یکم جنوری 1972 کو، قوم کے نام ایک ٹیلی ویژن تقریر میں، بھٹواورپیپلز پارٹی کی حکومت نے نیشنلائزیشن اینڈ اکنامک ریفارمز آرڈر  کے تحت تین مرحلوں پر مشتمل پروگرام کا اعلان کیا جس کے مطابق  لوہے اور اسٹیل سمیت تمام بڑی دھاتی صنعتوں کو قومیا لیا تھا۔ ہیوی انجینئرنگ، ہیوی الیکٹریکل، پیٹرو کیمیکل، سیمنٹ اور پبلک یوٹیلیٹیزسوائے ٹیکسٹائل انڈسٹری اور زمینوں کے۔ نیشنلائزیشن پروگرام کے پہلے مرحلے میں تقریباً 31 بڑے صنعتی میگا کارپوریشنز، صنعتی یونٹس اور انٹرپرائزز کو حکومت کے براہ راست انتظامی کنٹرول کے تحت 10 مختلف کیٹیگریز کے تحت مربوط کیا گیا۔  اس پروگرام کا مقصد صنعتی میگا کارپوریشنوں پر عوامی ملکیت کو یقینی بنانا تھا، اور ملک میں صنعتی امن کو برقرار رکھنے کے لیے مزدور یونینوں کو مطمئن کرنا تھا۔یہ ستمبر 1973 میں قومیانے کی پالیسی کی طرف پہلا قدم تھا، 26 سبزی گھی یونٹس کو قومیایا گیا۔1974 میں بینکوں کو بھی قومیا لیا گیا۔1976 میں کاٹن جننگ، چاول کی بھوسے، آٹے کی چکی کے 300 چھوٹے یونٹوں کو بھی کنٹرول میں لے لیا گیا۔ برآمدات اور درآمدات کو بھی تجارتی کارپوریشن کے ذریعے حکومت کے کنٹرول میں لے لیا گیا۔ وہ دولت کی تقسیم اور عام آدمی کی خوشحالی کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔
51 سال گزر چکے ہیں نیشنلائزیشن کو کیے ہوئے – نیشنلائزیشن کے خلاف ہمیشہ ایک ہی رخ دکھایا گیا ہے اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کبھی اس کا مثبت رخ دکھانے کی کوشش نہیں کی گئی- راقم اپنے خاندان  بھٹو کے دیوانے تھے راقم الحروف ایک کانونٹ سکول میں سرمایہ داروں کی اولاد کے  ساتھ  پڑھتا تھا جن کی گھٹی میں ہی بھٹو کی مخالفت موجود تھی۔ حالانکہ ان کو سرمایہ دار بھٹو نے ہی بنایا تھا اس سے پہلے یہ روزگار کے  معمولی پیشوں سے وابستہ تھے  لیکن جس نے ان کو ملوں کا مالک بنایا اس کے سب سے بڑے مخالف تھے ان کی اولاد سے بھٹو کے بارے  بحث ہوتی تو میں اکیلا ان سے بحث کرتا تھا۔ سب سے بڑا سوال مشرقی پاکستان کی علحیدگی کا تھا وہ اس کا  ذمہ دار بھٹو کوٹہراتے میں انھیں جواب دیتا لیکن محدود ریسرچ کے باعث مدلل جواب نہیں دے سکتا تھا ۔ پھر ریسرج شروع کی اس کا جواب اعدادوشمار اور مستند حوالوں کے ساتھ دیتا . بعد ازاں  پاکستان کیوں ٹوٹا پرتفصیلی  ریسرچ ورک کیا  جو نیٹ پر موجود ہے ۔ دریں اثنا  ذوالفقارعلی بھٹو کی نیشنلائزیشن کے خلاف سخت ترین یکطرفہ پروپیگنڈا کیا جاتا تھا ، نیشنلائزیشن کی پالیسوں کو معیشت کا قاتل پالیسی کے طور پر پیش کیا گیا- اس پالیسی کے حق میں قابل ذکر اورمتبر آواز سوائے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چوہدری منظور احمد  کے نہیں  اٹھی۔ یہ بڑا مشکل موضوع  تھا ۔ اس کا تقابلی جائزہ ایوب خان کے دور1960-1968 کے ساتھ تھا جس کو ایک سنہری دور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور پاکستان کے سنہری دور کے طور پر پراپیگنڈا کے گیت گائے جاتے ہیں۔ ان سب کے اعداد وشماراکھٹے کر کے بھٹو حکومت 1972-1977 کے اعداد وشمار کے ساتھ تقابل کرنا تھا اور اس دور کے پاکستان کے عام آدمی کے  حالات کا جائزہ لینا تھا ۔ کافی مرتبہ کوشش کی لیکن مناسب اعدادوشمار نہ ملنے کے باعث اس آئیڈیا کو ڈراپ کر دیتا تھا- اکتوبر 2022 کو چوہدری منظور احمد  سے اس موضوع پر بات ہوئی انہوں نے مجھے تحریک دی اورمیری حوصلہ افزائی کی  6 ماہ لگے اس پر ریسرچ  پر،یہ موضوع طریل ہے  اعدادوشمار اور  حوالوں کے ساتھ  قارئین کے لیے پیش ہے۔
ایوب خان کی نام نہاد اقتصادی ترقی کا جائزہ اور اس کا بھٹو کی نیشنلائزیشن کی پالیسی کا تقابلی جائزہ لینے کے لیے ہمیں ہر شعبے کا کا جائزہ تفصیلا’ لینا ہوگا
اس لئے سب سے پہلے ملک کی ریڑھ کی ہڈی یعنی زراعت اور فصلوں کی پیداوار کا جائزہ لینا ہوگا۔
سندھ طاس معاہدہ
پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان ، بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور عالمی بینک کے صدر کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر 19 ستمبر 1960 کو دستخط ہوئے تھے جس سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تعمیری منصوبہ شروع ہوا تھا-سندھ طاس معاہدہ یا Indus Water Treaty کے مطابق منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کے علاوہ پانچ بیراج ، ایک سائفن اور آٹھ الحاقی نہریں بنائی گئی تھیں۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں ، سندھ ، جہلم اور چناب کے پانیوں پر پاکستان اور تین مشرقی دریاؤں ، راوی ، ستلج اور بیاس کے پانیوں پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔ بدلے میں بھارت نے پاکستان کو 62 لاکھ پونڈ ادا کیے تھے جو 125 میٹرک ٹن سونا کے برابر تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو دس سال کا عرصہ بھی دیا گیا تھا جس میں الحاقی نہروں کی تعمیر سے راوی اور ستلج کی پیاس بجھائی گئی تھی۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ورلڈ بینک کے علاوہ برطانیہ ، امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور مغربی جرمنی نے بھی فنڈنگ کی تھی۔یاد رہے کہ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ، انگریزوں کا اس خطے پر بہت بڑا احسان تھا جو چار کروڑ پچاس لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو سیراب کرتا ہے۔ 1909 میں شروع ہونے والے اس عظیم منصوبے کے ذریعے دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم کےعلاوہ 85 چھوٹے ڈیم ، 19 بیراج ، 45 نہریں ، 12 رابطہ نہریں اور 7 لاکھ ٹیوب ویل قائم کئے گئے ہیں۔ 1932 میں سکھر بیراج مکمل ہوا تھا جو دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا منصوبہ سندھ طاس معاہدہ تھا-عام طور پر جنرل ایوب خان کو یہ کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ ڈیم بنائے تھے جبکہ تاریخی حقیقت یہ تھی کہ موصوف کا اس ضمن میں جو کردار تھا وہ صرف ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا جس پر قیام پاکستان کے وقت سے کام ہورہا تھا۔ منگلا یا تربیلا ڈیمز بنانا کسی طور بھی جنرل ایوب خان کے کارنامے نہیں ہیں ، نہ ہی ان کی سوچ ، خیال یا ارادہ تھا بلکہ محض ایک اتفاق تھا کہ اس وقت وہ ، صدر پاکستان تھے جب اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔
 (جاری ہے)