آزاد جموں و کشمیر تقریبا” چار ہزار مربع میل پر مشتمل اس قطعہ ارض کو نام دیا گیا جو 1947ء میں سابقہ شخصی ریاست جموں و کشمیر سے علحیدہ ہوکر پاکستان میں شامل ہوا۔ دوسرا حصہ جو 1947 میں ریاست جموں و کشمیر سےعلحیدہ ہوکر پاکستان سے وابستہ ہوا وہ گلگت و بلتستان کا علاقہ ہے۔ پاکستان میں 14 اگست 1947ء سے 19 دسمبر 1971ء تک 24 سالوں میں 13 سالہ دوردومارشل لاوں اور بقیہ 10 سالہ دور جمہوریت سے آمریت کی طرف سفر کا دور تھا یوں یہ ادوار جہاں طبقاتی استحصال کے ادوار وہیں علاقائی نابرابری، علاقائی ناانصافی اور علاقائی بنیادوں پر استحصال بھی ان ادوار کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ بلوچستان، سابقہ فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر استحصال زدہ علاقوں کی بڑی مثالیں ہیں ۔ آزاد جموں و کشمیر جیسے علاقوں کو مفتوحہ علاقے جیسا سلوک کیا گیا۔ شخصی ریاست جموں و کشمیر میں قبل از 1947ء ریاستی اسمبلی کے تین انتخابات ہو چکے تھے جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں کسی طرح کے انتخاب کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا . آزاد جموں و کشمیر کی حکومت عملا وزارت امور کشمیر کے افسران چلاتے تھے جس کے من پسند سیاسی لیڈروں کےلئے وظائف مقرر تھے ۔ 1950ء ہی میں آزادکشمیر کی اصل اور حقیقی قیادت نے یہاں کے عوام کے ووٹ کے حق کی تحریک شروع کی تھی۔ ذولفقار علی بھٹو کے دور میں آزادکشمیر کو پارلیمانی نظام حکومت اور ایکٹ 1974ء کی صورت آئین دیا گیا۔ یہ ایکٹ آزادکشمیر کی اس وقت چار جماعتوں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، آزاد مسلم کانفرنس، جموں و کشمیر لبریشن لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے اتفاق رائے سے تیار کیا تھا ۔ ذولفقار علی بھٹو کے دور تعلیم کے شعبے ناقابل تصور وسعت دی گئی۔ پورے آزادکشمیر میں 1973ء تک صرف تیس کے لگ بھگ ہائ سکولز اور صرف چھ سات کالجز تھے، ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں ایک ہی سال میں ایک سو نئے ہائ سکولز، ہر تحصیل ہیڈکوارٹر میں ایک انٹر کالج اور ہر ضلعی ہیڈکوارٹر پر دو دو ڈگری کالجز قائم کئے گئے۔ ذولفقارعلی بھٹو نے اپنے دورہ آزادکشمیر میں 1973ء میں پلندری کے مقام کیڈٹ کالج کے قیام کا اعلان کیا تھا ۔ مارشل لاء کے نفاذ پر یہ منصوبہ التواء میں رہا۔ بالآخر بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں پلندری کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں آیا اور 1995ء میں اس میں کلاسز کا اجراء ہوا۔ آزادکشمیر کے طلبہ کےلئے ماسٹر ڈگریز، ایم بی بی ایس اور انجیئرنگ کے لیے  انتہائی نشستیں ملک کے مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں مختص تھیں لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوتا تھا۔ ذولفقارعلی بھٹو نے ان نشستوں میں اضافہ کیا۔ لیپہ اور نیلم ویلی جو پسماندہ آزادکشمیر کے پسماندہ ترین اور دشوار ترین علاقے تھے، ان دونوں علاقوں کےلئے میڈیکل کی ایک ایک نشست مخصوص کی گئی۔ 1973ء میں تعلیمی اداروں کی وسعت کا منصوبہ بعد ازاں مسلسل جاری رہا لیکن پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے تیسرے اور چوتھے دور میں سکولوں اور کالجوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں آج آزادکشمیر تعلیمی لحاظ سے ملک کے تمام حصوں سے آگے ہے اور تعلیمی معیار کےلئے پاکستان سطح کے ہونےوالے سرویز آزادکشمیر کے اضلاع اولین پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔ 2011ء تک آزادکشمیر میں صرف ایک یونیورسٹی تھی اور کوئی میڈیکل کالج نہ تھا ۔ کشمیر کے بھٹو وزیراعظم آزادکشمیرسابق وزیر اعظم  چوہدری عبدالمجید کی تحریک پر مرد حر آصف علی زرداری نے آزادکشمیر میں تین میڈیکل کالجز قائم کئے اور چار مذید یونیورسٹیاں قائم کیں۔ مخالفین ان اقدامات کا مذاق اڑاتے تھے لیکن آج ان یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز میں سبھی لوگوں کے بچے زیر تعلیم ہیں یا اپنی اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں اس میں مخالفین کے بچے بھی شامل ہیں جو اداروں کے قیام پر مذاق اڑاتے تھے۔ 1947ء سے لےکر آزادکشمیر کے فوجی اور سول ملازمین کی تنخواہیں باقی ملک کے ملازم سے کم تھیں ۔ یہ بات یہاں کے ملازمین کےلئے انتہائی بے چینی اور اضطراب کا باعث تھی۔
فوجی ملازمین کی تنخواہوں کی برابری کا عمل تو قبل از بھٹو دور مکمل ہوگیا جبکہ سول ملازمین کی تنخواہیں ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں ملک کے دیگر حصوں کے ملازمین کے برابر کی گئیں ۔ قبل از بھٹو دور پاسپورٹ مخصوص اور وی آئی پیز کےلئے دستیاب تھا۔ ملک میں محدود پاسپورٹ دفاتر تھے۔ ذولفقارعلی بھٹو نے ملک بھر کےلئے عام آدمی کو پاسپورٹ کا اجراء کیا۔ اس پالیسی کا اطلاق آزادکشمیر میں بھی ہوا۔ اس دور میں آزادکشمیر میں دو پاسپورٹ آفسز قائم کئے گئے اور پھر آصف علی زرداری کے دور میں  نئے پاسپورٹ آفسز قائم کئے گئے۔ آج اس چھوٹے سے خطے میں درجن بھر پاسپورٹ آفسز ہیں ۔ ذولفقارعلی بھٹو کے دور میں  ملک بھر سے ستاون لاکھ افراد مشرق وسطی میں گئے ان میں سے آزاد کشمیر کے افراد کی تعداد کا صحیح ڈیٹا تو دستیاب نہیں تاہم ہر گھرانہ اس سے مستفید ہوا جس نے دشوار پہاڑی علاقے کے مکینوں کے مٹی کے گھرندوں کو پکے مکانوں میں اور چھیتڑوں والے لباس کو رنگ برنگے پرہنوں تبدیل کر دیا ۔ ذولفقار علی بھٹو سے قبل آزادکشمیر کے صرف دو شہروں مظفرآباد اور میرپور میں بجلی موجود تھی تو ذوالفقارعلی بھٹو کے حکم سے پورے آزادکشمیر کو الیکٹریفائ کرنے کا منصوبہ بنا جس پر عملدرآمد شروع ہی ہوا تھا کہ مارشل لاء کے نفاذ سے یہ منصوبہ آمریت کے حواریوں نے کھمبا لو، ووٹ دو کے کھیل میں تبدیل کر دیا تاہم اب یہ منصوبہ اپنے سینکڑوں نقائص کے ساتھ تکمیل پذیر ہو چکا ہے اور آزاد کشمیر کے ہر پہاڑ اور ہر ڈھلوان کے ساتھ بلب ٹمٹما رہے ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو ہی کے دور میں سہنسہ تراڑکھل روڈ تعمیر ہوئی، مظفرآباد کیل روڈ کی پختگی شروع ہوئی، دریائے بائیں کنارے کوہالہ تا ہولاڑ روڈ کلیاری تک مکمل ہوئی اور بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور میں ہولاڑ تک مکمل ہوئی ۔ ازاں بعد آزادکشمیر میں بڑی سڑکوں کا کوئی اور منصوبہ تاحال معرض وجود میں نہیں آیا ۔بھٹوز نے آزادکشمیر کے عوام کے ہر شعبہ زندگی ایک بڑی تبدیلی لاکرانڈین مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والی ترقی کا کسی حد تک موازنہ کئے جانے کی کیفیت پیدا کی ہے ورنہ آزادکشمیر میں احساس محرومی اور احساس کمتری کی لہر کہیں زیادہ بلند ہو چکی ہوتی ۔ ذولفقارعلی بھٹو اور بےنظیر بھٹو کی سیاست کے وارثوں کو آزاد جموں کشمیر کی اس خصوصی اہمیت کا احساس اور ادراک کرنا اور اسکے مطابق آزادکشمیر کو ترقی دیکر یہاں کے لوگوں کے حوصلے بلند رکھنا بھی تحریک آزادی جموں کشمیر کا ایک پہلو ہے جس سے پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں اور پالیسی ساز ادارے اجنبی ہیں ۔