قیام سےلے کر آج تک پاکستان سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کا شکار رہا ہے۔ قرارداد ِمقاصد، پھر آئین، پھر مارشل لاء، پھر صدارتی نظام، پھر جمہوری نظام، پھر اسلامی ریاست، پھر جمہوریت، پھر مارشل لاء،پھر جمہوریت اور اب پی ڈی ایم کی حکومت قبل تک ریاستِ مدینہ تک بات پہنچ چکی تھی .
پے درپے تجربات مگر نتیجہ افراطِ زر، غربت، دہشتگردی اور سیاسی بحران ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان باقی عالم کے لیے ایک جائے عبرت ہے۔مختلف سیاسی نظام،بیشتر اور رنگ برنگے قائدینِ ریاست مگر پھر بھی کشتی ساحل تک نہیں پہنچ پا رہی۔
 ریاست کا سب سے پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ طلبا ہوا کرتے ہیں ۔مگر شومئی قسمت کہ تین دہائیوں سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود اس طبقے کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ اس طبقے کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مکھن میں سے بال کی مانند سیاسی عمل سے نکال دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی ادارے اب محض کاروباری اڈے بن چکے ہیں ۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں لگی طلبا یونین پر پابندی نے طالع آزما سیاستدانوں اور جمہور دشمن آمروں کو کُھل کر حکومت کرنے کا موقع دیا ۔ اس پابندی کا سب سے زیادہ نقصان طلبا کو ہوا اور پھر ریاست نے اس کے نتائج بھگتے ۔طلبا کی سیاسی سرگرمیوں پر  لمبے عرصے سے قدغن ہے جس وجہ سے طلبا حالاتِ حاضرہ سے سے نا آشنا ہیں اور سیاست سے تو قریباً اجنبی ہو چکے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں عوامی اظہار کے لیے منبر کا سا درجہ رکھتی ہی جن کے ذریعے  عوامی نمائندے اپنی خواہشات اورضروریات کو سامنے لاتے ہیں ۔ اب طلبا سے جاہِ اظہار چھین لی گئی ہے جس وجہ سے نوجوان مختلف سماجی خرافات کا شکار ہو رہے ہیں ۔
قیام پاکستان سے لے کر ضیائی دور کے آغاز تک طلبا یونینز قائم رہیں ۔تعلیمی اداروں کے اندر انتخابات کا سلسلہ چلتا رہا ۔ریاستی پالیسیوں پر بحث مباحثے ہوتے رہے، دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کے مابین کانٹے دار مقابلہ رہا ۔ مگر 9 فروری 1984 کو ضیا الحق نے  اس جمہوری عمل کو روکنے اور اقتدار کو احتجاجی سیاست کے تھپیڑوں سے بچانے کے لیے طلبا کُش قانون کے تحت طلبا یونینز پر پابندی عائد کر دی۔وہ طلبا جو ریاست کا اثاثہ تھے، انھیں ریاست کا اسلحہ بنا کر افغان جہاد کی لامتناہی آگ میں جھونک دیا۔ اس ایک غیر جمہوری اقدام کا نتیجہ آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔ طلبا یونینز کے پیدا کردہ رہنماؤں کی آخری کھیپ ہی اب ریاست کی سب سےمنجھی ہوئی قیادت ہے۔ مگر افسوس کہ یہ لوگ سیاسی افق پر ڈوب رہے ہیں ۔ ان چند لوگوں کو سیاسی منظر نامے سے اگر ہٹا دیا جائے تو ریاست پاکستان حقیقی معنوں میں اٹھارہویں صدی کا فرانس نظر آئے جہاں صرف اس وقت کے سرمایہ دار اور زمیندار حکومت کرتے تھے اور عوام کا درجہ ‘شے’ کی مانند تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ ایوبی آمریت کے خلاف مزاحمت طلبا نے کی، بھٹو کو حکومت میں لانے کے لیے بائیں بازو کی طلبا تنظیموں نے کلیدی کردار ادا کیا  اور پھر ضیائی آمریت کے خلاف پی ایس ایف جیسی ترقی پسند تنظیم نے ناقابلِ بیان قربانیاں دیں ۔ادریس طوطی، رزاق جھرنا، نجیب اللہ جیسے نوجوانوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے جمہوریت کی بحالی کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو کا ساتھ دیا۔
حیف صد حیف! کسی سیاسی جماعت نے ان قربانیوں کو یاد نہیں رکھا سوائے پاکستان پیپلزپارٹی کے. پاکستان پیپلزپارٹی نے ضیائی آمریت کے بعد اپنے پہلے دور حکومت میں اس پابندی کا خاتمہ کیا اور پھر 1993 میں سپریم کورٹ نے طلبا یونینز کے انتخابات پر پابندی عائد کر دی جو تا حال برقرار ہے ۔سندھ حکومت نے گزشتہ سال طلبا یونینز کو بحال کیا اور پھر باقاعدہ انتخابات کا ضابطہ بھی ترتیب دیا تھا.۔پاکستان پیپلزپارٹی کا یہ تاریخی اقدام سیاست اور ریاست دونوں کو مضبوط کرنے میں کارگر ثابت ہو گا۔ایسے سیاست میں مرکزیت کمزور ہو گی اور نچلی سطح تک سیاسی کارکن پیدا ہوں گے۔طلبا تنظیموں اور طلبا یونینز کے مابین فرق واضح کرنا بہت ضروری ہے ۔چونکہ ایک لمبے جمود کے بعد طلبا قریباً سیاست کو ہی بھول گئے ہیں جس وجہ سے انھیں اس امتیاز کا علم بھی نہیں ہے۔طلبا تنظیمیں سیاسی جماعتوں کی سیاسی شاخیں ہوتی ہیں یا پھر طلبا خود ہی تنظیمیں ترتیب دیتے ہیں ۔ لفظ تنظیم نظم سے ماخوذ ہے جس کے معنی خاص ترتیب یا نظام کے ہیں ۔ تنظیموں کا چناؤ متعلقہ گروہ اپنے وضع شدہ طریقہ کار سے کرتے ہیں جب کہ طلبا یونینز تعلیمی اداروں کے اندر طلبا کے ووٹ کے ذریعے وجود میں آتی ہیں ۔ اور پھر تعلیمی اداروں میں یہ یونینز انتظامیہ کے ساتھ مل کر اپنے حقوق حاصل کرتی ہیں ۔
اب پاکستان ایک کمر توڑ بحران کا شکار ہے مگر متبادل قیادت کا دور دور تک نام و نشان نہیں ۔ وہ قیادت جو خالصتاً عوامی مسائل کو اجاگر کرے اور ان کا حل دے۔ مہنگائی نے پاکستان کی نصف آبادی کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں قبل ازیں عمران حکومت کے پیدا کردہ بحرانوں سے پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی وساطت سے نکالنے  کی کاوشیں کی ہیں . اس بات سے کنی کترانا محال ہے کہ ریاست کو ہر شدید بحران سے پاکستان پیپلزپارٹی نے ہی نکالا ہے مگر اس کا انعام بھٹو خاندان کو کُلی طور پر شہید کر کے دیا گیا ۔مگر اب بھی وقت ہے کہ عوام پاکستان پیپلزپارٹی کا  آئندہ الیکشن میں ساتھ دیں  ۔ تاریخ انفرادی غلطیوں سے در گزر کرتی ہے مگر اجتماعی خاموشی نہیں ۔ یہی وہ وقت ہے جب ہم ایک سنجیدہ قوم ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔

Author