پتنگ بازی ٗکٹی گردنیں اور پنجاب پولیس  

ویسے تو یہ عجیب و غریب بات ہے کہ میں یہ تسلی رکھوں کہ جو پنجاب پولیس پتنگ بازی رکوانے میں بُری طرح ناکام ہے وہ ایک دن کچے کے ڈاکوؤں کو نشان عبرت بنادے گی لیکن عام پاکستانیوں کے پاس سوائے یقین کرلینے اور تسلی سنبھال رکھنے کے علاوہ آپشن ہی کیا ہے؟ سو میں بھی عام پاکستانیوں کی طرح پُر امید ہوں کہ ایک دن اِس لعنت پر قابو پا لیا جائے گا۔پتنگ بازی ہر گز سستا شوق نہیں سو یہ بھی کنفرم ہے کہ اسے صاحبِ حیثیت لوگ پورا کرسکتے ہیں۔ البتہ پتنگیں لوٹنے والے اب نہ ہونے کے برابر ہو چکے ہیں کہ کل تک جو سڑکوں پر بانس ہاتھ میں لیے پتنگوں کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے تھے اب مدت ہوئی نظر نہیں آئے۔ پتنگ اور ڈور بنانا بھی ایسا کام نہیں ہے جسے چھپ کر کیا جا سکے اور پھر پتنگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں لیکن پتنگ فروش اور پتنگ باز یہ کام مل کر خوش اسلوبی سے کسی طاقتور کی زیر نگرانی کر رہے ہیں۔ کبھی لاہور کی بسنت کی دھوم دنیا بھر میں ہوتی تھی لیکن وقت نے جہاں بہت کچھ برباد کرکے رکھ دیا ہے وہیں یہ تہوار بھی کیمیکل لگے نہ ٹوٹنے والے مضبوط دھاگو ں کی وجہ سے اب پتنگ کی ڈور کے ساتھ ساتھ سڑک پر جاتے شہریوں کی زندگی کی ڈور بھی کاٹ جاتی ہے۔ اکثر ان حادثات کا شکار ہونے والے یاتو نوجوان موٹر سائیکل سوار یا پھروہ بچے ہوتے ہیں جو ماں باپ کے ساتھ موٹر سائیکل کے آگے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جس کادوسرا مطلب ہے کہ یہاں بھی موت ورکنگ کلاس یا لوئر مڈل کلاس کے مقدر میں لکھی جاتی ہے۔گاڑی میں بیٹھے لوگ کبھی اِس حادثے کا شکار نہیں ہوتے۔ سو ایک آئیڈیا تو یہ بھی ہے کہ سرکار جب تک پتنگ بازی کی مہلک وباء پر قابو نہیں پاتی اتنی دیر تک عام آدمی کو گاڑی بمعہ پیٹرول فراہم کردی جائے تاکہ کم از کم زندگیا ں تو محفوظ ہوں لیکن آئی ایم ایف کے سود درسود قرضہ پر چلنے والی حکومت ممکن ہے کہ عنقریب افسروں کو قیمتی گاڑیاں دیتی دکھائی دے یا پھر مراعات یافتہ طبقے کیلئے کسی نئی سہولت کا اعلان کردے لیکن فی الحال اِس لعنت سے عام آدمی کو بچانے کیلئے پنجاب حکومت کے پاس سوائے پولیس کے غیر کارگر ہتھیار کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ حالانکہ جس تھانہ کی حدود میں پتنگ کے ڈور سے کسی کی گردن کٹے تواُس تھانے کے ایس۔ ایچ۔ او اور جائے وقوع کے بیٹ آفیسرکے خلاف مقدمہ درج کردیا جائے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عام آدمی حرام موت سے بچ سکتا ہے مگر اپنی حکومت ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ یہی تو وہ پنجاب پولیس ہے جو اُن کی ہر ترقی اور سیاسی فتح و شکست میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے اورمزید بھی کرتی رہے گی۔ میں نے لاہورکی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے ہوئے ان گنت بار پتنگیں اڑتی دیکھی ہیں اور یہ بے خوف پتنگ باز اپنے قاتلانہ شوق کو کسی کمرے میں چھپ کرنہیں آسمان کی بلندیوں میں پتنگ چڑھا کر پور ا کر رہے ہوتے ہیں اور صرف لاہو ر ہی کیوں پنجاب بھر کے اہم شہروں میں بسنت ابھی بھی اہتمام سے منائی جا رہی ہے جس کے ویڈیو کلپ اور آنکھوں دیکھے مناظر یار دوست سناتے رہتے ہیں۔ اندرون ِ لاہور میں جنم لینے اور جوان ہونے تک زندگی گزارنے کی وجہ سے میں پتنگ بازی کی لذت سے خوب واقف ہوں۔ ڈور کے ایک سرے پر پتنگ اوردوسرے پر پتنگ باز کا دل ہوتا ہے جو پتنگ کی ہر موومنٹ سے دھڑکتا چلا جاتا ہے۔ والدین سے بیسیوں بار چھترول کے باوجود کبھی پتنگ بازی سے دستبرداری کا سوچا بھی نہیں تھا لیکن پھر کالج جاتے ہی نہ جاتے یہ شوق کیسے ختم ہو گیا یا پھر زندگی کے مقاصد بدل گئے۔ نوجوانوں کی زندگی میں مقصدیت نہ ہو تو ایسے فضول کاموں سے اُن کا دل کبھی نہیں بھرتا۔تمام باتوں کے باوجود بسنت تو لازمی مناتے تھے لیکن اُس زمانے میں کبھی کسی کا گلہ کٹنے کی اطلاح  موصول نہیں ہوئی تھی۔ البتہ چھتوں سے گرنے اور پتنگ بازی  پر لڑائی جھگڑے اندرونِ لاہور میں معمول کی بات ہوا کرتی تھی لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کبھی کسی بے گناہ کا ڈور سے قتل ہونا کا واقعہ مجھے تو یاد نہیں۔ کوئی بھی مہذب انسان کبھی بھی ایسی پتنگ نہیں اڑا سکتا جس کے ایک سرے پر ہوا میں لہراتا ہوا اُس کا شوق اور دوسرے سرے پر کسی نوجوان یا بچے کی کٹی ہوئی گردن حیرت سے پھٹی آنکھوں کے ساتھ اپنے قاتل کی طرف دیکھ رہی ہو جیسے پوچھ رہی ہو کہ مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا لیکن ایسا صرف مہذب انسان ہی سوچ سکتا ہے لیکن ہم نے مہذب انسان پیدا ہی کہاں کیے ہیں۔انسانوں کو سدھارنے کیلئے یا تو اخلاقی تربیت ہوتی ہے یا پھر سزائیں۔ جن اقوام نے اپنی پرانی نسلوں کو سزاؤ ں سے ٹھیک کر لیا تھا وہاں تو اب اخلاقی تربیت کام کر رہی ہے لیکن چونکہ ہم ابھی مہذب بنے کے سفر پر ہی روانہ نہیں ہو ئے سو یہ قتل و غارت گری ہمیں سزا سے ہی روکنا ہو گی کہ ایسا قتل جس میں مقتول کے ورثہ عمر بھرقاتل کی سزا تو دور کی بات اُس کے نام اور شکل سے بھی واقف نہ ہو سکیں۔ میں صحت مند کھیلوں کا بہت بڑا داعی ہوں لیکن اُس سے زیادہ میں انسانی زندگی کے احترام کا قائل ہوں اور اگر ایک انسان کو بچانے کیلئے بھی کسی کھیل پر مکمل پابندی  لگانی پڑ جائے تو میں بلاشبہ اُس کی حمایت کروں گا۔
فیس بک پر ایک کلپ دیکھا جس میں ایک نوجوان موٹر بائیک پرجاتے ہوئے اچانک گرا تومجھے سمجھ نہ آیا کہ اسے کیا ہوا ہے۔ بے حس لوگ پاس سے گزر رہے تھے۔ اتنی دیرمیں سرخ زمین دیکھی تو یوں لگا جیسے بقرہ عید پر کسی جانور کی گرد ن پرچھری پھیر دی گئی ہو۔ اُس نوجوان کی سفید شلوار قمیض اور ارد گرد کی ساری سڑک اُس کے خون سے سرخ ہو چکی تھی۔ایک راہ گیر نے قریب کھڑے شخص کی چادر اتار کر اُس نوجوان کی گردن کے گرد لپیٹ دی اور کلپ ختم ہو گیا۔میرا کلیجہ یہ سوچ کر منہ کو آ رہا تھا کہ جب اِس نوجوان کے گھر یہ خبر پہنچے گی تو اُس کے ماں باپ کے دل پر کیا بیتے گی؟میں نے یہ بھی سوچ کہ شاید یہ گھرکا واحد کفیل ہو ٗ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور بڑھاپے کا سہارا  ہو

 اور اب کئی دن ہسپتال میں رہے گا تو اُس کے گھر کا نظام کیسے چلے گا لیکن میں کیا جانتا تھا کہ یہ نوجوان اِس حادثے میں اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے گ۔آصف اشفاق فیصل آباد کے علاقے سمن آباد کا رہائشی اور سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اُس نے بی بی اے کر رکھا تھا اورعید کے بعد گھروالے اُس کی شادی کی تیاری کررہے تھے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ رمضان کے مقدس مہینے میں افطاری لینے کیلئے جانے والا آصف اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ فیصل آباد میں 27 فروری سے جاری یہ قاتل پتنگ بازی اب تک 4 جانیں لے چکی ہے جن میں آصف سمیت شہزاد اور دو بچے بھی شامل ہیں۔ پکڑی جانے والی پتنگیں اورڈوریں مال مقدمہ تو بنتی ہیں لیکن انہیں تلف کرنے کا کوئی منظر اب تک سامنے نہیں آیا جس سے صرف ظاہر ہے کہ یہ دوبارہ دکانوں پر چلی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں قصور میں ہونے والی بسنت میں پنجاب بھر سے لوگوں نے شرکت کی اور ڈنکے کی چوٹ پرپولیس کی موجود گی میں آسمان پتگنوں سے رنگین رہا۔ ویسے تو یہ عجیب و غریب بات ہے کہ میں یہ تسلی رکھوں کہ جو پنجاب پولیس پتنگ بازی رکوانے میں بُری طرح ناکام ہے وہ ایک دن کچے کے ڈاکوؤں کو نشان عبرت بنادے گی لیکن عام پاکستانیوں کے پاس سوائے یقین کرلینے اور تسلی سنبھال رکھنے کے علاوہ آپشن ہی کیا ہے؟