پی ٹی آئی والے کی تان اکثر یہیں پر ٹوٹتی ہے کہ پھر چوائس کیا ہے۔ سیاست میں چوائس کا سوال ووٹ ڈالنے کی حد تک ہی ہوتا ہے۔ اس سے آگے سوال چوائس کا نہیں بلکہ پالیسی اور پالیسی کے لیے دوسری منتخب جماعتوں کے ساتھ تعاون کا ہوتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کی اہل بھی ہو جائے پھر بھی قانون سازی کے لیے درکار دو تہائی ممبران قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دوسری منتخب سیاسی جماعتوں سے تعاون کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی بھی سیاسی جماعت کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہ ہو تو حکومت بنانے کے لیے بھی دیگر منتخب جماعتوں سے تعاون کرنا پڑتا ہے۔ مگر پی ٹی آئی جیسی نئی سیاسی جماعت کے جونیئر سیاسی کارکن شاید تعاون کی اس اہمیت کو بھول جاتے ہیں اور بار بار چوائس کیا ہے کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے۔ سولو فلائٹ کی گھن چکر میں پھنسی جماعت آیندہ الیکشن میں شاید مکمل کریش تک پہنچ جائے۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے لوگوں کو کچھ عقل کے ناخن لینے چاہییں اور خان کی بیوقوفیوں کو دوہرانے کی بجائے دیگر سیاسی جماعتوں سے تعاون کی فضا قائم کرنی چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ شخصیت پرستی کی ذہنیت کا مریض سیاسی کارکن کی تعریف پر کس حد تک پورا اتر سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کا سیاسی ورکر کسی طلبا یونین کی سیاسی نرسری کا تربیت یافتہ نہیں بلکہ کالج کیفے میں برگر کھاتے کھاتے براہِ راست خان کے جلسے میں پہنچایا گیا معصوم نوجوان ہے جسے یہ بھی نہیں معلوم کہ لیڈر جب غلطی بلکہ غلطی پر غلطی کر رہا ہو تو اسے کیسے درست کرنا ہے۔ یہ نوجوان تو بس فیسبک پر خان کی تصویر لگا کر کہتے ہیں کہ دیکھتے ہیں کون کون حاضری لگواتا ہے۔ اور اس کے بعد فیسبک اور سوشل میڈیا ٹرینڈ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کا کسی گلی محلے یا شہر کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پھر کہتے ہیں پابندی کیوں لگائی ہے جبکہ خود خان کے دور میں دیگر جماعتوں کے قریباً سبھی لیڈر جیل میں تھے۔ مگر متوالوں کو اتنی سمجھ بوجھ ہوتی تو پی ٹی آئی کا یہ حال نہ ہوتا۔ خان اور اس کی مقلد ایک جتنے بھولے واقع ہوئے ہیں۔