9اپریل 2022 کی رات میں کیا ہوا کیا ہو رہا تھا بظاہر ہم سب اپنے پسند کے چینلز پر دیکھ رہے تھے اسد قیصر سپیکر قومی اسمبلی سب سے زیادہ پریشر میں تھے لیکن خود عمران خان بنی گالا سے احکامات جاری کر رہے تھے ہمت نہیں تھی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں آتے بالآخر اسد قیصر نے ایوان قاسم سوری کے حوالے کیا اور غیر پارلیمانی اور غیر آئینی اقدام یعنی استعفوں کے معاملے سے خود کو الگ کر دیا رات کے اندھیرے میں کھلنے والے عدالت عظمٰی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کس کے حکم پر کھولے گئے مستقبل کا تاریخ دان دانشور بتا سکے گا آج اس پر راوی خاموش تماشائی بنا ہے
بنی گالا میں وقوع پذیر واقعات بھی مستقبل کے تاریخ دانوں کی ذمہ داری ہے
بحیثیت وزیراعظم ” سایئفر” کاغذ لہرا کر اعلان کیا کہ امریکہ حکومت ختم کرنے کی سازش میں ملوث ہے 
کچھ عرصہ بنی گالا اور پشاور سے اسلام آباد پر چھڑائی کی لیکن پسپائی اختیار کرنا پڑی زمان پارک لاہور منتقل ہوگئے جہاں سے جیل بھرو تحریک شروع کی لیکن خود گرفتاری نہیں دی حالانکہ اصولاً قائد جیسے کہ گاندھی جی کیا کرتے تھے ہمیشہ صف اول میں بذات خود گرفتاری دیتا ہے 
لانگ مارچ کا آغاز ہوا پنجاب میں پرویز الٰہی کی حکومت تھی وزیر آباد میں فائرنگ ہوتی ہے جس میں ایک کارکن ہلاک ہوتا ہے اور عمران خان ٹانگ میں گولی لگنے سے زخمی اور فریکچر کی رپورٹ شوکت خانم ہسپتال سے پریس میں آتی ہے فریکچر 9مئ تک رہتا ہے لیکن اس دن صورت حال مختلف ہوتی ہے پاؤں کے بل بھاگتے ہوئے رینجرز کی تحویل میں لیے جاتے ہیں 
کیا قومی اسمبلی کے تحلیل کا عمل درست تھا
کیا پنجاب اور پختونخوا کے اسمبلیوں کو توڑنے کا اعلان مناسب تھا 
9مئ تک یقیناً ملک کے مقبول ترین کردار تھے لیکن انانیت خودسری اور قریب ترین ساتھیوں سے مشاورت کے بغیر اور ” غیبی امداد”کے منتظر رہنا یہ وہ کیفیت تھی جس سے عمران نکل نہیں سکا
اردگرد موجود ریٹائرڈ فوجیوں اور دیگر عناصر کی منصوبہ بندی گرفتاری کی صورت میں کیا ہو گی وہ سب 9 مئ کے بلوے جلاؤ گھیراؤ کی صورت میں عملاً ملک میں ہر شہر میں ہؤا نشانے پر فوجی تنصیبات اور یادگار تھے پشاور میں البتہ ریڈیو پاکستان کو جلایا گیا سہولت کاروں نے دیدہ دانستہ نشاندھی کی تھی ہجوم کو آنہیں مقامات پر لے گئے 
ورنہ اس سے قبل بھی پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں لیکن تمام تر مظاہرے پشاور میں خیبر بازار قصہ خوانی بازار ہشت نگری بازار تک محدود ہوتے ہیں لیکن اس وقت اہداف کچھ اور تھے 
بیرون ممالک میں مقیم بلاگرز یقین دہانیاں کرا رہے تھے کہ فوج کے اندر سے بغاوت ہو گی 
لیکن معملات الٹے ہوگئے معروضی حالات نے پلٹا کھایا اور لائن کٹ گئی
اب دھڑا دھڑ وکٹیں گر رہی ہیں  اور قریبی ساتھی پارٹی چھوڑ رہے ہیں 
اس وقت قومی اسمبلی یاد آگئی ہے صوبائی اسمبلیوں کے توڑنے کا عمل غلطی تھی لیکن سیاست جب بیساکھیوں پر کھڑی ہو تو انجام یہی ہوتا ہے۔