آپ حیران ہوں گے کہ لاہور تو ان گنت  دریشوں ،سادھوں اور فقیروں کا محبوب شہر ہے تو یہ  پھر مست الست درویش کون ہوا ۔درحقیت یہ بزرگ   اپنی زندگی میں مست الست فقیر نہیں بلکہ صاحب قال بزرگ تھا ۔مجھے یوں لگتا ہے کہ ان کی روح سرمتی کی خواہاں تھی جس نے بعد از وصال اپنا آپ ظاہر کیا ۔اس بزرگ کی درگاہ مست الست درویشوں کی آمجگاہ بن گئی  ۔ 
درویشوں اور فقیروں کی اپنی دنیا ہوتی ہے اور ان  میں سے ہر کوئی اپنے حال میں مست الست ہوتا ہے یہ اپنے من کے جوگ کو ساز بنا کر نعرہ مستانہ لگاتے رہتے ہیں ۔
انہی فقیروں اور  دریشوں کا اک سرخیل عہد اکبری میں کشمیر سے  لاہور وارد ہوا ۔ان کے مست الست ہونے کی خبر کتب تاریخ میں نہیں ملتی مگر آج اس کی درگاہ پر جائیں تو رند رقص کرتے ہیں ۔ڈھول کی تھاپ پر دھمال ہوتی ہے ۔ہر سو اک ہی نعرہ لگتا ہے لجپال شاہ جمال۔
مجھے یقین ہے کہ فقیر کی روح ان ملنگوں میں حلول کر گئی ہے ۔اب یہ صدیوں سے اس درگاہ کے دامن میں محبت کے دیپ جلاتے ہیں ۔ڈھول پیٹتے  ہیں ۔ 
 ڈھول اک الوہی ساز ہے ۔جب ڈھول کی آواز کانوں میں پڑتی ہے تو قدم خود بخود رقص کرنے لگتے ہیں ۔اس فقیری آلہ موسیقی سے انگریز اتنا خوفزدہ ہوا تھا کہ اس نے ڈھول پر پابندی لگا دی تھی ۔اس کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ڈھول بجتا ہے ہندوستانی باشندوں میں تیزی و حرارت آ جاتی ۔یہ سر فروش بن جاتے ہیں ۔ان میں بغاوت کی تازہ دم لہر دوڑ پڑتی ہے ۔
برصغیر میں گزشتہ صدی  میں شاید ہی ایسی کوئی جگہ ہو گی جہاں اتنے اعلی پائے کا ڈھولچی  ہو جیسا شاہ جمال درگاہ پہ پپو سائیں تھا ۔اس نے چالیس سال تک شاہ جمال کی درگاہ پر ڈھول بجایا ۔
درگاہ کے ساتھ ملحقہ احاطےمیں جمعرات کی رات رندوں کا میلہ لگتا تھا ۔ہر سو چرس کا دھواں دیکھائی دیتا تھا ۔فضاء لجپال شاہ شاہ جمال کے مست نعروں سے گونجتی تھی ۔جمعرات نماز عشاء کے بعد شروع ہونے والا درویشوں کا یہ میلہ  رات گئے تک جاری رہتا تھا ۔ اس میلے   میں ڈھول کی تھاپ  اور دھمال کا تڑکا لگا ہوتا تھا  ۔جمعرات کی رات اک کلاسیکل تہذیبی اکٹھ  کا منظر پیش کرتی  ۔ لوگ شام ہوتے ہی درگاہ  شاہ جمال پہنچ جاتے تھے ۔شرکاء کی تعداد ہزاروں میں ہوتی تھی۔میں نے کئی  راتیں ریحان خان صاحب کے ساتھ اس سرمست ماحول میں بسر کی ہوئی ہیں ۔ہم  شاہ جمال کےپکےبھگت ہیں ۔جو شاہ جمال کے موتی چور لڈوں کے حقیقی چور بھی ہیں ۔شام ہوتے ہی ہم دربارکے احاطے میں پیٹ پوجا کرتے تھے ۔مزار  پر حاضری دیتے اور  بابا شاہ جمال کو دل کا حال سناتے تھے۔بابا شاہ جمال ہماری باتیں سن کر مسکراتے رہتے ۔موتی چور لڈووں کے لفافے کو صرف نظر کرتے ۔
ان دنوں معاشی الائم نہ تھے ۔فارغ البالی  تھی ۔ہم اس مست ماحول میں جھومتے رہتے تھے ۔
عشاء کے بعد ہم اوپر جا کر قبرستان میں   گونگا سائیں کا ڈھول دیکھتے تھے ۔جب رات کے گیارہ کا وقت ہوتا تو  نیچے احاطے میں اک  دائرہ بن جاتا ۔فضاءمیں نعروں سے گونج اٹھتی ۔ اک درویش ڈولیچی ڈھول بجاتا ہوا  میدان میں آتا ۔اس کو لوگ پپو سائیں کہتے تھے   ۔پپو سائیں آتے ہی لجپال شاہ جمال کی صدا لگاتا ۔ہر سو فقیری رنگ جم جاتا ۔ہر کوئی پپو سائیں کا ڈھول سن کر مست و بخود ہو جاتا ۔ہم بھی مزے کرتے ۔مست ماحول کو اپنے من میں جذب کرتے ۔پپو سائیں وقفے وقفے سے بھنگ نوش کرتا ۔اس کے گرد ملنگ رقص کرتے ۔
وہ ڈھول کا عاشق تھا ۔وہ ڈھول کا ہرروپ جا نتا تھا ۔ڈھول پپو سائیں کا عشق تھا ۔ ۔وہ سچا فنکار تھا ۔اس کے من میں دھرتی کی خوشبو تھی ۔وہ شاہ جمال کا سچا درویش تھا ۔یہ سارا میلہ اس کے دم سے قائم تھا ۔وہ ساری رات ڈھول بجاتا اور ملنگوں کے ساتھ رقص اور گیت گاتا ۔جب گلے میں ڈھول لٹکا کر دائرے میں تیز گھومتا تو سب مل کے بولتے ۔
بولو بولو سخی لجپال ۔۔شاہ جمال ۔ملنگ ڈھول کی تھاپ کو سمجھتے اور اس کے مطابق قدم اٹھاتے ۔
ملنگ ساری رات اسکے اشاروں پہ ناچتے اور دھمال ڈالتے ۔ہر کوئی اپنے حال میں مست ہوتا  ۔اولمکپس میں بھی پپو سائیں نے ڈھول بجایا ۔ڈھول اس کی پہچان بنا ۔رقص اس کی خوراک ٹھرا ۔پھر دہشت گردئ کی لہر آئی اور  یہ روایتی میلہ اجڑ گیا تھا ۔پپو سائیں کو ڈھول بجانے سے منع کر دیاگیا ۔شاید یہی غم لیے پپو سائیں دنیا سے رخصت ہوا  ۔
کچھ عرصہ پہلے شاہ جمال کا فقیر  گونگا سائیں  بھی پپو ڈھولچی کو ملنے عدم کے سفر پر روانہ ہوا ۔
گونگا  سائیں بھی شاہ جمال کی درگاہ کا اہم کردار ہے ۔شام ہوتے ہی  قبرستان کے شروع میں ہی اک احاطے میں گونگا سائیں ڈھول بجاتا ہوتا تھا ۔گونگے سائیں کی محفل ڈھول میں کئی بیرون ملک  سے آئے ہوئے گورے اور گوریاں بھی شامل ہوتے تھے ۔تبت  کے لوگ تو پکے ملنگ دیکھے گئے ۔چرس کے سوٹے لگا کر مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر جھومتے اور خوشی سے رقص کرتے ۔
گونگا ڈھول بجاتا تو کئی ملنگ اس کے گرد دائرہ بنا  ناچتے تھے  ۔گونگا تین چار گھنٹے مسلسل ڈھول بجاتا تھا ۔گونگا اپنے مہمانوں کی تواضع آئس کریم سے بھی کرتا تھا ۔گورے مہمان بھی بیٹھے بیٹھے جھومتے رہتے تھے۔سنا ہے درویشی نشے کو میٹھا مہمیز لگاتا ہے ۔میٹھا کھانے سے اس کے  سرور میں بھی بے حد اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ 
ا س کے بعد گیارہ بجے کے قریب دربار کے ساتھ بڑے میدان میں پپو سائیں اپنا رنگ جماتا تھا ۔رش زیادہ پپو کی طرف ہوتا ۔
 پر لطف بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد   پپو سائیں کو ڈھول کی تھاپ پر شاہ جمال کے قرب میں دفن کر دیا گیا ۔ 
 پنجاب میں ۔میلے ۔صوفیاء ۔خانقاہیں اور ڈھول اک روایت کا نام ہے ۔پپو سائیں کے بغیر اب ڈھول کی کلاسیکت مکمل نہ ہو گی ۔مجھے یقین ہے کہ  پپو سائیں قبر میں بھی کبھی کبھی ڈھول بجاتا ہو گا ۔ ۔ملنگ تھا ۔درویش تھا ۔شاہ جمال کا لاڈلا تھا اسے تو کوئی اور کام نہیں آتا ۔شاہ جمال کی نگری ۔شہر لاہور کی جادوائی شامیں ،شہر بے مثال کا فسوں ، ڈھول کی آواز  ۔رقص میں سارا جہاں  ۔اس فضا سے وہی لطف اٹھاتاتھا  جو رند مزاج ہو ۔پارساوں کا اس وادی میں گزر کہاں ۔
 آج بھی کبھی کبھی مجھے  پپو سائیں کے ڈھول اور درویشوں کے  رقص کی آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں  ۔میری روح محو رقص رہتی ہے   ۔پپو سائیں جیسے کردار شہر لاہورکا فخر ہیں ۔پپو کو بابا شاہ جمال نے وہ شہرت عطا کی جو شاید ہی کسی کا مقدر ہو ۔اشفاق احمد جیسے لوگ بھی جمعرات کو چپکے سے سیڑھیوں پر بیٹھ کر پپو سائیں کے ڈھول سے لطف اٹھاتے ہوتے تھے ۔اب پپو سائیں کی میراث کو اس کے بیٹے قلندر سائیں نے سنبھالا ہے مگر ابھی وہ رنگ نہیں جما جو پپو اور گونگا سائیں کا ہوتا تھا ۔شاہ جمال کی آج بھی اثر پذیری کا عالم دیکھیں کہ  ان کی درگاہ پہ ڈھول بجانے والے دو ملنگ عالمیگر شہرت پا گئے ۔
 آئیے اب سرمستی اور رندی سے تھوڑی دیر انحراف برت کے ہم شاہ جمال قادری سہروردی کی زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں ۔
بابا شاہ جمال نے  لاہور کے مضافات میں قدیم ترین علاقے اچھرہ کو  اپنا مستقل ٹھکانہ بنایا ۔ان کا مزار بھی  اچھرہ میں ہے ۔اچھرہ ہندوؤں کا قدیمی علاقہ تھا ۔اچھرہ میں کئی کینالوں پر مشتمل” چاند رات مندر” تھا ۔دوسرا مندر” بھیرو استھان “تھا ۔اس  دور میں شام کے وقت  شہر لاہور کے مندروں کی گھنٹیاں بجتی تھیں ۔ان گھنٹیوں کی آوازوں سے فقیروں کی طبعیت پرگنداہ نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ ان کو روح کا ساز سمجھتے ہوتے تھے ۔یہی ان فقیروں کی زندگی کا حقیقی لطف تھا کہ وہ مذاہب کی بنیاد پر انسانوں سے پیار نہیں کرتے تھے ۔وہ لوگوں   کا دل جیتتے تھے ۔مخلوق خدا کی خدمت کو شعار بناتے تھے ۔ان کے پاس بلا تفریق مذہب لوگ آتے تھے ۔
انہی مندروں کی گھنٹیوں سے دل بہلانے والا ایک ہندو کھتری اولاد کے حصول کے لیے دُعا کرانے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور خربوزوں کا تحفہ پیش کیا۔ آپ نے ان خربوزوں میں سے دو خربوزے اسے عنایت کیے، حکم دیا اپنی بیوی کو کھلا دو اور دو بیٹوں کی خوشخبری دی۔ خدا کی قدرت اس کے  ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے جن میں سے ایک بیٹا  فخرالدین تھا جو کہ آخر دم تک آپ کی خدمت میں رہا۔ دلچسپ بات یہی فخر الدین آپ کو  خلیفہ بنا اور حضرت شیخ فخرالدین قادری سہروردی کہلایا ۔اک ہندو خاندان کو اپنے دام محبت میں گرفتار ایسا کیا کہ آج بھی حضرت کے پہلو میں مزار گنبد کے باہر  شیخ فخرالدین سہروردی قادری  اور آپ کی زوجہ کی قبریں ہیں ۔ان کو اندرون لاہور میں اک گھر بھی بنا کر دیا جو شاہ جمال کے نام سے منسوب تھا ۔فخر الدین قادری کی اولاد اک طویل مدت تک درگاہ شاہ جمال کی مجاور اور منتظم رہی ۔
صوفیا لاہور کے خلق  میں عجب جادو گری تھی جس کی بدولت رام کے بیٹے لہو کے بسائے شہر کے باسیوں کا رخ سوئے گنبد خضری مڑ گیا ۔
جھنڈا چوک کا حسو تیلی ناپ تول میں کمی کرتا تھا ۔باںا شاہ جمال کے پاس پہنچا ۔آپ نے لمبی چوڑی ملاؤں والی نصحیت و فضحیت کی بجائے صرف اتنا کہا کہ حسو کم نہ تولا کر ۔یہ جملے نوک نشتر کی دل میں پیوست ہو گئے ۔اس نے ناپ تول میں کمی کرنا  چھوڑ دی ۔اس  کے باٹ ہی سونے کے بن گئے ۔وہ حسو تیلی بھی لاہور کا معروف کردار بنا ۔ایبٹ روڈ کے پاس اک گلی میں حسن شاہ ولی سہروردی کے نام سے مزار میں گھنے درختوں کی چھاؤں میں  پرسکون نیند لیٹا ہے  ۔اندرون لاہور جھنڈا چوک میں اس کا نصب کردہ جھنڈا آج بھی قائم دائم ہے ۔اسی چوک میں اس کا تکیہ ہے جس میں آج بھی روازنہ شام کو چراغ روشن ہوتے ہیں ۔
بابا شاہ جمال کی زندگی کا اہم ترین پہلو ان کی چلہ کشی ہے ۔ ان کی متوکلانہ زندگی کا ایک اہم حصّہ آپ کے مجاہدات ہیں ۔ان کا  ایک چلّہ ختم ہوتا تو دوسرا شروع ہو جاتا۔ آخری سالوں میں یہ چلّہ کشی زیادہ ہو گئی تھی ۔ آپ کے چلّہ کشی کے مقامات کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
آپ کی  چلّہ گاہ اچھرہ (دمدمہ)ہے ۔ اسی چلہ گاہ میں  آپ کا وصال ہوا۔ اس کو موجودہ عمارت کی تعمیر نو کے وقت شہید کر دیا گیا تھا۔اس دمدمہ کی کہانی بڑی دلچسپ ہے ۔ جب آپ نے اس کو بنانے کا ارادہ کیا تو   اس کے قریب ہی اکبر بادشاہ کی شہزادی کا محل زیر تعمیر تھا ۔مزدروں کی شدید کمی تھی ۔مزدور شہزادی کا محل بنا رہے تھے۔
آپ کے بارے میںں مشہور ہے کہ ضرورت کہ وقت  مصلیٰ کے نیچے سے مطلوبہ رقم نکال کر اہلِ حاجت کو تقسیم کر دیتے تھے ۔ اسی  کا کرشمہ تھا کہ آپ نے شہنشاہ اکبر کی بیٹی کے محل کی تعمیر کے وقت جو آپ کے دمدمہ کے سامنے بن رہا تھا، اس کے شاہی معماروں اور مزدوروں کو مقابلہ کی مزدوری دے کر اپنے دمدمہ کی تعمیر کے لیے راضی کر لیا ۔صبح کے وقت مزدور شہزادی کا محل بناتے اور رات کو فقیر کے  دمدمہ کی بنیادیں استوار کرتے ہوتے تھے ۔جب یہ دمدمہ بن گیا تو  شہزادی کے محل سے اونچا تھا ۔شہزادی نے کہا فقیر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اسطرح کا محل ہو ۔آپ کو جب اس کی خبر پہنچی تو آپ نے اپنے درویشوں کے ساتھ مل کر دھمال ڈالی ۔جس سے اس دمدمہ کی کئی منزلیں  زمین بوس ہو گئیں ۔
ان کی دوسری چلّہ گاہ شاہ جمال روڈ شیخوپورہ پر قلعہ نزد قبرستان میں واقع ہے۔
ان کی تیسری چلہ گاہ  شاہ رحمن بھڑی شریف میں ہے ۔
شاہ جمال قادری کی چوتھی چلہ گاہ شاہدرہ میں تھی ۔
دریائے راوی کے کنارے شاہدرہ کی بستی اور اس کے اطراف میں باغات اور جنگلات فقیروں اور بادشاہوں کے لیے یکساں جاذبیت رکھتے تھے ۔شہر لاہور کے ہندو مرد وزن تو صبح سویرے رام رام کرتے راوی کے پانی سے اشنان کرتے ہوتے  تھے ۔کتنے ہی فقیروں کے احوال میں درج ہے کہ راوی کے کنارے کئی کئی سال  ورد و وظائف میں مشغول رہتے ۔ستر کی دہائی تک اہلیان لاہور راوی کے جوبن سے دل بہلاتے ہوتے تھے ۔
شاہ جمال قادری کی پانچویں چلہ گاہ ریاست چمبہ گورداسپور میں تھی ۔اس جگہ کو  آپ کی نشست گاہ کہا جاتا ہے اور وہ آج بھی موجود ہے ۔ وہاں  عرس بھی  ہوتا ہے۔
 اب بابا شاہ جمال کی ابتدائی زندگی کا کچھ حال بھی بیان کرتے ہیں ۔
آپ کا نام  شاہ جمال ہے۔ آپ کے والد مولانا عبدالواحد  اور بھائی شاہ کمال تھے۔ کتب تواریخ  میں آپ کے حالات زندگی بہت کم درج ہیں۔ بعض مؤرخین نے آپ کی ولادت اندازاً 966ھ بتائی ہے۔  آپ کے والد حاکم کشمیر سے تعلقات خراب ہو جانے پر کشمیر سے سیالکوٹ آگئے تھے ۔ شاہ جمال قادری  قاضی جمال الدین بڈشاہی کی اولاد میں سے تھے جو کشمیر میں اک  باوقار خاندان کے تعلق رکھتے تھے اور علمِ و عرفان میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔  
شاہ کمال اور شاہ جمال دو بھائی تھے ۔ دونوں بزرگ اسم بامسمّٰی صا حبِ جمال اور صاحبِ کمال تھے ۔ دونوں بزرگ لاہور میں  دفن ہوئے اور ان کے مزارات تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر واقع ہیں۔ شاہ کمال قادری کا مزار اچھرہ میں ہے اور وہاں موجود قبرستان انہی کے نام سے منسوب ہے ۔کبھی کبھار میں ادھر  بھی جاتا ہوتا  تھا ۔شاہ کمال قبرستان میں طارق شاہ نامی اک بابا آگ کا الاؤ روشن کر کے بیٹھا ہوتا تھا ۔اس کے گرد رندوں کا ٹولہ ہوتا ۔ہر آنے والے کو چائے اور پکے سگریٹ کا لنگر پیش کیا جاتا تھا ۔اس بات کو کئی سال ہو چلے اب  مجھے خبر نہیں کہ اس محفل کا رنگ کیسا ہے ۔
حضرت شاہ جمال قادری سہروردی   لوگوں کو تلقین کرتے ہوتے تھے  کہ کم تولنا، کم ماپنا اور جھوٹ بولنا جیسی معاشرتی برائیوں انسان باطنی طور پر کھوکھلا ہو جاتا ہے ۔
 ان کا دورِ برصغیر کی عظیم مغل بادشاہوں کا دورِ تھا ۔  اس دور میں اکبرِ اعظم، جہانگیر  اور شاہجہان جیسے عظیم مغل حکمران ہوئے۔ اس زمانہ میں لاہور شہر علم و فضل کا مرکز تھا اور صوفیائے کرام کا جمِ غفیر لاہور کی  سرزمین کو اپنی برکات و فیوضات سے منور کر رہا تھا ۔
 آپ کے دمدہ کے قریب بہت سی تاریخی عمارتیں تھیں ۔ان میں سب سے مشہور اک سرائے تھی ۔
 جسے جہانگیر  نے  مسافروں کے لیے بنایا  تھا۔ اس میں پندرہ بیس ہزار افراد کے رہنے کی  گنجائش تھی۔جب  مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب کا حکمران بنا تواس نے  اس سرائے میں گولہ بارود بنانے کا کام شروع کروایا  ۔ اس وجہ سے یہ سرائے گولیاں والی کے نام سے معروف ہوئی ۔
مغل شہزادی جس کا ذکر چلہ گاہ کے ضمن میں پہلے بھی ہو چکا ہے ۔شہزادی سلطان بیگم بنت اکبر بادشاہ کا محل، باغ، بارہ دری اور تالاب بھی شاہ جمال کے دمدہ کے پاس تھا ۔
شاہ جمال شہر لاہور کا منفرد کردار ہیں ۔جن کی درگاہ آج بھی رندوں کا اہم ڈیرہ ہے ۔ان کی درگاہ جیسا مست ماحول اور کہیں نظر نہیں آتا ۔
شاہ جمال قادری کی وفات 4ربیع الثانی 1049ھ کو ہوئی اور آپ کو اپنے ہی تعمیر کردہ دمدہ میں دفن کیا گیا۔اسی تاریخ کو ہی آپ کا عرس منایا جاتا ہے  ۔یہ  سارا علاقہ اب شاہ جمال کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
کبھی شاہ جمال قادری کی درگاہ جمعرات کی شام کو خالص دیسی گھی کے لڈو ملتے ہوتے تھے ۔گڑ اور میوہ جات سے اٹے ہوئے میٹھے چاول  بھی میسر آ جاتےتھے ۔ہائے اب مصروفیت نے ہم سے سب کچھ چھین لیا ۔
۔آپ بھی کبھی  جمعرات کی شام اس درگاہ پہ بیتائیں اور اس مست الست درویش کی باتوں سے لطف اٹھائیں ۔رندوں کے نعرے سنیں اگر من چاہے تو اک آدھ درویشی نعرہ لگا کر اپنی روح کو سیراب کریں ۔