرور وابستہ ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کئی ایسے مرد، عورتوں کے حقوق اور آزادی نسواں کے لیے منفی رائے رکھتے ہیں جن کا روزگا ر خاص طور پر عورتوں کے بناؤ سنگھار اور ذاتی ضرورت کی دیگر اشیا بنانے والی صنعتوں سے جڑا ہوا ہے۔
عورتوں سے متعلق تنگ نظر سوچ کے تدارک کی غرض سے چند عشرے قبل جب اقوام متحدہ نے اپنے حقوق نسوان کے چارٹر پر عمل درآمد کے لیے رکن ممالک کو مثبت پیش رفت کاکہا تو یہ امید پیدا ہوئی کہ جلد ہی پوری دنیا میں خواتین کو وہ جائز مقام حاصل ہو جائے گا جس کی بحیثیت انسان وہ مکمل حقدار ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں تو بڑی حد تک یو این چارٹر کے مطابق عورتوں کے حقوق تسلیم کیے جا چکے ہیں مگر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں اب بھی عورتوں کی بہت بڑی تعداد مردانہ برتری کے زیر تسلط زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔پاکستان جیسے ملکوں میں اب بھی بڑی تعداد میں ایسے مرد موجود ہیں جوعورتوں کو کم تر حیثیت کا انسان تصور کرتے ہوئے ان کے استحصال، جنسی و جسمانی تشدداور ہر قسم کی تذلیل کو جائز سمجھتے ہیں۔ اسی طرح یہاں نام نہاد غیرت کے نام پر معصوم بچیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔پاکستان اور بھارت جیسے جنوبی ایشیا کے پسماندہ معاشروں میں جہیز کی لعنت کے رواج کی وجہ سے آج بھی نوجوان لڑکیوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ بوسیدہ رسم و رواج پر عمل کرتے ہوئے اتنی چھوٹی عمرکی لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہی جو نہ گھر گرہستی اور نہ ہی بچہ سنبھالنے کے قابل ہوتی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کو جائز سمجھنے والے اکثر مرد اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور خود کو سزا سے بچانے کے لیے اپنی بیٹیاں اور بہنیں تاوان کے طور پر اپنے مخالفین کو دے دیتے ہیں جہاں وہ کسی ادھیڑ عمرشخص کے عقد میں آنے کے بعد تمام زندگی غلامی میں گزارنے پر مجبور کر دی جاتی ہیں۔ گو کہ مذکورہ تمام افعال جرائم کی فہرست میں شامل ہیں مگر قانون کے نفاذ کا نظام کمزور ہونے کی وجہ سے ان جرائم کے مرتکب اکثر افرادگرفت اور سزا سے محفوظ رہتے ہیں۔
دنیا میں ایک طرف اگر عورت پر ظلم اور جبر کی مثالیں موجود ہیں تو دوسری طرف اسی دنیا کے کچھ حصوں کی عورت اس حد تک مؤثر ہو چکی ہے کہ کاروباری دنیا سے وابستہ لوگوں نے اس کے رجحانات کو مد نظر رکھ کر اپنی پالیسیاں مرتب کرنا شروع کر دی ہیں۔ گو کہ پاکستان جیسے کچھ ملکوں میں اب بھی عورت کو کھونٹے سے باندھ کر رکھنے جیسی خواہشیں پالنے والے مرد مل جاتے ہیں مگر یاد رہے کہ یہ منڈی کی معیشت کا دور ہے جس میں عورتوں کے آئندہ کردار کے تعین کا حق کسی اور کے نہیں بلکہ خود عورت کے اپنے ہاتھ میں آچکاہے۔ کائنات میں رنگ بھرنے والی عورت کومنڈی کی معیشت کے موجودہ دور میں مطلق لونڈی بنائے رکھنا اب کہیں بھی ممکن نہیں رہا۔