راجکپور نے ایک دفعہ فنکار کے فن میں اس کی زندگی کے در آنے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لوگ ڈائری لکھتے ہیں میں فلمیں بناتا ہوں۔ میری زندگی ان فلموں کا حصہ ہے جہاں ہر واقعہ، ہر رنگ کی چمک ماضی کی یاد میں محفوظ ہو جاتی ہے۔اس حوالے سے جب ہم راجکپور کی  فلم  “میرا نام جوکر ” کا ذکر کرتے ہیں  تویہ فلم دراصل ان کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی تھی۔ فلم کا مرکزی کردار ایک مسخرہ ہے جو دنیا کو اپنے آنسو چھپا کر ہنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ان کا عہد جو دلیپ کمار کی المیہ اداکاری کے سائے میں گھرا رہا، اس میں راج کپور حقیقتاً ایک جوکر ہی کی طرح لوگوں کے لیے مسکراہٹیں تخلیق کرتے تھے تاہم انکا آنسو چھپانے کا فن انہیں دلیپ کمار سے کہیں زیادہ المیہ اور بہادر کردار کا درجہ دے دیتا ہے۔ 
بدقسمتی سے ان کی چھ سالوں میں مکمل ہونے والی فلم ’میرا نام جوکر‘  بری طرح فلاپ ہوگئی،   اپنی پسندیدہ فلم ’میرا نام جوکر‘ کے فلاپ ہونے پر بہت دل برداشتہ رہے  لیکن وہ اپنی طبعی خوش دلی او ر میرا نام جوکرجیسے انداز سے انہیں دل پر سہہ کر آگے بڑھ گئے۔ بعد میں انہوں نے اس تکلیف دہ ناکامی کی راکھ سے اٹھ کر پھرکامیاب فلمیں بنانا سیکھا۔  ”   میرا نام جوکر”کے بعد  انہوں نے  اپنے بیٹے رشی کپور کے ساتھ ایک خوبصورت اداکارہ ڈمپل کپاڈیا کو اپنی فلم ’بوبی‘ میں متعارف کرایا۔ یہ فلم بہت ہٹ ہوئی اور ساتھ ہی بھارتی فلم انڈسٹری کو رشی کپور اور ڈمپل کپاڈیا کی شکل میں ایک خوبصورت جوڑی مل گئی جس نے برسوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔  فلم ’بوبی کے بعد زینت امان کی ’ستیم، شوم، سندرم‘ اور  “رام تیری گنگا میلی” جیسی فلمیں بنائیں۔’حنا‘ راج کپور کی آخری فلم تھی لیکن اِس کا ذمہ وہ اپنے بڑے بیٹے رندھیر کپور کو سونپ چکے تھے۔ ویسے بھی زیبا بختیار کے ساتھ بنائی گئی آر کے پروڈکشن کی اِس فلم سے اُمید کم ہی تھی لیکن یہ فلم بھی کافی چلی۔
راج کپور نے اپنے فنی سفر کا آغاز ہدایت کار کیدار شرما کے اسسٹنٹ کے طور پر کیا اور پھر سن انیس سو انتالیس میں بننے والی انہی کی فلم ’نیل کنول‘ میں ہیرو کے طور متعارف ہوئے۔ اس فلم میں ان کے مدمقابل مدھوبالا پہلی دفعہ ہیروئن کے طور پر آئیں۔
راج کپور نے پہلی دفعہ اپنی فلم ’آگ‘ کی ہدایات دیں جو انیس سو اڑتالیس میں بنائی گئی۔ ایک سال بعد بننے والی ان کی اگلی فلم ’برسات‘ بہت مقبول ہوئی جس میں انہوں نے نرگس کے ساتھ کام کیا۔ اس کے بعد تو جیسے کامیابی کے دروازے ان پر کھلتے ہی چلے گئے اور ان کی ایک مخصوص ٹیم بنتی چلی گئی۔
کہانی اور مکالمہ نگار خواجہ احمد عباس، موسیقار شنکر جے کشن، گیت نگار حسرت جے پوری  و شیلندرا اور گلوکار مکیش و لتا منگیشکر کے بغیر ان کی فلمیں مکمل نہیں ہوتی تھیں لیکن ان تمام فلموں میں راج کپور کے علاوہ بنیادی کردار نرگس کا تھا جسے وہ اپنی فلموں کی ’ماں‘ کا درجہ دیتے تھے۔
’برسات‘ سے راج کپور کی زندگی میں ایک اور شروعات بھی ہوئی۔ اُن کی نرگس کے ساتھ ایک کامیاب سکرین جوڑی بنی۔ اور اِسی دوران راج کپور نرگس کے کافی قریب آ گئے لیکن فلموں سے نرگس کی علیحدگی کی وجہ سے  راج کپور کو کئی سال تک کافی ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
اِنہی دنوں خواجہ احمد عباس نے محبوب خان کے لیے ایک فلم کا سکرپٹ لکھا تھا جس پر آرکے پروڈکشن نے فلم آوارہ بنائی۔اِس فلم نے راج کپور کو چارلی چپلن سے ملتی جلتی ایک نئی شخصیت دے دی ’آوارہ‘ بہت بڑی ہٹ ثابت ہوئی۔اداکاری کےاسی پیٹرن کو اُنہوں نے ’شری 420‘ اور ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ جیسی فلموں کے لیے اِستعمال کیا۔اِسی دوران اِن کی تین اور فلمیں ریلیز ہوئیں جو تھی ’بوٹ پالش‘، ’اب دلی دور نہیں‘ اور ’جاگتے رہو‘۔ تینوں فلمیں زیادہ کامیاب نہ رہیں۔ ’اب دلی دور نہیں‘ اُن کے کیریر کی سب سے کمزور فلم تھی ۔لیکن جب ان کی فلم ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے کامیاب ہوئی اور اس نے باکس آفس پر ریکارڈ بنائے توان کا مشکل دور ختم ہوا۔ اِس فلم میں اُنہوں نے ساوتھ اِنڈیا کی ایک مشہور اداکارہ پدمنی کو ہیروین لیا۔ اُن کی اگلی فلم ’سنگم‘ میں بھی راج کپور نے ساوتھ کی  وجنتی مالا کو کاسٹ کیا۔ یہ فلم ’انداز‘ سے کافی ملتی جُلتی تھی اور باکس آفس پہ بڑی ہٹ رہی۔
 ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ اور ’سنگم‘ کی شوٹنگ کے دوران راج کپور کا نام اُن کی ہیروئینوں سے پھر جوڑا گیا اور بات یہاں تک پہنچی کہ اِن فلموں کے مکمل ہوتے ہی پدمنی اور و جینتی مالا کی اُن کے گھر والوں نے شادی کرا دی۔بالکل اسی طرح جیسے نرگس نےاپنی گھریلو زندگی کو فلم کی دنیا پر فوقیت دیتے ہوئے سنیل دت کے ساتھ شادی کر لی اور  گھر کی ہوگئی تھیں۔ 
 فلموں میں ’کلیپ بوائے‘ کے طور پر اپنی فنی زندگی کا آغاز کرنے والےراج کپور نے  نہ صرف اپنے والد پرتھوی راج کپور کی فنی وراثت کے دباؤ میں اپنا تخلیقی سفر طے کیا بلکہ اس میں اپنے لیے ایک علیحدہ مقام کی تراش خراش بھی کر ڈالی۔ 
  راج کپور کو  ہندوستانی سنیما کا عظیم ترین شو مین کہا جاتا ہے ۔ فلمی مورخین اور فلمی شائقین انہیں ” ہندوستانی سنیما کے چارلی چپلن ” کے طور بھی کہتے ہیں، کیونکہ وہ اکثر آوارہ جیسی شخصیت کو پیش کرتے تھے، جو مشکلات کے باوجود خوش مزاج اور ایماندار تھے ۔ راج کپور کی زیادہ تر فلموں کا موضوع   انسان دوستی ،امید اورحب الوطنی  تھا۔ ان کی فلموں آگ ، شری 420 اور جس  دیش میں گنگا بہتی ہے ،نے فلم دیکھنے والوں کو محب وطن بننے کی ترغیب دی اور نئے آزاد ہندوستان کا جشن منایا۔ کسی تعصب اور بغض کے بغیر مقبول عام انداز کو اختیار کرکے  راجکپور چار دہائیوں تک فلم کے افق پر اداکار اور ہدایتکار کے طور پر راج کرتے رہے۔راجکپور کی زندگی پربھارت میں حکومت کے فلمز ڈویژن نے 1987 میں ایک دستاویزی و فیچر فلم  بنائی گئی ۔اسی طرح14 دسمبر 2001 کو انڈیا پوسٹ کے ذریعے ان کے چہرے پر ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔ اس کے علاوہ ان کے اعزاز کے لیے مارچ 2012 میں ممبئی کے باندرہ بینڈ اسٹینڈ میں واک آف دی اسٹارز میں ان کے پیتل کے مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی۔ 
پشاور میں14 دسمبر 1924ء کو پیدا ہونے والے راج کپور (شری شتی ناتھ کپور)2 مئی  1988 کی رات  ہندوستانی فلموں میں اپنی گراں مایہ خدمات کے لیے داد صاحب پھلکے ایوارڈ لینے کے لیے آئے لیکن دمے کے ایک اچانک دورے کے سبب سٹیج پر آکر اپنا ایوارڈ وصول نہ کرسکے۔ اس سے ٹھیک ایک مہینے بعد وہ دل کا دورہ پڑنے سے 2 جون 1988کواپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔