مقبول عام انقلابی ناول ‘ماں’ کے مصنف میکسم گورکی  کی زندگی پر ایک نظر

میکسم گورکی روس کا مشہور انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی ، جس کی  تحریروں نے دنیا کے بہت بڑے حصے کو متاثر کیا، انقلاب میں ایک نئی روح پھونک دی اور دنیا کے مظلوم طبقے و پسے ہوئے لوگوں میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کردی جس کی بازگشت آج تک جاری ہے۔
 میکسم گورکی نیزنی نوف گورود، روسی سلطنت میں 28 مارچ 1868ء کو پیدا ہوا۔میکسم گورکی کا اصل نام الیکسی میکسیمووچ پیشکوف تھا۔ گورکی کا باپ جہازران کمپنیوں کا ایجنٹ  تھا۔ لیکن وہ جلد ہی انتقال کرگیا   جب  میکسم گورکی کی عمر چار پانچ سال تھی ،باپ کی موت کے بعد اس کی ماں اسے لیکر اپنے باپ کے پاس آگئی  ، جو نیزنی نوف گورود میں ہی رنگریزی کا کام کرتا تھا۔گورکی کے نانا کی حالت اس وقت اچھی نہ تھی، غربت اورافلاس نے اس کے بوڑھے نانا کو بے حد چڑچڑا اور بد مزاج بنا دیاتھا  وہ  ہراس شخص پراپنا غصہ اُتارتا تھاجس پراسکا بس چل جاتا تھا۔اور اس کے اسی مزاج کا کئی بار گورکی کو بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے لیے  یہ کوئی  سراسر بدقسمتی نہ تھی کیونکہ اگر اسے ایک طرف نانا کی ناگوار باتیں سننا اور سختیاں برداشت کرنا پڑتا تھا تو دوسری طرف نانا کی محبت میں اس کے لیے ایک ایسا ٹھکانا تھا جہاں پہنچتے ہی دل کا دکھ اور ظلم کا خوف اسی طرح دور ہو جاتا جیسے ڈراؤنے خوابوں کی وحشت سے آنکھ کُھل جائے۔اپنے باپ کے پاس تھوڑے دن رہنے کے بعد گورکی کی ماں نے دوسری شادی کرلی لیکن وہ بھی  جلد ہی دق کا شکار ہو کر انتقال کرگئی۔ نانا نے موقع غنیمت جانا اور گورکی کو گھر سے نکال دیا۔ اس وقت سے جو انی تک کی سرگزشت گورکی نے دو ناولوں میں بیان کی ہے، بچپن اور منزل کی تلاش اور ایسے ناولوں کے لیے اس کی سرگزشت سے بہتر موضوع ملنا بہت مشکل ہے۔
 میکسم گورکی کی زندگی میں آنے والا سب سے پہلا شخص  ایک باورچی تھا جس نے نوجوان گورکی کی تعلیم پر توجہ کی اور یہ اسی کا احسان تھا کہ گورکی  پڑھنا لکھنا سیکھ گیا۔۔اس سے گورکی کی ملاقات  ایک جہاز کے باورچی خانے میں ہوئی جہاں وہ کئی مہینے برتن دھو کر پیٹ پالتا رہا۔   برتن دھونے کا کام ایسا تھا کہ گورکی سے ہوتا نہ تھا، وہ اس کام سے پیچھا چھڑا کر کسی شہر میں ایک ایسی عورت کے پاس نوکر ہو گئے جہاں شعر و شاعری اور موسیقی کا خاصا چرچا رہتا تھا اور گورکی کو ادب سے خاص لگاؤ پیدا ہو گیا، جس نے تعلیم کے شوق کو بہت بڑھادیا۔  پندرہ برس کی عمر میں گورکی نے شہر کازان کے ایک اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اور تعلیم سے مایوس ہوکر اس نے ایک نان بائی کے یہاں ملازمت کرلی۔ جن لوگوں میں وہ یہاں رہتا تھا انھیں تو بھوک اور محنت کی زیادتی نے بے جان کر دیا تھا، لیکن گورکی کو چند ایسے طالب علموں سے ملنے کا اتفاق ہوا جنھوں نے اس کے ذہن میں انقلاب پسندی کے بیج بو دیے۔ گورکی نے نان بائی کی دکان کو خیرباد کہا اور جنوب و جنوب مشرقی روس میں دو تین سال تک بے کار پھرتا رہے۔ 1890ء میں وہ نووگورود کے ایک وکیل کا محرر ہو گیا اور وکیل کی ہمدردی اور ہمت افزائی کی بدولت اس کی علمی اور ادبی قابلیت اتنی ہو گئی کہ وہ افسانے لکھنے لگا۔ 1892ء میں اس کا پہلا افسانہ شائع ہوا۔ اگرچہ اس وقت وہ پھر آوارہ گردی کرنے لگا تھا لیکن اس نے افسانہ نویسی بھی جاری رکھی۔ تین سال کے اندر گورکی کو افسانہ نگاری سے خاصی آمدنی ہونے لگی۔ 1898ء میں اس کے افسانوں کا مجموعہ دو جلدوں میں شائع ہوا اور کچھ عرصے کے اندر وہ روس ہی میں نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ غیر ممالک میں مشہور اور ہر دل عزیز ہو گیا۔ادبی حیثیت بڑھی تو گورکی پیٹرز برگ میں آکر رہنے لگا۔ یہاں اس کے انقلاب پسندوں سے تعلقات ہو گئے۔ وہ خود کارل مارکس اور اشتراکیت کی تعلیم کا معتقد ہو گیا اور اس کی آمدنی کا بیشتر حصہ سیاسی کاموں اور انقلاب انگیز خیالات کی اشاعت میں صرف ہونے لگا۔  
گورکی کے ابتدائی افسانے روس کے جاہل اور غریب طبقے کا حال اسی طرح بتاتے ہیں جیسے دریا کی تہ سے مٹی اور گھونگھے جو جال کے ساتھ نکل آتے ہیں۔ چلکاش (1895ء)، ہم سفر (1896ء) اور مالوا (1897ء) گورکی کے پہلے افسانوں کے مجموعے ہیں اور یہ زیادہ تر اس آوارہ گردی کی یادگار ہیں جو گورکی نے اوڈیسہ اور جنوبی روس میں کی تھی۔ گورکی نے صرف تین کتابیں اور لکھیں جن میں سے ایک میں تالستائی،کورولینکو، چیخوف اورآندریئف وغیرہ سے اس کی جو ملاقاتیں ہوئیں، ان کے کچھ حالات ہیں، دوسری کتاب زندگی کی شاہراہ پر اور تیسری روزنامچہ ہے۔ ان میں جگہ جگہ پر افسانے اور ناول کا رنگ دکھائی دیتا ہے، لیکن  متفرق مضامین،  میں تو اس نے کمال ہی دکھایا  ہے  جہاں بڑھاپے کے مشاھداتی تاثرات بھی  بھرپور ہیں۔ لیکن سب سے اھم گورکی کا ناول ماں (1907ء) جوایک زمانے  سے آج بھی انقلابی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔