سلطان راہی پاکستانی پنجابی فلموں کے “سلطان اعظم”  تھے، جنہوں نے اپنے چالیس سالہ فلمی کیریئر میں آٹھ سو سے زیادہ فلموں میں کام کیا جو سالانہ بیس فلموں کی ناقابل یقین اوسط بنتی ہے۔ 
ہدایتکار مظفر طاہر کی پنجابی فلم “جبرو” میں سلطان راہی کی پہلی بار پردہ سیمیں پر ایک جھلک دکھائی دی ۔ یہ فلم 6 جولائی 1956ء کو لاہور اور 20 جولائی 1956ء عید الضحیٰ کے دن کراچی میں رلیز ہوئی۔ 
جس کے بعد 14 ستمبر 1956ء کو رلیز ہونے والی فلم فلم “باغی” میں چند سیکنڈ کے لیے ایک ایکسٹرا اداکار کے طور پر نظر آئے۔ یہ کوئی منفرد اور انوکھی مثال نہیں تھی کیونکہ متعدد دیگر بڑے فنکار بھی ایکسٹرا اداکاروں کے طور پر سامنے آئے تھے۔ لیکن مسلسل بارہ سال تک چھوٹے موٹے کرداروں میں سو سے زائد فلموں میں کام کرنا ایک منفرد مثال تھی۔ 
فلم بدلہ (1968ء) میں پہلی بار مرکزی ولن تھے اور صرف پانچ برسوں میں ملے جلے کرداروں میں بھی سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ 
فلم بشیرا (1972ء) سے عروج ملا اور صرف سات برسوں میں مختلف النوع مرکزی کرداروں میں سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ 
فلم وحشی جٹ (1975ء) نے پنجابی فلموں کا انداز بدل کر رکھ دیا تھا اور وہ  ایکشن فلموں کے بے تاج بادشاہ بن گئے تھے۔ پانچ سو سے زائد فلموں میں ایک جیسے کردار کیے اور فلم بین پھر بھی بور نہیں ہوئے۔ 
فلم مولاجٹ (1979ء) نے ایسا عروج بخشا کہ جس کی کوئی دوسری مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ 
مسلسل دو عشروں تک بام عروج پر رہے۔ اس دوران ایک کیلنڈر ائیر میں سب سے زیادہ فلموں میں کام کیا اور صرف تین برسوں میں سو فلموں میں کام کرنے کا بے مثل ریکارڈ بھی قائم کیا۔ 
سلطان راہی کی بے وقت موت سے فلم انڈسٹری کو جو نقصان پہنچا ، وہ کبھی کسی دوسرے فنکار کے انتقال سے نہیں ہوا تھا ۔ 
سلطان راہی کی داستان حیات اور فلمی ریکارڈز اپنے اس مختصر آرٹیکل میں تحریر کرنا تو ناممکن ہے اس کے لیے کسی ضخیم کتاب  کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے آج کے مضمون میں اس عظیم فنکار کی سال بہ سال کارکردگی اور اہم واقعات کا اختصار کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں۔ 
1956ء سے 1967ء تک کے بارہ برسوں میں سلطان راہی کی سو سے زائد فلموں میں گنی چنی چند فلمیں ہی ایسی تھیں جن میں کوئی قابل ذکر کردار تھا۔ عام طور ایک آدھ سین میں بغیر کوئی مکالمہ بولے نظر آتے۔ کسی ولن پارٹی کے فائٹر ہوتے یا زیادہ سے زیادہ کسی معاون کردار میں ہوتے تھے۔ فلم جنج (1966ء) میں پہلی بار کوئی اہم رول ملا تھا۔ فلم وطن کا سپاہی (1966ء) میں مشہورزمانہ میلاد شریف میں شامل تھے “یا نبی سلام علیک ، یا رسول سلام علیک ” فلم چاچا جی اور چن جی (1967ء) میں بوڑھے کرداروں نظر آئے اور فلم حاتم طائی (1967ء) میں سامری جادوگر کے معاون کے طور پر تھے۔
​1968ء میں سلطان راہی کو اہم کردار ملنا شروع ہوگئے تھے اور دو درجن فلموں میں نظرآئے تھے۔ فلم بدلہ (1968ء) میں پہلی بار مرکزی ولن تھے۔ جبکہ یوسف خان اور سلونی کی روایتی جوڑی تھی۔ 
1969ء میں سلطان راہی ایک ولن کے طور پر اپنی پہچان کروا چکے تھے اور ڈیڑھ درجن فلموں میں زیادہ تر مرکزی ولن تھے۔ ایسی فلموں میں عالیہ اور اقبال حسن کی جوڑی کی پہلی فلم “دھی رانی” (1969ء) قابل ذکر تھی۔ اس دور کی پنجابی فلموں میں ولن کے طور پر مظہرشاہ کی اجارہ داری ہوتی تھی اور ان کی بڑھک بڑی مشہور ہوتی تھی ۔ سلطان راہی  بھی  انھی  سے متاثر تھے اور کسی نہ کسی تکیہ کلام اور بڑھک کے ساتھ ولن کے طور پر نظر آتے تھے۔
1970ء میں ایک بار پھر ڈیڑھ درجن فلموں میں نظرآئے تھے۔ ہدایتکار اسلم ڈار نے پہلی بار سلطان راہی کو فلم آخری چٹان میں اداکارہ ترانہ کے مقابل سیکنڈ ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا ، پہلی جوڑی رانی اور نصراللہ بٹ کی تھی۔ دیگر فلموں میں ولن تھے جن میں ات خدادا ویر ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جس میں سلطان راہی نے ینگ ٹو اولڈ ولن کا بھرپور رول کیا تھا۔
1971ء میں بھی سلطان راہی نے ڈیڑھ درجن فلموں میں کام کیا تھا۔ فلم بھائیاں باج نہ جوڑیاں میں اقبال حسن کے مقابل سیکنڈ ہیرو تھے لیکن باقی فلموں میں ولن کے طور پر نظر آئے تھے۔ فلم بابل کے ایک ثانوی کردار نے سلطان راہی کو فلمسازوں کی ضرورت بنا دیا تھا۔ فلم دیس میرا جیداراں دا میں سلطان راہی کی بڑھک “میں اکھاں پھیراں تے دھرتی ہل جاندی اے” ہمیشہ یاد رہی۔
1972 کا سال ، سلطان راہی کے لیے ایک انتہائی یادگار سال تھا جب وہ ایک عام اداکار سے ایک خاص اداکار بن گئے تھے۔
فلم بشیرا کے ٹائٹل رول نے سلطان راہی کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ اس کردار میں پہلے اداکار ساون کو کاسٹ کیا گیا تھا لیکن معاوضے پر بات نہ بن سکی تھی اور ہدایتکار اسلم ڈار  نے سلطان راہی کو دس گنا کم معاوضہ دے کر ایک بہت بڑی فلم بنا ڈالی تھی جس نے سلطان راہی کی قسمت ہی بدل کر رکھ دی تھی۔
فلم سلطان ، ہیرا اور راجو میں بھی سلطان راہی نے ٹائٹل رولز کئے تھے جبکہ فلم سر دھڑ دی بازی میں وہ ناہید کے ساتھ معاون ہیرو تھے۔
فلمساز حمید چودھری کی فلم زندگی کے میلے پہلی اردو فلم تھی جس میں سلطان راہی ، ہیرو کے طور پر نظر آئے تھے۔ ​اس سال ، سلطان راہی کی دوردرجن فلموں میں سے بیشتر فلموں میں ولن کے طور پر نظر آئے تھے۔ خان چاچا ، خون پسینہ ، ٹھاہ اور جنگو میں بڑے خوفناک ولن ثابت ہوئے تھے۔
1973ء میں بھی سلطان راہی کی ڈیڑھ درجن فلمیں تھیں جن میں وہ ہیرو ، ولن اور کیریکٹرایکٹر کرداروں میں نظر آئے تھے۔ فلم زرق خان اور سادھو اور شیطان اردو فلمیں تھیں جن کے وہ فرسٹ ہیرو تھے لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ موخرالزکر فلم میں انھوں نے اپنا اکلوتا فلمی گیت گایا تھا جس کے بو ل تھے “بہنا ، بھیا کی پیاری بہنا ، یہی دعا ہے سسرال میں جا کے سدا سکھی تم رہنا ۔  فلم میں دوسری بار یہی گیت مہدی حسن کی آواز میں سلطان راہی پر فلمایا گیا تھا۔
فلم خون دا دریا بھی راہی کی ایک نمایاں فلم تھی۔ اسی سال گجر برانڈ  فلموں میں سے پہلی فلم بالا گجر میں سلطان راہی نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ فلم پہلا وار کے لیے سلطان راہی نے ٹنڈ کروائی تھی جو بڑی مشہور ہوئی تھی۔​
1974ء میں ایک بار پھر سلطان راہی ، سوا درجن فلموں میں کاسٹ ہوئے اور زیادہ تر معاون اداکار کے طور دیکھے گئے تھے۔ فلم دل لگی میں وہ ایک بوڑھے کردار میں تھے۔ سدھا رستہ ایک بہت بڑی فلم تھی جبکہ بابل صدقے تیرے میں عالیہ کے باپ کے کردار میں انھوں نے لاجواب کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ 
1975 کا سال سلطان راہی کے لیے ایک اور یادگار سال تھا جب ابتدائی ناکامی کے بعد بطور ہیرو ان کی پوزیشن مستحکم ہوگئی تھی۔ اس سال کی ایک درجن فلموں میں سے فلم وحشی جٹ سپرہٹ ہوئی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی پنجابی فلم کے ٹائٹل میں لفظ “وحشی” آیا تھا جبکہ لفظ “جٹ” پہلی بار کسی ایکشن فلم کے لیے استعمال ہوا تھا۔ اس فلم نے انتہائی پرتشدد فلموں کو فروغ دیا تھا اور سلطان راہی بطور ہیرو  ایسی فلموں کی فرسٹ چوائس ہوتے تھے۔ اسی فلم سے سلطان راہی کی آسیہ کے ساتھ جوڑی بڑی مقبول ہوئی تھی اور ان دونوں نے ستر سے زائد فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔
فلم شریف بدمعاش میں سلطان راہی نے پہلی بار مصطفیٰ قریشی کے ساتھ کاسٹ ہوئے تھے۔ (اس سے قبل اسی سال رلیز ہونے والی ھدایتکار اقبال کشمیری کی فلم ریشماں جوان ہو گئی کی کاسٹ میں بھی یہ دونوں فنکار شامل تھے لیکن اس فلم میں سلطان راہی مہمان اداکار تھے) اس مشہور زمانہ جوڑی کی 169 مشترکہ فلمیں ہیں۔
1976ء میں سلطان راہی کو دو درجن فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس سال ایکشن فلموں کے ہیرو کے طور پر سلطان راہی کی اجارہ داری قائم ہوچکی تھی۔ سب سے بڑی فلم ان داتا تھی جس کا ٹائٹل رول پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو سدھیر نے کیا تھا اور سلطان راہی نے ان کے بیٹے اور نائب کا کردار کیا تھا۔ ایک سپرہٹ فلم ہونے کے باوجود اردو فلموں میں سلطان راہی کو مطلوبہ کامیابی نہیں مل سکی تھی لیکن پنجابی فلموں میں ماضی کے سبھی بڑے بڑے برج الٹ دیے تھے۔
فلم راستے کا پتھر میں سلطان راہی نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ باغی تے فرنگی اور ٹھگاں دے ٹھگ بھی راہی کی اس سال کی نمایاں فلمیں تھیں ۔ اسی سال سلطان راہی نے بطور فلمساز اپنی واحد فلم تقدیر کہاں لے آئی بنائی تھی جس کے ہدایتکار حسین ناصر تھے۔ سلطان راہی ، دیبا کے ساتھ سولو ہیرو تھے۔ یہ فلم بری طرح سے فلاپ ہوئی تھی کیونکہ اردو فلم بینوں کے لیے سلطان راہی کو ہیرو کے طور پر قبول کرنا مشکل تھا۔ راہی مرحوم فلم زباٹا (1993ء) سمیت کئی فلموں کے فلمسازوں کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے اور کئی فلمسازوں کو اپنا معاوضہ بھی معاف کردیا کرتے تھے۔
1977ء میں بھی سلطان راہی کی ڈیڑھ درجن فلمیں ریکارڈز پر ہیں۔ اردو فلم جاسوس میں سلطان راہی ، ممتاز کے ساتھ فرسٹ ہیرو تھے۔ فلم جیراسائیں ہدایتکار  یونس ملک کی پہلی فلم تھی اور انھوں نے سلطان راہی کو کل 29 فلموں میں کاسٹ کیا تھا۔
1978 کا سال بھی سلطان راہی کے لیے ڈیڑھ درجن فلمیں لے کر آیا تھا اور ایکشن فلموں پر ان کی اجارہ داری قائم رہی۔ فلم غنڈہ میں ان کا کردار کافی پسند کیا گیا۔ 
اس سال کی فلم چمن خان میں سلطان راہی نے ایک سپاہی کے رول میں پشتو انداز میں اردو بولی تھی۔ فلم لکھا پہلی سینما سکوپ پنجابی فلم تھی۔
فلم لاٹھی چارج بھٹو حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کے بارے میں تھی۔ فلم بائیکاٹ میں معروف لوک گلوکار عالم لوہار نے پہلی بار ایک گیت میں اداکاری بھی کی تھی۔
1979 کا سال ایک اور ریکارڈ توڑ سال تھا جب سلطان راہی نے ایک کیلنڈر ائیر میں 32 فلموں میں کام کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا تھا۔ اس سال کی سب سے بڑی فلم مولا جٹ تھی جس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی تھی اور سلطان راہی کو تامرگ پنجابی فلموں کا ناقابل شکست اداکار بنا دیا تھا۔
ایکشن فلموں کے ایک “خوفناک ہیرو” ہونے کے باوجود اس سال کی ایک اشارتی فلم عورت راج میں سلطان راہی نے ایک نرم و نازک عورت کا روپ دھارا تھا اور شرم و حیا کی اداؤں کے ساتھ ساتھ ناچ گانا اور کامیڈی بھی کی تھی۔
1980ء میں حیرت انگیز طور پر سلطان راہی کی صرف چار فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ اسی سال ، سلطان راہی کو پاکستان کی اکلوتی ہندکو فلم قصہ خوانی کا ہیرو ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔
1981 کا سال ، سلطان راہی کے فلمی کیرئر کا ایک اور یادگار سال تھا جب ان کی دو درجن سے زائد فلموں میں سے تین فلموں ، شیرخان ، سالا صاحب اور چن وریام (1981ء) نے لاہور کے سینماؤں میں ایک ہی دن ریلیز ہوکر سو سو ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کردیا تھا۔ انھی تینوں فلموں سے سلطان راہی کی جوڑی انجمن کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی اور وہ دونوں سو سے زائد فلموں میں ایک ساتھ نظر آئے تھے۔
اسی سال سے سلطان راہی اور ایکشن پنجابی فلموں کی مکمل اجارہ داری کا ایک ایسا دور شروع ہوا تھا جو 1996ء میں سلطان راہی کے قتل تک جاری رہا تھا۔ اس دوران انھوں نے ساڑھے چار سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔
1982ء میں سلطان راہی کی سوا درجن فلمیں تھیں۔ جن میں فلم ویزا دبئی دا اور گبرو پنجاب دا بھی شامل تھیں۔
1983ء میں ڈیڑھ درجن سے زائد فلموں کے ہیرو سلطان راہی تھے۔ اس سال کی فلم وڈا خان (1983ء) کا ٹائٹل رول، اردو فلموں کے عظیم ہیرو محمدعلی نے کیا تھا ۔ اس فلم میں سلطان راہی ایک مظبوط کردار میں موجود تھے۔ 
فلم جٹ تے ڈوگر اور جٹ، گجر تے نت  بھی اسی سال کی فلمیں تھیں۔ 
1984ء میں سلطان راہی کی ہر ماہ دو فلمیں ریلیز ہورہی تھیں۔ اس سال کی ایک فلم شعلے اداکار  اعجاز  کی لندن جیل یاترا سے واپسی پر بنائی گئی ایک سپرہٹ فلم تھی ۔ فلم لال طوفان بھی کافی پسند کی گئی۔ 
1985ء میں ڈیڑھ درجن فلمیں سلطان راہی کے کھاتے میں جمع ہو گئی تھیں۔ جن میں فلم خوددار بھی شامل تھی۔ 
1986ء میں سلطان راہی کی دوسری بار ایک سال میں تیس فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ فلم دو قیدی نمایاں رہی۔ 
1987ء میں سلطان راہی کی ڈیڑھ درجن فلموںمیں اردو فلموں کے عظیم رومانٹک ہیرو وحیدمراد کی آخری فلم زلزلہ بھی شامل تھی جس میں وہ روایتی ہیرو تھے لیکن فلم میں سدھیر اور سلطان راہی بھی پاورفل کرداروں میں موجود تھے۔ 
فلم بازی پہلی پنجابی فلم تھی جس میں اردو فلموں کی عظیم اداکارہ شبنم نے سلطان راہی کے ساتھ ہیروئن کے طور پر کام کیا تھا۔ اس دور میں جب سیٹلائٹ ٹی وی عام ہوا تو بھارت کے ایک سکھ چینل پر روزانہ پاکستانی پنجابی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ اس چینل پر 1987ء میں سلطان راہی کی فلم جنریل سنگھ بھی دکھائی گئی۔  جس پر پاکستانیوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس فلم میں سکھ مذہب کی توہین کی گئی تھی لیکن پھر بھی پوری فلم دیکھنے کو ملی۔ نتیجہ دوسرے دن سامنے آیا جب سکھ چینل نے اپنے ناظرین سے معذرت کی اور بطور احتجاج پاکستانی فلمیں دکھانے کا سلسلہ بند کردیا تھا۔
1988ء میں سلطان راہی کی دو درجن کے قریب فلمیں رلیز ہوئیں۔ جن میں زیادہ تر ڈبل ورژن فلمیں تھیں۔ جن میں مفرور اور شہنشاہ جیسی فلمیں شامل تھیں۔ 
1989ء میں سلطان راہی نے کچھ کم نہیں ، 36 فلموں میں کام کیا تھا یعنی ہر ماہ تین فلمیں لاہور کے سینماؤں کی زینت بنتی تھیں۔ ایک سال میں زیادہ سے زیادہ فلموں کا یہ ایک منفرد اور شاید عالمی ریکارڈ تھا جو اب تو ٹوٹ ہی نہیں سکتا کیونکہ پاکستان میں فلم انڈسٹری ختم ہوچکی ہے اور بحالی ہوئی بھی تو پہلے جیسا عروج شاید ہی کبھی ممکن ہو۔ فلم میڈم باوری  پہلی فلم تھی جس میں سلطان راہی نے اردو فلموں کے عظیم ہدایتکار نذرالاسلام کے ساتھ کام کیا تھا لیکن یہ ایک ڈبل ورژن فلم تھی۔ یادرہے کہ اردو فلموں کے ایک اور عظیم ہدایتکار پرویز ملک نے سلطان راہی کو کبھی کسی فلم میں کاسٹ نہیں کیا تھا جبکہ ایس سلیمان نے اپنے ابتدائی دور میں صرف دو فلموں میں ایکسٹرا کے طور پر لیا تھا۔
1990ء میں سلطان راہی کی 34 فلموں کا ریکارڈ موجود ہے۔ یعنی مسلسل دوسرے سال تیس سے زائد فلمیں سامنے آئیں جو ان کی مقبولیت اور مصروفیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ فلم خطرناک سلطان راہی  کی صائمہ  کے ساتھ پہلی فلم تھی۔ (اس جوڑی نے 61 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔ جن میں 53 فلموں میں یہ دونوں ھیرو ھیروئن تھے جبکہ 8 فلمیں ایسی ہیں جن میں یہ دونوں موجود تو تھے لیکن ان کا پیئر نہیں تھا)
1991ء میں مسلسل تیسری بار ، سلطان راہی کی تیس سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ اس طرح نہ صرف ہٹ ٹرک مکمل ہوئی بلکہ صرف تین برسوں میں سو فلمیں ریلیز ہوئیں جو یقیناً ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
1992ء میں مسلسل چوتھی مرتبہ سلطان راہی کو تیس سے زائد فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ 
1993 میں سلطان راہی کی دو درجن فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ یہ ڈبل ورژن فلموں کے انتہائی عروج کا دور تھا۔
1994ء میں ایک بار پھر سلطان راہی کی دو درجن فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ 
1995ء میں سلطان راہی کی ڈیڑھ درجن سے زائد فلمیں سامنے آئیں۔ 9 جنوری 1996ء کو سلطان راہی کا قتل ہوا۔ اس سال ان کی ایک درجن سے زائد فلمیں آئیں۔ سلطان راہی کے قتل کے بعد رلیز ہونے والی ان کی فلم اکو دس نمبری کی نمائش کے دوران لاہور کے سنیما گھروں میں وہ مناظر بھی دیکھے گئےجب سلطان راہی کے اسکرین پر آتے ہی بھرپور تالیوں سے استقبال ہوا تھا۔ ایسا جنون کبھی سنا نہ دیکھا۔
 سلطان راہی کی 28 فلمیں ڈائمنڈ جوبلی، 54 پلاٹینیم اور 156 سلور جوبلی قرار پائیں۔ لاجواب اداکاری پر انہیں بےشمار اعزازت اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔
تمغہ حسن کارکردگی  (1997ء)
نگار اعزاز  (1995ء)
نگار اعزاز  (1992ء)
نگار اعزاز  (1987ء)
نگار اعزاز  (1975ء)
نگار اعزاز  (1972ء)
نگار اعزاز  (1971ء) 
سلطان راہی خود بطور فائٹر فلم انڈسٹری میں آئے تھے عروج پر پہنچنے کے باوجود ان کی فلم فائٹرز سے قربت کسی طور کم نہ ہوئی ۔ انہوں نے فلم انڈسٹری کے ان فائٹرز کیلئے باقاعدہ طور پر وظیفہ مقرر کر رکھا تھا لیکن ان کے بااعتماد لوگوں کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں تھا ۔
سلطان راہی ایک اچھے فنکار کے ساتھ ساتھ خدا ترس انسا ن بھی تھے اور خاموشی سے کئی غریب گھرانوں کی کفالت کیا کرتے تھے کئی مستحق بچیوں کے جہیز کی رقم اپنی جیب سے ادا کرکے اُ ن کے گھر بسا نے میں ان کے والدین کی مدد کی ، وہ بچپن سے ہی مذہب کے انتہائی قریب تھے ۔
فلم انڈسٹری میں کامیابی ملی توان کا خدا سے رشتہ مزید مضبوط ہوتا چلا گیا۔ سلطان راہی پانچ وقت کے نمازی اور رمضان میں باقاعدگی سے روزے رکھنے والے انسان تھے ۔ گھر ہو یا اسٹوڈیو ، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کی کوئی نماز قضا ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ ان کی تلاوت کلام پاک اور نعتوں کی سی ڈیز بھی ریلیز ہوئیں جنہیں کافی شہرت ملی ۔
سلطان راہی کو 9 جنوری 1996ء میں پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ کے نزدیک نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔وہ اسلام آباد سے لاہور آ رہے تھے ۔اب تک ان کے قاتلوں کا سراخ نہیں لگایا جا سکا ۔جب ان کو قتل کیا گیا ان کی عمر 58 سال تھی اور تقریبا 40 سے زائد فلمیں زیر تکمیل تھیں۔
ان کی بے وقت موت سے جہاں پنجابی فلموں کا سفینہ ڈوبا وہاں فلم انڈسٹری پھر کبھی ویسا عروج نہ دیکھ پائی۔