کار ساز و لیاقت باغ کے سانحات سے قبل محترمہ نے قتل کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہونے کی بجاۓ جس شجاعت کا اظھار کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔
شہیدبھٹوکی طرح شہید بی بی بھی اپنی جراءت،دلیری،راستی اور کرداروعمل کے باعث امرہو گئی ہیں۔
وزیراعظم پاکستان ،اسلامی دنیاکے متفقہ چئیرمین،تیسری/ترقی پذیردنیاکے فعال لیڈراورامریکی سامراجیت کے خلاف مردانہ وارلڑتے ہوئے ملک اورعوام پراپنی جان نچھاورکرگئے۔محترمہ بینظیرکی خدادادصلاحیتوں سے بخوبی آگاہ ، شہید بھٹوصدیوں پرنگاہ رکھنے والے دانش ورتھے،انہوں نے بی بی سے بڑے دوبھائیوں میرشاہنوازبھٹواورمیرمرتضی بھٹوکی موجودگی میں ہی اپنی کمسن بیٹی کی عملی تربیت برائے سماجی خدمت شروع کردی تھی ۔ شاہی خاندان میں پیداہونے،پلنے بڑھنے،تربیت پانے کے باعث بی بی کا وژن جلد ہی بہترہوگیاتوشہیدبھٹونے انہیں امورخارجہ میں بنیادی عملی تربیت دلاناشروع کردی۔شہید بھٹواپنے اہم غیرملکی دوروں میں بینظیرکوساتھ لے جاناشروع ہوگئے. وہ عالمی مدبرین سے بات چیت میں بی بی کواپنے ہمراہ رکھتے اور ان کی باقاعدہ خودتربیت کرتے ۔ شاید شہیدبھٹو یہ ادراک پاگئے تھے کہ ان کی دھرتی پران کی صاحبزادی کوکیاکیاعذاب جھیلنا ہوں گے۔محترمہ بے نظیربھٹواپنے والد کی شہادت کے بعد طویل جبری جلاوطنی گزارکر10اپریل1986ءکوپاکستان واپس پہنچیں توان کے استقبال کوپوراپاکستان لاہورامڈآیا ۔
الیکشن 1988ءمیں کامیابی کے بعدمحترمہ بینظیربھٹواسلامی دنیاکی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔جنوبی ایشیامیں “بری طرح”دخیل سامراجی طاقتیں محترمہ بینظیربھٹو کوبرداشت نہ کرسکیں اوران طاغوتی طاقتوں نے اپنے مقامی گماشتوں کے ذریعےمحترمہ کی منتخب جمہوری حکومت کی آئینی مدت (5سال)پوری کئے بغیر20ویں ماہ ہی میں رخصت کرادی۔محترمہ کے بعدلائے گئے مہروں کے ذریعے بی بی کے خلاف کرپشن کے جھوٹے،من گھڑت مقدمات بناکرمسلسل کئی برس حددرجہ اذیت پہنچائی گئی۔شہید بی بی رانی ثابت قدم رہیں اورطاغوتی طاقتوں سے مردانہ واربرسرپیکاررہیں۔1993ءمیں محترمہ دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔اس بارمحترمہ نے ادھورے رہ جانے والے قومی مشن پربھرپورتوجہ مبذول کی۔انہوں نے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپوراستفادہ کیااور پاکستان کے ایٹمی میزائیل پروگرام کوامریکہ کے ہم پلہ لاکھڑاکیا۔بعض معتبرذرائع کادعوی ہے کہ ایٹم بم کے کولڈٹیسٹ کی طرح ہمارے ایٹمی میزائیل پروگرام کو ایک آدھ استعدادمیں امریکہ اسرائیل سمیت سب پرسبقت حاصل ہے۔ایٹمی میزائیل ٹیکنالوجی میں اس مثالی ترقی کاسہرہ بلاشبہ شہیدبی بی رانی کے سرہے۔اس باربھی استعماری قوتیں محترمہ کے جمہوری مینڈیٹ کااحترام نہ کرسکیں۔ پہلے محترمہ کے بڑے بھائی اورسندھ اسمبلی کے منتخب ممبرمیرمرتضی بھٹوکو منصوبہ بندی کے تحت جعلی پولیس مقابلہ میں شہیدکرادیاگیاپھرمحترمہ کی منتخب جمہوری حکومت آئینی مدت سے نصف مدت پہلے ہی توڑدی گئی۔ایک طویل اندھیری آمریت پھرمسلط رہی۔محترمہ بینظیرکوبھی جلاوطنی پرمجبورکردیاگیا۔2007ءمیں محترمہ کی وطن واپسی ہوئی 18 اکتوبر2007ءکوشہیدبی بی کراچی ائیرپورٹ پراتریں تو عوامی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کاحق اداکرنے کاعہدوعزم کرچکی تھیں۔ اس بات کی تصدیق ان کی وہ شہرہءآفاق تصویربھی کرتی ہے جوجہازکی سیڑھی پر دعامانگتے ہوئے اتاری گئی۔محترمہ کو ہیوی ویٹ طاقتوں کے مقامی گماشتوں کے ذریعے وطن واپسی سے روکنے کی بہت کوششیں کی گئی تھیں مگرشہیدبی بی ڈٹی رہیں۔کراچی کے پل کارسازپرمحترمہ کومارنے کا مکمل انتظام کیاگیاتھا،عوامی کارواں وہاں پہنچاتوحملہ ہوگیا،بم پھٹے،بارود حملہ آورہوا جس میں محترمہ بینظیربھٹوتومحفوظ رہیں مگرسینکڑوں کارکن شہید اور دوہزارکے لگ بھگ معذوروزخمی ہوگئے۔طاغوتی طاقتوں کی دھمکیوں،ڈراووں اور مشوروں کے باوجودشہید بی بی سماجی،سیاسی،جمہوری سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے عوامی رابطوں میں مصروف رہیں۔آن ریکارڈمصدقہ شواہد کے مطابق محترمہ بینظیربھٹوکومسلسل خبردارکیاجارہاتھاکہ آپ ٹارگٹ ہیں،اپنی نقل وحرکت روک دیں مگروہ نہ رکیں.27دسمبر2007 کو طے شدہ شیڈیول کے مطابق محترمہ بینظیربھٹوصبح ہی پشاورپہنچ چکی تھیں۔ساڑھے دس بجے وہ پشاورھائیکورٹ پہنچیں۔انہوں نے پشاورہائیکورٹ بارسے بہت اہم،بامقصداور”الارمنگ”خطاب کیا. جس کے فوری بعد گورنر کے پی کے اور وفاقی وزارت داخلہ کے اعلی عہدیداران شہید بی بی سے ملے۔ انھیں بتایاکہ آپ کی جان کوشدیدخطرات لاحق ہیں اس لئے آپ لیاقت باغ راولپنڈی کا جلسہءعام ملتوی کردیں۔شہید بی بی نے ان کا رسمی شکریہ اداکیا مزیدکوئی بات نہیں کی۔محترمہ پروگرام کے مطابق دوپہرکوراولپنڈی پہنچ گئیں۔اسی روز میاں نواز شریف بھی راولپنڈی میں عوامی اجتماع سے خطاب کرنے والے تھے۔ طاغوتی طاقتوں نے محترمہ بینظیربھٹوکوڈرانے کیلئے میاں نوازشریف کے جلسہ میں فائرنگ کرادی چار.پانچ افراد موقع پرہی جاں بحق ہوگئے۔محترمہ بینظیربھٹونے اس بربریت کی شدیدمذمت کی،لیگی کارکنوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کیا تاہم خوفزدہ نہیں ہوئیں اورمقررہ وقت پر لیاقت باغ راولپنڈی کے عظیم الشان عوامی سیلاب کے روبرو جاپہنچیں۔راقم سمیت لاکھوں جیالے اس بات پر متفق ہیں کہ محترمہ کی آخری تقریر پہلی ایسی تقریرتھی جوشہیدبھٹو کااندازبیاں تھا یہ وہ اندازہے کہ جس کی تاثیراورجادو میں ڈوبے جیالے آج بھی ان کے مزار سے بندھے ہوئے ہیں۔اس آخری عوامی خطاب کے بعد واپس جاتے ہوئے وہ قیامت صغری بپاکی گئی کہ محترمہ بے دردی کے ساتھ شہید کردی گئیں۔کئی جیالوں نے بھی اپنی جان واردی۔سامراج شہیدبھٹوکے بعد ان کے دو صاحبزادوں میرمرتضی بھٹو