چند روز قبل وزیر اعلی خیبرپختونخوا نے یہ بیان دیا کہ جو افسر آپ سے رشوت طلب کرے اس کے سر میں اینٹ مارو اور ۔۔۔۔۔ 

جب ملک پاکستان میں لاقانونیت، افراتفری اور ماراماری پہلے ہی عروج پر ایک اعلٰی ترین انتظامی منصب پر فائز شخص کی طرف سے یہ اعلان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ افراتفری کا سفر طوائف الملوکی کی منزل کی جانب بڑھ رہا ہے اور جن لوگوں نے تباہی کے راستے پر رواں دواں قافلے کو درست راستے پر ڈالنے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے، وہ بھی اس سفر کو تیز تر کرنے میں اپنا حصہ خوب ڈال رہے ہیں۔
رشوت لینے دینے کے دو بنیادی اسباب ہیں، پہلاسبب  رشوت طلب کرنے والے کے پاس لامحدود اختیار کا ہونا ہے۔ سائل اس کے سامنے اپنے آپ کو لاچار و بے بس سمجھتا ہے۔ سائل کے سامنے اس اختیار کو چیلنج کرنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں ہوتا ہے اور اس بے بسی کے عالم وہ رشوت خور کے آگے سرنڈر کرتا ہے، اس کا حل سر میں اینٹ مارنا نہیں بلکہ داد رسی کا ایک منصفانہ نظام قائم کرنا ہے جو رشوت خور کی بد عنوانیوں کی نگرانی کرے، اسے قابو میں رکھے اور سائل کو انصاف فراہم کرے۔
جب رشوت خور کے اختیار کے ساتھ ساتھ اس کی تنخواہ بھی قلیل ہوتو تب رشوت اس کے زندہ رہنے اور بچوں کا پیٹ پالنے کا ذریعہ بن جاتی ہے، رشوت کے اس سبب کا تدارک اس اہلکار کی تنخواہ کو معقول اور پرکشش بنانا ہے نہ کہ سر میں اینٹ مارنا، اس سلسلے جو لوگ انصاف اور انقلاب کے لیے زیادہ ہی پرجوش ہیں انہیں سروس سٹرکچر جو گریڈ ایک سے بائیس تک کے غیر منصفانہ نظام پر مشتمل ہے کو تبدیل کرنے کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے نہ کہ سر پہ اینٹ مارنے کا طریقہ رائج کریں۔