پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب شعبہ خواتین کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل و سابق ایم پی اے اور ضیاء آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کرنے والی  فیصل آباد کی ممتاز سیاسی فیملی، اسیران شاہی قلعہ زبیدہ ملک کی بہو ، شفیق ملک و رفیح ملک  کی بھابی اور ہارون ملک کی اہلیہ محترمہ نور النسا ملک جو گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی ذاتی جدوجہد ، سیاسی و تنظیمی کارکردگی اور پارٹی سے اٹوٹ کمٹمنٹ کی بناء پر سیاسی و صحافتی حلقوں میں کلیدی مقام حاصل کر چکی ہیں، سے ایک انٹرویو کے دوران بی بی شہید کی برسی کے موقع پر محترمہ کی شخصیت ،  ان سے کی گئی ملاقاتوں ، ذاتی مشاہدات اور احساسات  کے بارے میں `دیپک` نے سوال کیا تو پی پی پی پجناب کی رہنما نے عقیدت و احترام اور دکھ سے مرصع جذبات کے ساتھ جواب دیتے ہوے کہا کہ میری اپنی خالہ  و ساس اورسابق ایم پی اے  زبیدہ ملک سے میری کمسنی میں بہت وابستگی تھی . میرا زیادہ وقت انہی کے گھر گزرتا تھا. 13 اپریل 1986 کو بی بی شہید جب جلا وطنی کے خاتمہ کے بعد فیصل آباد میں جلسہ سے خطاب کرنے تشریف لائیں میں اسکول کی کمسن سٹوڈنٹ تھی. بہت شوق سے جلسہ گاہ گئی وہاں بی بی کو پہلی بار قریب سے دیکھنے کا اعزاز ملا بعد ازاں شہید محترمہ پارٹی رہنما چوہدری عمر دراز کے گھر آئیں جس کے سامنے میرا اسکول واقع تھا بی بی ٹرک پر سوار تھیں اس دوران جو ولولہ انگیز مناظر دیکھنے کو ملے وہ زندگی کے یادگار لمحات میں بدل گۓ تھے . سن دو ہزار دو میں مجھے پارٹی نے پنجاب اسمبلی کی ممبر منتخب کروایا. دو ہزار تین میں سینٹ الیکشن کے دن قریب تھے. میں ممبرز کے ان گروپ میں شامل تھی جنہوں نے بی بی کی ہدایت کے مطابق سجاد بخاری کو ووٹ دینے تھےمگر پارٹی کے بڑے مس گائیڈ کرتے ہوے ہمیں کسی دوسرے امید وار کو ووٹ دینے کی ترغیب بڑی آفرز کے ساتھ  دے رہے تھے. میں نے ذاتی طور پر اس عمل کے خلاف آواز اٹھائی جو بی بی تک پہنچ گئی. جس پر ایکشن لیتے ہوے انہوں نے ایم پی ایز کی  ایک میٹنگ دبئی کال کر لی . جس میں ہم نے شرکت کی .مجھے بی  بی شہید سے بالمشافہ ملنے کا اعزاز پہلی بار مل رہا تھا.میٹنگ کے  دوران میں انھیں دیکھے جا رہی تھی جن کے چہرے پر ایک شفیق ماں کے جذبات تھے . بات کرنے کے لیے بی بی نے میرا نام نور النسا ملک پکارا تو ساتھ ہی کہا کہ فیصل آباد کی ملک فیملی کی جدوجہد لازوال ہے . ان کی طرف سے پذیرائی نے مجھے دنیا جہاں کی سب سے بڑی مسرت دی. اس کے بعد بینظیر بھٹو شہید کے ساتھ  نومبر دو ہزار سات میں مجھے پورا دن گزارنے کا موقع ملا. جس کا پس منظر بی بی شہید کی طرف سے اسلام آباد سے ایک ریلی نکالنے کی کال تھی. ممبران اسمبلی کو ایک دن قبل اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت ملی تھی . میں پروگرام کے مطابق پہنچ گئی مگر ریلی کے انعقاد کے دن بی بی کو زرداری ہاؤس میں نظر بند کر دیا گیا جبکہ اسلام آباد ، راولپنڈی اور دیگر شہروں سے ہزاروں پارٹی ورکرز کو گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ میں زرداری ہاؤس میں بی بی کے پاس پہنچ گئی تھی. پورا دن ان کے ساتھ گزارا اس دوران خبر ملی کہ زبیدہ ملک ریلی میں شرکت کے لیے اسلام آباد آ رہی تھیں کہ گرفتار کر لی گئی ہیں . جس پر بی بی نے کہا کہ امی ( محترمہ میری خالہ کو امی اور ان کے بیٹوں کو بھائی کہتی تھیں ) کی گرفتاری قابل مذمت ہے . اس موقع پر انہوں نے بحالی جمہوریت کے لیے ہماری فیملی کو حد درجہ سراہا جوہمارا  اثاثہ ہے .نور النسا ملک نے اپنی جدوجہد کی کہانی آگے بڑھاتے ہوے بتایا کہ مشرف دور میں صدر آصف علی زرداری کی واپسی پر ان کا لاہور ایئر پورٹ پر استقبال کرنے کی کال ائی تو میں تیس چالیس خواتین کے ہمراہ صبح سحری کے وقت علامہ اقبال ایئر پورٹ پہنچ گئی بیگم بیلم حسنین بھی ہمارے ساتھ تھیں . ہم سب کو گرفتار کر لیا گیا . بعد ازاں رہائی ہوئی تو لاہورمیں ایک تنظیمی میٹنگ میں شرکت کی جس دوران صدر آصف علی زرداری کی مجھے براہ راست فون کال موصول ہوئی . ان کی طرف سے مجھے لاہور ایئر پورٹ پر،  پرجوش انداز میں خواتین کی بھرپور شمولیت کے ساتھ احتجاج کرنے اور گرفتار ہونے پر اظہار یکجہتی و پذیرائی سے نوازا گیا. انہوں نے مزید بتایا کہ مشرف آمریت کے خلاف مال روڈ پر ایک احتجاجی مظاہرہ میں شرکت کے دوران بھی میری درجن بھر ممبران پنجاب اسمبلی کے ساتھ گرفتاری ہوئی . سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہمیں تھانے سے رہائی دلانے آئے تھے . نور النسا ملک نے بتایا کہ بطور ممبر پنجاب اسمبلی مجھے شیڈو کابینہ میں ذمہ داری سونپی گئی جبکہ پارٹی کی پالیسی کمیٹی کی ممبر بھی رہی  جس سے سیاسی ویژن میں بڑھوتری ہوئی تنظیمی عہدوں پر بھی پوری ایمانداری سے اپنا فریضہ نبھایا جس کا تسلسل جاری ہے  الیکشن دو ہزار اٹھارہ میں پارٹی امیدواروں کو بڑی تعداد میں پولنگ ایجنٹس مہیا کیے جبکہ فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے پانچ حلقوں میں چالیس ہزار خواتین ومردوں کی رکنیت سازی کی جس سے سیاسی مایوسی کا خاتمہ ممکن ہوا. کرونا کے دوران محنت کشوں کے گھروں پر  بلاول بھٹو کی ہدایات کے مطابق راشن پہنچایا . پارٹی کے تنظیمی امور پر گفتگو کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ پی پی پی شعبہ خواتین میں چند عھدے دار فعال ہیں اگر ٹیم ورک کے ساتھ کام کیا جاے تو پنجاب کی خواتین جن کے دلوں پر بی بی شہید راج کرتی ہیں ، کو پارٹی کی جدوجہد کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے مگر پارٹی میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے کام کرنے والے نظر انداز ہو رہے ہیں . اگر ورکر لیول کی سیاسی کارکنوں کو بڑے عھدوں کی ذمہ داری سونپی جاۓ تو تنظیمی کارکردگی  بہترین ہو سکتی ہے پارٹی کے احیاء کے لیے انہوں نے تجویز دی کہ بھٹو فیملی تحصیل سطح پر کارکنوں و عوام میں آئیں ان کا کرزما و محبت عوام میں موجود ہے جس سے پارٹی فعال و مستحکم ہو گی . انہوں نےکہا لاہور کے حالیہ ضمنی الیکشن اس امر کے گواہ ہیں کہ پنجاب کی قیادت راجہ پرویز اشرف اور سید حسن  مرتضی نے جس طرح شبانہ روز عوام اور کارکنوں سے جڑت رکھی    

اس کے نتیجہ میں چوہدری محمّد اسلم گل پارٹی کا ووٹ بنک واپس لانے میں کامیاب رہے نور النسا ملک نے نجی زندگی کے بارے سوال کے جواب میں کہا کہ میری سیاسی کامیابیوں کا تمام تر کریڈٹ میرا لائف پارٹنر ہارون ملک  کو جاتا ہے ان کی طرف سے ملنے والی سیاسی رہنمائی و اعتماد نے ہی مجھے متذکرہ کامیابیوں سے ہمکنار کیا ہے۔