اسلامیہ یونیورسٹی ایک ادارہ ہے اور ایک حکومتی ادارہ ایک سلطنت کی مانند ہوتا ہے ۔  کروڑوں اربوں کا بجٹ سینکڑوں ایکڑ اراضی سینکڑوں عمارتیں گاڑیاں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہزاروں  افسراناور  تدریسی عملہ اسے ایک سلطنت بناتا ہے ۔ جو  ایک اکیسویں گریڈ کے افسر کے ماتحت ہوتا ہے ۔ جہاں کے ہزارہا ملازمین  اس  افسر کی خوشنودی کے لیئے بھاگ دوڑ کررہے ہوتے ہیں ۔ یونیورسٹی میں تو اس افسر کی طاقت مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہزاروں طالب علم بھی اس کی جنبش ابرو کے محتاج ہوتے ہیں ۔  اصولی طور پر تو یہ اختیارات قانون کے تابع ہوتے ہیں لیکن جب ریاست اپنے ہی اداروں پر اختیار گنوا بیٹھے  اور ملک میں لاقانونیت کا راج ہو کسی ایماندار سے ایماندار فرد کا بھی اتنے اختیارات کے ساتھ  راہ راست پر رہنا ناممکن ہے ۔ 
جبکہ ہمارے ہاں تو یونیورسٹیوں کو مجرمانہ ذہنیت کے اساتذہ سے بھرنے کے لیئے ریاستی سطح پر چالیس سال سے محنت کی جارہی ہے ۔ 
اس پس منظر میں اسلامیہ یونیورسٹی کا معاملہ  اتنا بڑا واقعہ نہیں ہے ۔ یہ چالیس سال کی محنت کا معمولی سا ثمر ہے ۔ سٹوڈنٹس یونین پر پابندی ‘ صوابدیدی اختیارات میں اضافہ ‘ امتحانی نظام کو اساتذہ کی صوابدید پر منحصر کرنا  یہ سب کچھ کسی وائس چانسلر کے  نہیں ریاست  کے فیصلے ہیں ۔ ان فیصلوں کا بینفشری بھی اکیلا وی سی نہیں ہوتا  بیورو کریسی ‘تاجر’ جاگیردار ‘صحافی’  سیاستدان سب کو حصہ بقدر جثہ ملتا ہے ۔ یونیورسٹی کروڑوں اربوں روپے کا سالانہ کاروبار کرتی ہے ۔ فیسیں وصول کرنا ‘ فرنیچر ‘ گاڑیاں خریدنا  نئ عمارتیں بنوانا اسٹیشنری خریدنا عارضی اور مستقل  ملازمین کو بھرتی کرنا  یہ سب کاروبار ہے ۔  اور کاروبار میں شہر کی انتظامیہ ‘ تاجر ‘ صحافی اور سیاستدان شامل نہ ہوں یہ ممکن نہیں ۔  اور ہر کام میں ہی بدعنوانی لازمی ہوتی ہے ۔
اسلامیہ میں منشیات اور بلیک میلنگ کا اسکینڈل ان سب معاملات کو عوام پر عریاں کرسکتا ہے ۔ چنانچہ اسے متنازعہ بنانے کے لیئے تمام فریق میدان میں آچکے ہیں ۔ وائس چانسلر نے اپنی پریس کانفرنس میں اپنے چیف سیکورٹی افسر  کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے  ڈی پی او پر یونیورسٹی کے خلاف سازش کا الزام لگایا۔  کسی افسر کا کسی دوسرے افسر کے خلاف سازش کرنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر ایک ادارے کا دوسرے ادارے کے خلاف سازش کا کیا مقصد ہوسکتا ہے ؟  یہ سوال وہاں موجود کسی صحافی نے وی سی سے نہیں پوچھا ۔ الٹا ایک صحافی نے طارق بشیر چیمہ کا نام لے کر  معاملے کا رخ اس طرف موڑنے کی کوشش کی ۔ اسی پر مشہور صحافی اقرار الحسن جو سرعام کے نام سے پروگرام  کرتے ہیں انہوں نے ایک وئ لاگ کرتے ہوئے سارا مدعا ہی طارق بشیر چیمے کے بیٹے پر ڈال دیا ۔  اب اگر اس وی لاگ میں لگائے گئے ہر الزام کو درست بھی تسلیم کرلیا جائے چیمے کے بیٹے پر منشیات کا استمعال اور لڑکیوں سے تعلقات ہی ثابت ہوتے ہیں  لیکن اصل مدعا غائب ہوجاتا ہے یعنی منشیات کی فراہمی اور لڑکیوں کو بلیک میل کرنا ۔ اب اس سوال کا جواب کوئ نہیں دے رہا ۔ یہ دونوں کام تو یونیورسٹی انتظامیہ  کے تعاون کے بغیر کوئ نہیں کرسکتا ۔ 
طارق چیمے کے بیٹے کا نام اچھالنے کا مقصد اس واقع کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرنا ہے ۔ ہو سکتا ہے وہ ملوث ہوبھی لیکن مرکزی ملزم وہ کسی طور نہیں بنتا ۔مرکزی ملزم انٹظامیہ ہی ہے  جس کا احتساب صرف تبادلے سے نہیں ہوسکتا ۔ 
اگر حکومت اور معاشرہ اس سنگین مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتا ہے تو درج ذیل اقدام کرنا ہوں گے اس کے بغیر صرف زبانی جمع خرچ سمجھا جائے گا ۔ 
سب سے پہلے  یونیورسٹی انتظامیہ کے ان تمام افراد کو معطل کیا جائے  جن پر  کسی نے کسی سطح پر اس معاملے میں ملوث ہونے کا الزام ہے ۔ 
دوسرے نمبر پر تمام اہم عہدوں پر موجود انتظامیہ کا فی الفور تبادلہ کیا جائے  خصوصا کلیریکل سٹاف کا جو سالہا سال سے ہر  انتظامیہ کی بدعنوانیوں کے معاون بنے ہوئے ہیں ۔ 
اس کے بعد جوڈیشل انکوائری کی جائے اور حقیقی ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔ 
اس سب کے بعد  وسیع  پیمانے پر اس سوال کا کھوج لگایا جائے کہ  تعلیمی نظام  میں وہ کونسی خامیاں ہیں  جو تعلیم یافتہ افراد کو قانون کا احترام اور اپنے عہدوں کی پاسداری کی بجائے لاقانونیت کے راستے پر چلاتی ہیں ۔ 
ان سب سے بڑھ کر طلبا یونین کی بحالی  فوری کی جائے پچاس فی صد معاملات تو صرف اس ایک قدم سے درست ہوسکتے ہیں