تین بھارتی  ریاستوں کی ہائیکورٹس کے سابق چیف جسٹس، جسٹس مارکانڈے کاٹجوکا کشمیر ایشو پر سجاد پیرزادہ سے خصوصی انٹرویو


انڈیا میں تو انہیں مانا جاتا اور ان کے آدرشوں پر سر دھنا جاتا ہے ہی’ پاکستان میں بھی ان کیساتھ چاہت کا اظہار کرنے والے کم نہیں ہیں۔ نہ صرف ان پر اپنی جان و دل چھڑکنے والے’ بلکہ ان کے تصورات کی لے پہ عشقِ امن پسندی میں دھمالیں ڈالنے والے بھی۔ یہ صاحب جسٹس مارکینڈے کاٹجو’ ہندوستان اور اس کے شمال مغربی علاقوں میں بسنے والے ہم پاکستانیوں میں جن کا نام’ کسی جان پہچان کا طلبگار نہیں ہے’ مذہبی انتہاپسندوں کے فکری سکوت کے عالم میں گھرے برصغیر پاک و ہند کے ماحول میں’ اصول پسندی، انسانیت نوازی، حق پرستی، انسان دوستی لبرل ازم یا پھر سیکولر ازم کے دیگر تمام لوازمات کیساتھ کھیر میں میوہ جات کی طرح مزا دیتا محسوس ہوتا ہے۔
یہ احساس میرے ذہن و دل کی تنگ نالیوں میں دوڑتے پھرتے ابا آدم کے خون کو اسی متحرک قرار کیساتھ کان پر پائوں رکھ کر بھاگتے رہنے کیلئے کس قدر خیالی توانائی فراہم کرتا ہے، کہ ایک ایسا شخص مجھ ناچیز کو بھی اپنے دوستوں کی فہرست میں شمار کرتا ہے’ جس کی ساری زندگی ہی وکالت کے دور سے ہندوستان کی تین ریاستوں کی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی نشست سنبھالنے کا ابھی تک نہ ٹوٹ سکا اعزاز حاصل کرنے تک، اور پھر سینئر جج آف سپریم کورٹ انڈیا بن کر اب ریٹائر ہونے کے بعد بھی حضرت آدم کی آپس میں لڑتی اولاد کو متحد کرنے کیلئے اپنے فیصلے،اپنا وقت، اپنی سوچ دان کرتا رہتا ہے۔ حال ہی میں ان کا ایک مضمون فرائڈے ٹائمز میں شائع ہوا۔ پاکستان اور ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ان کے سوشل میڈیا پیجز کے ذریعے بھی پڑھا گیا۔ جس میں انہوں نے پڑوسی ملک پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ نہ صرف پاکستان آکر اپنے دادا کا شہر لاہور دیکھنے کی بے تاب تمنا’ ان کے مضمون کو “تقسیم کے بعد بٹ چکے لوگوں کے درد کی داستان” میں ڈھال کر نفرت اور دشمنی کی دھول سے اٹ چکی ہماری آنکھوں کو کھوٹ سے پاک اندر کے پانی سے سیراب کرجاتی ہے، بلکہ ان کی ایک اور خواہش کا اظہار بھی ان کے اس مضمون میں ملتا ہے کہ وہ پاکستان آکر انسانیت نواز عظیم ترین صحافی حسن نثار، حامد میر، نجم سیٹھی۔ محمد ضیاالدین رضا رومی کیساتھ ساتھ احمد فراز کے برخوردار شبلی فراز سے ملنا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیں انہیں نے مجھ ناچیز کا نام بھی شام کے کس عالمِ بے خودی میں اپنی اِس آرزو کی کھونٹی پر ٹانک دیا۔ یہ تو میرا دلی ارمان ہے کہ اس عظیم دوست کو اپنے گلے لگائوں۔وہ پاکستان پدھاریں اور لاہور دیکھ کر جنم لیں۔
لاہور آنے سے پہلے’ جسٹس مارکانڈے کاٹجو نے ہمیں خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ جسٹس کاٹجو کے متعدد انٹرویوز میرے ساٹھ میرے یوٹیوب چینل سجاد پیرزادہ پر بھی موجود ہیں۔
سجاد پیرزادہ:سنا ہے کہ آپ کا تعلق کشمیر سے ہے، کشمیر کو پاکستان اپنی شہ رگ سمجھتا ہے، کیا آپ بھی بطور ایک کشمیری پاکستان سے پیار کرتے ہیں؟
جسٹس مارکینڈے کاٹجو: (ہنستے ہوئے بولے کہ) میرا خاندان دو سو سال پہلے کشمیر سے مدھیا پردیش آکر آباد ہوا تھا۔ میرے والد شو ناتھ کاٹجو نے الہ آباد میں وکالت شروع کی۔ وہ سینئر اور بڑے نامور وکیل تھے، ہائیکورٹ الٰہ آباد کے جج بنے۔ ان کے چھوٹے بھائی براہم ناتھ کاٹجو الہ آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ میرے دادا فریڈم فائٹرتھے، آزادی کے بعد گورنر اڑیسہ بنے۔ بعد میں گورنر ویسٹ بنگال بھی بنے۔ پنڈت نہرو کی کابینہ میں وزیر قانون، ہوم منسٹر بنے۔5 سال تک چیف منسٹر مدھیہ پردیش بھی رہے۔ میرے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ میں سب سے چھوٹا ہوں۔ ایک بھائی انجینئر تھے، ایک فوج میں اعلٰی عہدے پر تھے۔ریٹائر ہوگئے۔ میرا ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی۔دونوں باہر ہیں۔ میرے کزن وویک کاٹجو سفارت کار رہے، انکی بیٹی اور میری بھتیجی ارون دھتی کاٹجو سپریم کورٹ اور دہلی ہائیکورٹ کی وکیل ہیں۔ 1900 میں میرے دادا کیلاش ناتھ کاٹجو کو 13 سال کی عمر میں ان کے والد ٹرپھوان کاٹجو نے لاہور رنگ محل میں پڑھنے بھیجا، جہاں وہ ایف سی کالج لاہور میں بھی پڑھے۔میرے دادا کا ننھیال لاہور میں رہتا تھا۔ لاہور اس وقت ہندوستان کے شہروں میں ایک جدید شہر کا درجہ رکھتا تھا۔ میرے دادا یہاں 5، 6 سال پڑھے۔` دی ڈیز آئی ریممبر` کے نام سے ان کی کتاب بھی ہے۔
سجاد پیرزادہ: آپ نے شاندار زندگی گزاری، اور گزار رہے ہیں۔ کیریئر کا آغاز کیسے ہوا؟
جسٹس مارکینڈے کاٹجو: میں نے الہ آباد ہائیکورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ خوب وکالت کی۔ پھر اس ہائیکورٹ کا ایکٹنگ جج بنا۔ ہندوستان میں قانون ہے کہ ہائیکورٹ کا جج اپنی ہی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس نہیں بن سکتا۔ ایکٹنگ چیف جسٹس بن سکتے ہیں۔ مستقل چیف جسٹس نہیں بن سکتے۔ میں الہ آباد ہائیکورٹ کا ایکٹنگ چیف جسٹس بنا۔ اور مستقل چیف جسٹس بنانے کے لیے مجھے مدھیہ پردیش بھیج دیا گیا۔ پھر نومبر 2004 میں مدراس ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا۔ اکتوبر 2005 میں دہلی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنا۔ اور اپریل 2006 میں مجھے سپریم کورٹ آف انڈیا کا جج بنادیا گیا۔ جہاں سے میں 2011 میں ریٹائر ہوا۔
سجاد پیرزادہ: پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کمشیر ایک بڑی وجہ تنازع ہے۔ آپ کشمیر ایشو کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جسٹس مارکانڈے کاٹجو: دیکھیے کشمیر ایشو دو طرح کے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ کشمیریوں کی اپنی خواہش کے مطابق کشمیر الگ ریاست بن جائے یا کشمیر انڈیا یا پاکستان میں شامل ہوجائے۔

 


میرے مطابق کشمیر میں اتنی فوج کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر میں آپ کو بتائوں کہ کشمیر میں پیراملٹری فورسز ملا کر سات لاکھ کے قریب فوج ہے۔ انڈین حکومت کشمیر سے فوج کبھی نہیں ہٹائے گی، کیونکہ انڈین حکومت سمجھتی  ہے کہ اگر اس نے کشمیر سے فوج ہٹا دی تو پاکستان قبضہ کر لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انڈین حکومت کو ہم کشمیر سے فوجیں واپس بلاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھیں گے۔ دوسری بات یہ کہ جو کشمیری کشمیر سے آزادی کی بات کرتے ہیں، جو نہ پاکستان اور نہ ہندوستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں، وہ اپنا الگ ملک بنانا چاہتے ہیں تو وہ ہندوستان سے الگ ہوکر اپنا مال کہاں بیچیں گے؟کشمیر الگ نہیں رہ سکتا، بہت چھوٹا ملک ہے، کشمیری آزادی آزادی کرتے رہتے رہتے ہیں، اس سے کیا ہوگا، کشمیریوں کی انڈیا کے ہر شہر میں دکانیں ہیں، کشمیر کی دستکاری کی انڈسٹری بہت بڑیی ہے، کشمیر کی شالیں، قالین بہت مشہور ہیں، یہاں تک کہ کیرالہ کے ساحل میں بھی کشمیریوں کی دکانیں ہیں، بنگال چلے جائیے، یو پی چلے جائیے، دہلی چلے آئیے پنجاب چلے جائیے ہر جگہ کشمیریوں کی دکانیں ہیں، کشمیر اگر الگ ہوگیا تو لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے، پاکستان کی طرح کشمیر کے بھی انڈیا کے ساتھ ویزہ کے مسائل ہونگے، سامان کہاں بیچیں گے، کیا کبھی کشمیریوں نے یہ سوچا ہے، سوچے بنا کہتے ہیں کہ آزادی آزادی، ان کی انڈسٹری بند ہوجائے گی۔ کشمیر اگر الگ ملک بن گیا تو ہندوستان سے کٹ جائے گا پھر اس کے بعد اس پر چائنہ یا پھر پاکستان اپنا تسلط جما لے گا، یہ آزاد کبھی نہیں رہ سکے  گا۔
سجاد پیرزادہ: اکثر خبریں آتی ہیں کہ انڈین فوج کشمیر میں لوگوں پر ظلم کرتی ہے۔ یہ ظلم کب رکے گا؟
جسٹس مارکینڈے کاٹجو: میں کشمیریوں پر ظلم کے خلاف ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اتنی فوج کشمیر میں رہی۔ اور اس طرح ظلم ہوتا رہا تو کشمیر ہندوستان کے لیے ویتنام ثابت ہوگا۔ کشمیریوں پر ظلم نہیں ہونا چاہیے۔مودی سرکار کی متعصبانہ پالیسیوں کے باعث کشمیر بھارت کے لیے ویتنام ثابت ہوگا۔ مودی سرکار نے وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بڑے پیمانے پر گوریلا وار کا بیج بویا ہے جس کے باعث کشمیر بھارت کے لیے ویتنام جنگ کے مترادف ثابت ہوگی۔ جو لوگ آج وادی کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اپنی فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں، وہ جلد ہی وادی سے بڑے پیمانے پر لاشیں آتی دیکھیں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے امریکا میں ویتنام سے امریکیوں کی لاشیں آئی تھیں۔ کشمیر کی صورتحال پر سچ بولنا چاہیے۔کشمیر میں کرفیو ہٹایا گیا تو عوامی مظاہرے پھوٹ پڑیں گے اور کشمیریوں کا غم و غصہ آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے گا۔وادی بھارتی حکومت کے لیے ایک ایسی ہڈی بن جائے گی جو نہ اُگلی جائے گی اور نہ نگلی جائے گی، ایک فوج دوسرے ملک کی فوج کا تو مقابلہ کرسکتی ہے مگر عوام کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ بی جے پی سرکار کے اقدام سے وادی کے لوگوں میں بھارت سے نفرت پہلے سے مزید بڑھ گئی ہے۔
سجاد پیرزادہ: انڈیا اور پاکستان دونوں کشمیر پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ پھر کیسے حل ہوسکتا ہے؟
جسٹس مارکانڈے کاٹجو: یہ مسئلہ نہ صرف کشمیرکو اپنا مان کر بلکہ ایک دوسرے کو بھی اپنا سمجھ کر حل کیا جاسکتا ہے۔ لڑائی بے وقوف لوگ کرتے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان اکٹھے ہوگئے تو کشمیر کا مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا اور پاکستان کو ایک مضبوط سیکولر حکومت کے تحت اکٹھا ہونا چاہیے۔ اور ایسا جرمنی کی طرح ایک دن ضرور ہوگا۔ کیونکہ دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔
سجاد پیرزادہ: سنا ہے کہ انڈیا میں آپ انڈین لوگ پاکستان سے بہت نفرت کا اظہار کرتے ہیں، کیا ایسا سچ ہے؟
مارکینڈے کاٹجو: میں پاکستان کو بالکل ایسے ہی سمجھتا ہوں جیسے ہندوستان کو۔ پاکستان میرے لیے بالکل  ویسا ہے جیسا ہندوستان۔ میں پاکستان سے اتنا ہی پیار کرتا ہوں جتنا ہندوستان سے کیونکہ پاکستان برصغیر کا ہی حصہ ہے۔ ہم لوگ ہزاروں سال ایک ساتھ رہے ہیں پاکستانی پنجاب،بلوچستان،کے پی کے،سندھ میں ہمارے بزرگوں نے اپنی عمریں گزاری ہیں۔ اسی طرح پاکستانی بھی 70 سال پہلے ہندوستانی ہی تو تھے۔ پاکستانیوں کے اباواجداد نے 1857 کی جنگ آزادی ہندوستان کے لیے ہی لڑی تھی۔
سجاد پیرزادہ: پاکستان کے لوگوں کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
جسٹس مارکانڈے کاٹجو: پاکستان کے لوگوں کے لیے میری طرف سے بہت بہت پیار۔ میں پاکستان آنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے میں لاہور اور کراچی دیکھوں۔ میں پاکستان آکر حسن نثار، حامد میر، رضا رومی، محمد ضیاالدین اسے بھی ملنا چاہتا ہوں۔ یہ لوگ پاکستان کی لبرل آواز ہے، جو انسانیت کی بات کرتی ہے۔