سوشلزم سے سوشل ڈیموکریسی تک 

 شہید بینظیر بھٹو کے سوشل ڈیمو کریٹک نظریات کے دفاع میں لکھی تحریر 

سوشل ڈیمو کریسی سوشلزم کٕے بطن سے پیدا ہوئی، اسے ہم سوشلسٹ معاشرے کے قیام کا درمیانی راستہ کہہ سکتے ہیں ۔ اس کی ضرورت یوں پیش ائی کہ انقلاب روس کے موقع پرجب معاشی مساوات کے عملی نفاذ کا وقت آیا تو یہ حقیقت سامنے آٸ کہ معاشرے صرف معاشی مساوات کی بنیاد پر تبدیل نہیں کیے جا سکتے . معاشی نظام انصاف  پر عمل درآمد کے لیے پہلا مسٸلہ سیاسی نظام کا سامنے آیا ۔ جہاں معاشی مساوات کا نظریہ عوام الناس میں مقبول تھا وہیں جمہوریت بھی عوام کو اسی طرح لبھا رہی تھی ۔ بانٸ انقلاب لینن نے مگر سیاسی نظام جمہوریت کی بجاٸے ” مزدورں کی آمریت“  کا انتخاب کیا ۔  اس ایک عمل نے انقلابی قیادت کے درمیان   ناقابل حل فکری اختلافات کو جنم دیا ۔  نجی ملکیت بھی ایک قدیم معاشرتی روایت تھی ۔بہت سی معاشرتی روایات ناقابل تغیر قانون بن چکی ہیں ۔ نجی ملکیت کا مکمل خاتمے کا تصور اوپری طبقے کے ساتھ ساتھ نچلے طبقے میں بھی بے چینی کا سبب بنتا ہے ۔ اس بے چینی کو استحصالی طاقتیں اپنے حق میں استمعال کرتی ہیں چنانچہ وہ سوشلسٹ معاشرے کے قیام کے راستٕے میں مزاحمت کو عوامی رنگ دینے میں کامیاب ہوجاتی ہیں .دوسری طرف سوشلزم  اپنے ادھورے پن کے باوجود   دنیا بھر میں عوامی سطح پر خوشحالی اور برابری کے نٸے دروازے کھولتا ہے .غاصب طبقہ قدم بہ قدم  اپنے استحصالی کردار کو محدود کرنے پر مجبور ہوتا رہا تھا ،یہ کشمکش ایک مستقل مخاصمت کو جنم دے رہی تھی .دنیا مسلسل جنگ کےدہانے پر بیٹھی رہتی اور سوشلزم اپنے  مقاصد کے حصول کی بجاٸے اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور تھا ۔ یہی مسٸلہ کیپٹل ازم کو درہیش تھا ۔ اپنے حریف کو دبانے کے باوجود  وہ بھی ہروقت انقلاب کے خطرے سے دوچار تھا ۔ جدید ٹیکنالوجی کی آمد نے  دنیا میں دولت کا بے پناہ اضافہ کیا ۔  یہ دولت اس قدر زیادہ تھی کہ  اس کی غیر منصفانہ تقسیم لازمی طور بڑے تنازعات کو جنم دیتی ۔

شہید بے نظیر بھٹو نے اپنی آخری کتاب” مفاہمت اسلام ،جمہوریت اور مغرب“  میں  اس دولت کی پیداٸش کے متعلق ایک مثال میں  بیان کیا ہے کہ امریکہ کی  ریاست الاسکا میں دریافت شدہ تیل کی لیز بیچنے پر  اسےاتنی دولت حاصل ہوٸ جو اس کے سالانہ بجٹ سے آٹھ گنا زیادہ تھی ۔  اگر یہ دولت 1968  کی بجاٸے صرف ساٹھ سال پہلے سوشلزم کے نفاذ سے قبل پیدا ہوتی  تو الاسکا کے عوام کو اس میں سے ایک پاٸ بھی نہ ملتی  ۔ لیکن سرمایہ دار کی  سرخیل ریاست امریکہ بہادر کو  اس دولت میں عوام کو شریک کرنا پڑا یوں سوشل ڈیمو کریسی  کی پہلی شکل سامنے آٸ ۔ اس سرماٸے کو سرمایہ داروں میں تقسیم کرنے کی بجاٸے ریاست کے کنٹرول میں رکھ کر اس سے مستقل آمدن کے منصوبے بناٸے گٸے  جس کے منافع میں  الاسکا کے عوام کو نقدی کی صورت حصہ دار بنایا گیا ۔ محترمہ  نے اپنی کتاب میں سوشل ڈیموکریسٕی کے تجربے کو مختلف ممالک کے حوالے سے بیان کیا ہے اور انکے خیال میں  دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے مفاہمت کا ایک راستہ سوشل ڈیمو کریسی بھی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو جو ایک ویژنری لیڈر تھے عالمی سیاست اور اسکے نظریاتی بحران کا گہرا ادراک رکھتے تھے – ساٹھ کی دہائی  میں  جب  دنیا  سوشلسٹ انقلاب  کے  سحر میں مبتلا تھی بھٹو نے اپنی پارٹی کے بنیادی منشور  میں ” سوشلزم  ہماری معیشت ہے” کے ساتھ ساتھ ” جمہوریت ہماری  سیاست ہے”کو شامل  کر کے انقلاب  کی  بجائے جمہوری  جدوجہد کا راستہ اختیار  کیا – بھٹو کے سوشلزم کے تصور پر بہت تنقید کی گٸ. اسے کلاسیکل مارکسزم سے متصادم قرار دیتے ہوے  کہا گیاکہ مارکسزم میں درمیانی راستے کا کوٸ تصور نہیں ۔سوشلزم کو بذرہعہ جمہوریت نافذ کرنے کا تصور ایک دھوکا ہے ۔  لیکن بھٹو کی دور رس نظریں سوشلزم کے نفاذ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو بھانپ چکی تھیں ۔  انہوں نے روز اول سے سوشلزم کی انتہاٸ شکل اختیار کرنے کی شعوری پالیسی اختیار کی۔

 دوسری طرف یہی وہ  زمانہ  تھا حب سرمایہ  داری سوشلزم  کےدباؤ کے  تحت اپنی  انتہائ  پوزیشن  سے  پسپائ  اختیار کرنے  پر  مجبور ہو  رہی  تھی۔  سرمایہ داری ذاتی ملکیت، بے  پناہ منافع,  اور آزاد  منڈی پر  کسی  صورت  سمجھوتہ  کرنے  کے  لیے تیار  نہیں  تھی سوشلزم کے  نفاذ کے  لیے  دنیا  بھر  میں  چلنے والی  تحریکوں سے خوفزدہ  ہوکر مزدوروں کے بہت سے  مطالبات تسلیم کرنے  پر رضامند  ہوگئ  – کام کرنے کے اوقات کار کو کم کیا گیا۔  مزدوروں کی ملازمتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔   کم از کم اجرت کے مقرر کرنے کے اصول کو تسلیم کیا گیا۔ سامراجی  ممالک  اپنی  کالونیوں  سے  دستبردار ہوگئے-  نجی  ملکیت  سرمایہ  دارانہ  نظام  کی  بنیادی  کلید  ہے  اس کو  سرمایہ  داری  میں  مقدس حیثیت  حاصل  ہے. اس  پر  کسی  قسم  کا سمجھوتہ  سرمایہ  داری کےلیےموت کے اعلان کی مثل ہوتا- لیکن سوشلزم  کا  دباؤ تھا کہ نجی ملکیت پر سمجَھوتہ  کیے  بغیر  ریاست  کی  ملکیت  میں  ذرائع پیدوار کو مشترکہ  ملکیت  تسلیم  کرنے کو سرمایہ  داری  نے  خفیف  حد  تک  قبول  کیا – اسے  سوشل ڈیمو کریسی  کا  نام  دیا  گیا۔  پاکستان میں بھی  بھٹو حکومت نے زمینوں کی تقسیم  نیشنلائزیشن  اور  زرداری  حکومت نے  سرکاری  کارپوریشنز  میں  مزدوروں  کے  بارہ  فی  صد  شئیر  مقرر  کرکے  سوشل ڈیموکریسی  کے راستے پر  چلنے  کی  کوشش  کی، بدقسمتی سے بہ وجوہ  ان  اقدامات  کے  متوقع  نتائج  حاصل  نہ  کیے  جاسکے  –  موجودہ  سندھ  حکومت  نے  تَھر کول  پاور  پراجیکٹ  کا منصوبہ   پبلک  پرائیویٹ  پارٹنر  شپ  کے  نام  سے  شروع کر رکھا ہے ۔ جو اب تک پاکستان میں سوشل ڈیمو کریسی  کے اصول کےتحت ہونے والا سب سے بڑا منصوبہ ہے ۔

 اس منصوبے سے ہونے والی آمدنی کا  بڑا حصہ براہ راست  عوام تک پہنچایا جاتا ہے. سندھ حکومت  اس وقت پبلک پراٸیویٹ پارٹنر شپ کے منصوبے چلانے والی جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر اور دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے ۔
سوشل ڈیمو کریسی یا پبلک پراٸیویث پارٹنر شپ دولت کی منصفانہ تقسیم کی طرف ایک چھوٹا سا قدم ہے ۔  لیکن اس کے نتاٸج یقینی ہیں ۔ اس کا مطلب سوشلسٹ نظام نہیں لیکن اسے کلاسیکل کیپٹلزم بھی نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ مفاہمت کا ایک راستہ ہے جہاں بغیر ٹکراٶ کے معاشی مساوات   کے اصول کو منوایا جا سکتا ہے ۔

 تاریخ کا شعور حاصل کرتے ہوٸے ہم یہ جاننے کے قابل ہو چکے ہیں دنیا یک رنگی نہیں ہو سکتی ۔ نہ ہی کوٸ ایک سماجی گروہ دوسرے سماجی گروہ پر مکمل حاوی ہوسکتا ہے ۔ سوشلزم کا بنیادی مقصد  انسانوں کے درمیان تضادات کا خاتمہ کرکے ایک اعلی معاشرہ قاٸم کرنا ہے ۔ ایک ایسا معاشرہ  جہاں انسان مکمل آزادی کے ساتھ ایک دوسرے سے مل جل کر رہ سکیں ۔ کوٸ چھوٹا بڑا نہ ہو ۔حاکم اور محکوم کی کوٸ قید نہ ہو۔  اب تک کی جدوجہد سے ہم جان چکے ہیں ایسا معاشرہ  کسی جنگ کی صورت میں قاٸم کرنا ممکن نہیں. اپنے اصولوں پر قاٸم رہتےہوٸے دوسروں کو قبول کرتےہوٸے مفاہمت کے ساتھ ہی ایسے معاشرے کے خواب کوعملی  تعبیر دی جا سکتی ہے ۔ یہی پیپپلز پارٹی اور شہید بے نظیر بھٹو کی جدوجہد کا محور ہے ۔