بلوچستان میں پنجابیوں کا قتل کیوں؟
 دہشت گردی کی طرح  دہشت گردوں کے سامنے  اداروں کی بے بسی بھی ناقابل قبول ہے۔
پنجابی ہونے کے ناطے،پنجاب کی  دھرتی،  اس کی رہتل، یہاں بولی جانے والی پنجابی زبان اورثقافتی ورثے کے تمام اجزا سے قدرتی لگاؤ ہے۔ اسی پنجاب کی دھرتی پر پیدا ہونے والے  صوفی شاعروں نے رنگ، نسل، قوم، ذات اور مذہب کی تفریق کیے بغیرتمام انسانوں سے محبت کرنے کا جو لازوال پیغام دیااس پر ہمیشہ  فخر رہا ہے۔ پنجاب کے ثقافتی ورثے سے جڑے ہر جز سے محبت اور عقیدت کے باوجود کبھی ذہن میں یہ خام خیال پیدا نہیں ہوا کہ اس دھرتی پر بسنے اور پیدا ہونے والے پنجابیوں کو ایسا کوئی سرخاب کا پرلگا ہے کہ انہیں اس ملک میں بسنے والی دیگر تمام قوموں سے برترمان کر ان کے استحقاق کو سب سے افضل سمجھا جائے۔ پنجاب  کے سیاسی شعور کے متعلق چاہے کوئی کچھ بھی سوچے مگر پنجابیوں کے لیے  یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کی غالب اکثریت خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے جیسی سوچ سے کوسوں دور ہے۔ایسے عام پنجابیوں کے لیے اپنے دل میں خود ساختہ اور بلاوجہ نفرت پالنے والے لوگ اگر انہیں صرف پنجابی ہونے کی بنا پر  انتہائی بے دردی سے قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں تو ان کاروائیوں کو کسی طرح بھی قابل برداشت، قابل قبول اور قابل جواز نہیں سمجھا جاسکتا۔ ایسی ہی  ناقابل جواز اور ناقابل برداشت کاروائیوں کے تسلسل میں   12 اپریل کوکچھ دہشت گردوں نے، 9 پنجابیوں کو کوئٹہ سے تفتان جانے والی بس سے نیچے اتارا  اور کچھ فاصلے پر لے جاکر انتہائی بے دردی سے ہلاک کردیا۔
 
بیسیوں عام پنجابی،2006 کے بعد  بلوچستان میں  اسی طرح کی کئی کاروائیوں کے دوران انتہائی سفاکی سے ہلاک کیے گئے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اگست 2006 میں نواب اکبر بگتی کے قتل کے بعد مئی2019 تک محنت مزدوری کی غرض سے بلوچستان جانے والے جن 209 غیر مقامی لوگوں کو قتل کیا گیا ان میں سے 178 پنجابی تھے  جبکہ بقایا میں  سب سے زیادہ تعداد سندھیوں  اور اس کے بعد کے پی کے سے آنے والے لوگوں کی تھی۔ اس دوران بلوچستان میں ہلاک کیے جانے والے غیر مقامی لوگوں  میں،سی پیک پراجیکٹ پر کام کرنے والے کچھ چینی باشندے بھی شامل تھے۔
بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل کے جن واقعات کا  میڈیا پر  زیادہ ذکر ہوا وہ کچھ یوں ہیں۔ نوشکی کے حالیہ واقعہ سے پہلے بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل کا آخری واقعہ  اکتوبر 2023 میں ہوا جس میں 6 پنجابی مزدور تربت میں ہلاک کیے گئے۔ اسی طرح دسمبر 2022 میں بھی پنجگور میں پنجابیوں کو قتل کیا گیا۔ 18 اپریل 2019 کو اورماڑہ سے گوادر کے درمیان کوسٹل ہائی وے پر 16 پنجابیوں اور سندھیوں کو بس سے اتار کر قتل کیا گیا۔4 مئی 2018کو خاران کے علاقے لاجے میں اوکاڑہ پنجاب سے محنت مزدوری کے لیے وہاں گئے ہوئے6 مزدور سوتے میں گولیاں مار کر ہلاک کیے گئے، 31 اکتوبر 2018 کو گوادر کے قریب ایک زیر تعمیر مکان میں سوئے ہوئے پانچ پنجابی مزدوروں کو گولیاں مار کر ہلاک کیاگیا۔  نومبر 2017 میں بلوچستان کے ضلع تربت میں 15 پنجابیوں کے قتل کا اندہناک واقعہ سامنے آیا، مئی 2017 میں گوادر میں ایک سڑک کی تعمیر کے لیے مزدوری کرنے والے 10 سندھی محنت کش اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیئے گئے۔ گو کہ نوشکی میں پنجابیوں کی حالیہ ہلاکت کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی مگر قبل ازیں بلوچستان میں پنجابیوں یا دیگر غیرمقامیوں کے قتل کے جتنے بھی واقعات  ہوئے  ان کی ذمہ داری کوئی نہ کوئی بلوچ قوم پرست مسلح تنظیم قبول کرتی رہی۔

بلوچستان میں پنجابیوں کو قتل کرنے کے جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے انہیں دہشت گردی کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جاسکتامگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ یہاں انسانی حقوق کے وہ نام نہاد چیمپئن  ایسے واقعات کو دہشت گردی کہتے  ہوئے شرما جاتے ہیں جو بصورت دیگر کسی فرد یا گروہ کی بے گناہ موت کو واجب طور پر دہشت گردی قراردیتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ یاد رہے کہ  مارچ 2019 میں، نیوزی لینڈکی مسجد میں ایک نسل پرست گورے کے ہاتھوں پچاس نمازیوں کے قتل کے بعد جب وہاں کا میڈیا اس گورے کو دہشت گرد قراردینے کی بجائے ذہنی مریض کہنے کی طرف مائل تھا، اس وقت وہاں کی خاتون وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے”چونکہ، چناچہ“کا عذر پیش کیے بغیر یہ کہا تھا، میں سب پر واضح کردینا چاہتی ہوں کہ پچاس لوگوں کے قتل کے واقعہ کو دہشت گردی کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جاسکتا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن نے کرائسٹ چرچ مسجد کے قتال کے بعد جو کچھ کہا  اگر اس کو مد نظر رکھا جائے تو پھر پنجابی ہونے کی شناخت پر بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے والوں کے ساتھ نہ تو ان کی قومیت لگانے کی ضرورت ہے، نہ یہ یادرکھنا ضروری ہے کہ جس قوم کے ساتھ ان کا تعلق ہے اس میں احساس محرومی کی کیا صورتحال ہے اور نہ ہی یہ عذر پیش کیا جانا چاہیے کہ وہ کس پس منظر کی بنا پر دہشت گردی کی طرف مائل ہوئے۔جن لوگوں  نے معصوم اور بے گناہ پنجابیوں کو قتل کیا ان کے عمل کو کسی بھی قسم کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی بجائے ان کی شدید الفاظ میں مذمت ہونی چاہیے اور ان کی سفاکی کو اسی طرح غیر انسانی فعل تصور کیا جانا چاہیے جس طرح القاعدہ، طالبان اور داعش کی دہشت گردی کو سمجھا جاتا ہے۔ دہشت گردی کا ارتکاب،مذہب، رنگ، نسل، ذات، قومیت یا علاقائیت سمیت کسی بھی بنیاد پر کیوں نہ کیا گیا ہو اس کو ہر صورت میں قابل نفرت اور ناقابل قبول قرار دیا جانا چاہیے۔

 
دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ دہشت گردوں کی سرکوبی جن لوگوں کی ذمہ داری ہے وہ آخر کیوں عرصہ دراز سے جاری ایک ہی طرح کی دہشت گردی روکنے میں  کامیاب نہیں ہو سکے۔ بلوچستان میں، دہشت گردی کے واقعات  چاہے فرقہ ورانہ ہوں یا قوم پرستانہ، عام دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت گرد بسیں روک کر  اپنے ٹارگٹ کی شناخت کرتے ہیں اور پھر انہیں سڑک سے کچھ فاصلے پر لے جا کر گولیاں مار دیتے ہیں۔ ایسے واقعات تسلسل سے رونما ہونے کی وجہ سے یہ بات ذہن میں آتی ہے  کہ شاید ہمارے سیکیورٹی اداروں کے پاس بسوں کو نشانہ بنانے جیسی کاروائیوں کا کوئی توڑ نہیں ہے اور دہشت گرد اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ واضح رہے کہ  جس طرح دہشت گردی کی ہر شکل ناقابل برداشت ہے اسی طرح دہشت گردوں کے سامنے ہمارے اداروں کی بے بسی بھی ناقابل قبول ہے۔

 

یہ بات طے ہے کہ جس طرح بلوچستان کے شہریوں کو ملک کے دیگر حصے میں جانے سے نہیں روکا جاسکتا اسی  طرح پنجابیوں کے بلوچستان جانے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ بلوچوں کے تحفظات اور مسائل غیر منطقی ہر گز نہیں ہیں، یہ منطقی مسائل فوجی آپریشنوں کی بجائے سیاسی طور پر حل  کیے جانے چاہئیں لیکن  اگر کوئی  قوم پرستی کے نام پر بلوچستان میں پنجابیوں کا خون بہاتے رہنا چاہتا ہے تو پھر یہی سوچا جائے گا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کا خاتمہ اس کی ترجیح ہر گز نہیں