سکندر اعظم کی فو ج ہندوستان پہنچنے سے پہلے ایران میں ہی دل برداشتہ ہوچکی تھی کہ انہیں گھر سے نکلے سالوں ہوچکے تھے۔ فوج میں ہونے والی چہ مگوئیاں سکندر کو پریشان کررہی تھیں کہ وہ فاتح عالم بننے کیلئے گھر سے نکلا تھا اور ابھی ایک طویل سفر اُسے طے کرنا تھا۔ وہ فوج میں بغاوت کے خوف سے بھی پریشان تھا کہ اُس نے یہ ساری صورت حال لکھ کر قاصد کے حوالے کی اوراُسے اپنے استاد ارسطو کی طرف روانہ کرتے ہوئے کہا کہ”فوری جواب لے کرواپس لوٹنا ہے۔“ قاصد برق رفتاری سے یونان پہنچا اورسیدھا ارسطوکی خدمت میں پیش ہوکر سکندر اعظم کا خط پیش کیا جواُس وقت اپنے باغ میں بیٹھا تھا۔ معلم ِاول نے غور سے تحریرکو پڑھا اورگہری سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ دیربعد وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور کلہاڑی اٹھا کر باغ میں موجود پرانے درخت کاٹنے شروع ہوگیا۔بہت سے پرانے درخت کاٹنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے جگہ پرآ کر بیٹھا تو قاصدنے درخواست کی کہ”شاہ معظم کا حکم تھا کہ جواب جلد لے کر لوٹنا ہے۔“ارسطو نے قاصد کی طرف غور سے دیکھا اورکہا”جاؤ کوئی جواب نہیں ہے میرے پاس۔“ قاصد کچھ دیر خاموش رہا اورواپس ایران کی راہ لی۔ دن رات کی منزلیں طے کرتا ہوا وہ سکندر کے سامنے پہنچا تو سکندر نے بے چینی سے جواب کی بابت پوچھا تو قاصد نے جواب دیا کہ”استاد نے کہا ہے کہ میرے پاس کوئی جواب نہیں۔“ سکندر بے چین ہو گیا اور پھر قاصد سے گویا ہوا کہ”جب تم نے خط دیا تو استاد نے کیا کیا تھا۔“ قاصد نے جواب دیا کہ”خط پڑھنے کے بعد استاد نے کلہاڑی اٹھائی اور پرانے درخت کاٹنے شروع کردیئے۔“سکندرکی آنکھیں ایک فاتحانہ چمک سے جگمگا اٹھیں اوراگلے دن میدان میں ایک ہزار پھانسیوں پروہ ایک ہزار جنگجو جھول رہے تھے جنہیں واپسی کی جلدی تھی۔ اُس کے بعد سکندر نے ہندوستان فتح کیا اُس کی عمر نے اُس کے ساتھ وفا نہ کی لیکن آج بھی 24 سو سال بعد اُس کا نام تاریخ عالم کے عظیم فاتحین میں لیا جاتا ہے۔ سکندر کا موقف تھا کہ جن لوگوں کے ذہنوں میں دنیا فتح کرنے کے نقشے ہوں انہیں سب سے پہلے اُس نقشے سے گھر واپسی کا رستہ مٹانا پڑتا ہے۔ 
میں ایک امن پسند اورجنگ مخالف انسان ہوں لیکن جب دنیا کی ہر ریاست نے فوج رکھی ہے تو پھر پاکستان کی فوج کیوں نہ ہو؟ اگر فوج ہو گی تو یقینا فوجی عام انسانوں سے مختلف انسان ہوتا ہے اور یہ میرا نہیں افلاطون کا موقف ہے جس نے زمین پر پہلی اکیڈمی بنائی۔ اورمیں سمجھتا ہوں کہ عام شہری کی سی آسان زندگی گزارنے والا اورانپے لوگوں کیلئے زندگی کی سختیاں جھیلنے ٗ ہر وقت موت کے منہ میں رہنے والے ٗ بیوی بچوں اورسماجی زندگی سے دور رہنے والوں کی نفسیات کا تجزیہ ایک ہی اصول پر کیا بھی نہیں جا سکتا کہ ہر انسان کی نفسیات اُس کے ماحول میں پرورش پاتی ہے۔ لب و رخسار کے قصے ٗ وصال یار کی باتیں ٗ تیتلیوں کے رنگ ٗہنستا ہوا بچہ اوراس طرح کے ہزارو ں خوشنما اور حیات بخش مناظر اوربارود کی بدبو میں پلنے والے افراد ایک جیسا سوچ ہی نہیں سکتے۔ میرا دوست سہیل لون جو ائر فورس چھوڑ کر اب برطانیہ میں مقیم ہے اکثر کہا کرتاتھا ”فوج کی وجہ سے موج ضرور ہے مگر فوج میں موج نہیں“ مجھے یہ بات پہلے بہت عجیب لگتی تھی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہی سچ ہے کیونکہ ایک سیاسی ورکر اورفوجی کی تربیت دو متضاد بلکہ متصادم تربیتیں ہیں۔ سیاسی ورکرکو بتایا جاتا ہے کہ فوج ہر برائی کی جڑ ہے لیکن فوجی کو ہمیشہ یہی بتایا جاتا ہے کہ ہم نے ریاست میں بسنے والوں کی زندگی بچانے کیلئے ”جان دینے اور جان لینے سے دریغ نہیں کرنا۔“یہ ممکن ہے بلکہ ممکن ہی ہے کچھ ہائی رینک آفیسر ایسا نہ سوچتے ہوں لیکن ایسا وہ ”عالیٰ مرتبت“ہونے کے بعد ہی سوچتے ہوں گے ورنہ کوکول اکیڈمی میں تو صرف پاکستان اور پاکستانیت ہی ہوتی ہے۔ سیاچن پر بیٹھا جوان میرے طبقے کا جوان ہے۔ نشان ِ حیدر کبھی کسی جرنیل کو نہیں ملا یہ میرے طبقے کے لوگوں کے حصہ میں آیا ہے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس وطن کیلئے بہادری کے سدرۃ المنتہیٰ پر بھی میرے طبقے کے لوگ ہی فائز ہیں۔زندہ انسانی سماج کی اعلیٰ ترین خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہاں لوگ پیار بھی کرتے ہیں اور نفرت بھی ٗ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور سچ کے معیارات بھی طے کرتے ہیں ٗ قتل بھی کرتے ہیں اوریتیموں کو پالتے بھی ہیں ٗ جنگ بھی کرتے ہیں اور امن کے گیت بھی گاتے ہیں ٗوہ الیکشن  جیتے اورہارتے بھی ہیں ٗ ایسی ہزاروں مثالیں زندہ انسانی معاشروں سے دی جا سکتی ہیں لیکن ایسا کچھ بھی قبرستان میں نہیں ہوتا کیوں کہ وہاں زندگی کا وجود ہی نہیں ہے۔سو کسی معاشرے میں انسانوں کے متضاد یا متصادم رویے اُس سماج کے زند ہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
 لیکن اِن تمام تضادات کے باوجود کچھ اثاثے قوموں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔جن کا احترام ساری یا ایک ہی ریاست میں بسنے والے مختلف اقوام یکساں کرتی ہے۔ میں چشم تصور سے دو مناظر دیکھ رہا ہوں ایک طرف وہ بھارتی بریگیڈئر باجوہ ہے جس نے کیپٹن کرنل شیرخان کی بہادری اور جرات کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان آرمی کو خط لکھا اوردوسری طرف وہ بدبخت ہے جو کیپٹن کرنل شیرخان کے مجسمے کو توڑ رہا ہے۔بے غیرتی اوربے شرمی کی اس سے زیادہ انتہاء کیا ہو گی؟ میری سمجھ سے باہر ہے۔ چوہدری شفقات میرے فیس بک فرئنڈہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وقت نے انہیں میرا محسن بنا دیا۔ وہ عشق رسولؐ میں ڈوبا شخص روضہ رسولؐ کے سامنے اپنی رقت آمیز آواز میں رسالت مآبؐ کو پکارتے رہتے ہیں۔عرصہ دراز سے سعودیہ میں مقیم ہیں۔ رسول ؐ اللہ سے محبت کی مشترک قدر نے ہمیں بہت نزدیک کردیا اور جب کبھی انہوں نے مجھے روضہ رسولؐ سے ویڈیو بنا کر بھیجنا تومجھے احساس ہوتا ہے کہ سرکار نے مجھ گنہگار کی شفقات چوہدری کے وساطت سے حاضری لگوائی ہے۔پاکستان کے سیاسی حالات بدلے تو بہت کچھ بدل گیا۔ میں تحریک انصاف کو پہلے ہی خیر باد کہہ چکا تھا اور میرے دوست اوردشمن سب جانتے ہیں کہ میں نے تحریک انصاف میں زندگی کے 25 سال اپنے موقف پر گزارے ہیں سو کسی غیر عقلی اورملک دشمن فیصلے کا ساتھ کیسے دیا جاسکتا تھا۔ اگر طالبان اور بلوچ لبرشن آرمی کے حملے ناجائز تھے تو پھر پی ٹی آئی کے افواج پاکستان پر زبانی یا جسمانی حملے کیسے جائز ہوسکتے تھے سو میرے اختلاف پر فیس بک پر میرے دوست شفقات چوہدری نے مجھے بتایا کہ اُن کی میری دوستی عمران نیازی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ میں نے اس بات کا ہرگزبُرا نہیں منایا لیکن مجھے اس بات کا ضرور دکھ ہوا کہ میں اس نسبت کو صرف  رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم کے تناظرمیں دیکھتا رہاتھا۔ سرگودھا شاہینوں کاشہر ہے میرے فیس بک فرئنڈ شفقات چوہدری کا تعلق بھی سرگودھا سے ہے اوروہ چوک جس میں شہداء کی تصاویر آویزاں تھیں وہاں سے چوہدری صاحب بہت بار گزرے ہوں گے اورممکن ہے کہ بچپن میں اِن تصاویروں کو سلام بھی کیا ہو لیکن جب انہیں تصویروں پر میں نے پتھراؤ ہوتے دیکھا تو مجھے شہدا ء سے زیاد ہ چوہدری صاحب یاد آئے۔ وہ انتہائی شریف اورعشق رسولؐ میں ڈوبے ہوئے شخص ہیں لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ انہوں نے عمران نیازی کے ساتھ زندگی کا ایک لمحہ بھی نہیں گزارہ اورمیں نے زندگی کے 25 سال اُس کے ساتھ گزار دئیے وہ وزیراعظم بننے سے پہلے میری تعریفیں کرتا نہیں تھکتا تھا لیکن میں نے اُس کے اقتدار کا حصہ بننا پسند نہیں کیا کیونکہ میں بہت کچھ جانتا تھا جو ابھی عام آدمی کے سامنے نہیں آیالیکن پاکستان میں ہونے والے اِن واقعات نے بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ چوہدری شفقات کی گفتگو فیس بک پر پبلک دیکھ رھی ہوتی ھے لیکن میں نے کبھی انہیں ان فرئینڈ کرنے کا نہیں سوچا میں صرف اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جس دن وہ خود عمران نیازی کے بارے میں مجھے وہ سب کچھ بتا رھے ہوں گے جو میں آج بھی جانتا ہوں لیکن شاید اس وقت ہماری دوستی ختم کو چکی ہو گی۔ اپنی فوج سے لڑتے یا اُس کی تذلیل نہیں کرتے اُسے آئین کے ماتحت کام کرنے کیلئے اقدامات کرتے ہیں ورنہ فوج تو عراق کے پاس بھی تھی اور جو عراق کے ساتھ ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ عجیب قوم ہیں ہم بھی ایک طرف ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یا علی ؓ کہنا شرک ہے اور دوسری طرف پاکستان میں بہادری اور جرات کا سب سے اعلیٰ ترین اعزاز نشانِ حیدر ہے۔ جب ایسے تضادات کے درمیان آپ بچوں کی پرورش کریں گے تو پھر ہمیں انہیں حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔موجودہ حالات میں کچھ پرانے درختوں کو کاٹنا ہو گاورنہ صرف سویلین کو سمری ملٹری کورٹس سے سزائیں دینے سے کام نہیں بنے گا۔اس کیلئے سویلین اورآرمی کی تحصیص ختم کرکے انہیں پاکستانی شہری اور اُن کے جرائم کو صرف افواج پاکستان کے خلاف جرم کی عینک سے دیکھنا ہوگا۔یقینا ہم بہترین قوم بن سکتے ہیں کہ ابھی ہمارے پاس بچانے کیلئے بہت کچھ باقی ہے۔