عالمی حالات  کے جدید تناظرات میں وہ پاکستان کی قومی سلامتی کے روایتی تصورات کی بجاۓ  نئی جہتوں کا ادراک رکھتی تھیں۔

مجھے آصف زرداری پر فخر ہے کہ وہ میرے ساتھ کھڑے رہے ، بے نظیر بھٹو شہید

عوامی بے بسی کے خاتمہ کا پروگرام دینے والی بی بی شہید نے اس کیفیت کا مشاہدہ اپنی ذات سے کیا۔

سمجھتی ہوں کہ مستقبل میرے لیے اور میرے ملک پاکستان کے لیے مزید چیلنجزلاے گا۔


پاکستان کی قومی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے توذوالفقار علی بھٹو اور ان کی سیاست ہماری قومی سیاسی تاریخ کا سب سے اہم باب ہے ۔ انہوں نے پاکستان میں عوام کی سیاست کو رواج دیا اور وطن عزیز کے اقتدار اعلیٰ میں ان کو شراکت دار بنایا۔ عوامی مقبولیت کا جو عروج انہیں حاصل ہوا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ عوام میں ان کی پذیرائی نے انہیں ایک ایسا مقام عطا کر دیا تھا جس کا ان کے ہم عصر سیاستدان تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ ایک پرکشش اور خوبصورت شخصیت تھے۔ وہ تیسری دنیا کی اقوام کے لیڈر تھے۔اپنے طرز فکر کے حوالے سے ان کا وژن بہت بڑا تھا اور قومی سیاست کو عالمی تناظر میں دیکھتے تھے۔ ہماری قومی سیاست آج بھی بھٹو صاحب کے کرداروعمل اور ان کی سیاست کے زیر اثر ہے۔ ان کی موت جن حالات میں ہوئی اس کی ایک علیحدہ تاریخ ہے جو متنازعہ بھی ہے اور المناک بھی۔ جس نے پاکستان کی قومی سیاست کیلئے بھیانک نتائج مرتب کئے جن کا تسلسل آج بھی جاری و ساری ہے اور ایک آدمی آج بھی ایسا سمجھنے سے قاصر ہے کہ بھٹو کی جان لینے سے قوم کو کیا فائدہ حاصل ہوا۔ بظاہر یہ سمجھ لیا گیا کہ بھٹو کو ختم کر کے پیپلز پارٹی اور عوام کی سیاست کا بھی خاتمہ کر دیا گیا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
بھٹو صاحب پر جب ایک شخص کے قتل کے الزام کا مقدمہ عدالتوں میں زیر سماعت تھا تو صاف نظر آ رہا تھا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا اور ایک گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جس کا مطلب عدالتوں کے ذریعے ایک عوامی لیڈر کو موت کی سزا دینا ہے۔ ان حالات میں بینظیر بھٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ قائد عوام کی زندگی کو ختم کر کے عوام کو ان کی قیادت سے محروم کیا جا سکتا ہے تو وہ شائد بھول رہے ہیں کہ عوام کو قیادت سے کبھی محروم نہیں کیا جا سکتا۔اس حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ چیئرمین بھٹو کی شہادت کے بعد قومی سیاست میں قیادت کے خلا کو شہید  بینظیر بھٹو نے بھرپور طریقے سے پورا کیا ۔لیڈر شپ کے گہرے وجدان اور فہم و ادراک سے وہ جس گہرائی سے پاکستان کی داخلی خارجی مجبوریاں کا احاطہ کرنے کا ادراک رکھتی تھیں اور جس طرح دوراندیشی سےآنے والے حالات کے خدشوں اور ہلاکت خیزیوں کے سایوں کو پڑھ لیتی تھیں اسی گہرائی اور دور اندیشی سے وہ اپنے عوام اور ملک و قوم کو ان کی نحوستوں سے بچانے کیلئے تدابیر بھی جانتی تھیں۔ عالمی حالات  کے جدید تناظرات میں وہ پاکستان کی قومی سلامتی کے روایتی تصورات کی جگہ مثبت کرافٹنگ کی نئی جہتوں کا ادراک رکھتی تھیں۔ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے باعث ہمارے جدید عہد کی ایک بہت بڑی سیاسی لیڈر ہی نہیں بلکہ لیڈر شپ کا رول ماڈل تھیں۔ ان کی شخصیت کے تمام پہلو شاندار تھے۔کہا جاتا ہے کہ قومی استحکام اور پاکستان کی بقا کو لاحق خطرات کو بھانپ لینے میں محترمہ کے تدبر کا مقام ایسا تھا جو ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کے تدبر کی معراج تھا۔ ایک بیٹی کی حیثیت سے وہ ایسی اولاد تھیں جس پر اس کا باپ اور ماں فخر کر سکیں۔ ان کی پیدائش کے واقت ان کے عظیم باپ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں بینظیر کا نام دیا تھا اور انہیں نے اپنی صلاحیتوں، سیاسی بصیرت، جمہوری حقوق کی جدوجہد میں جرأت اور بہادری سے سچ ثابت کر دیا۔ حقیقی معنوں میں وہ بینظیر تھیں اور تاریخ کے صفحوں پر وہ اپنے بینظیر حوالوں سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔بینظیر بھٹو ایک متاثر کن شخصیت تھیں ان کے مداح اور ان کے نقاد سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ دو دفعہ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے والی بینظیر بھٹو پاکستان کی سب سے با صلاحیت سیاستدان تھیں۔ آکسفورڈ کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین تقریر کرنے والی ایک انتہائی خوبصورت خاتون جس نے  35 سال کی عمر میں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کیلئے ایک امید اور اپنے عوام کی نمائندہ آواز تھیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو ملک میں جمہوریت کی بحالی کا ایک نمونہ تھیں لیکن ان کے بعد پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس میں آسانی سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ ’’پاکستان میں جمہوریت کی ہیرو‘‘ کے عنوان سے ان کے کرداروعمل کا اعتراف کرتے تھے۔
دختر مشرق‘‘ اپنی خود نوشت آپ بیتی میں بینظیر بھٹو کہتی ہیں کہ ’’میں نے اس زندگی کا انتخاب نہیں کیا ، اس نے میرا انتخاب کیا۔ ’’
پاکستان کوئی معمولی ملک نہیں اور میری زندگی بھی معمولی زندگی نہیں ہے ۔میرے والد اور دو بھائیوں کوقتل کر دیا گیا۔ میری والدہ ، میرے شوہر اور مجھے قید خانے میں ڈالا گیا۔ میں نے ایک طویل عرصہ جلا وطنی میں گزارا۔ مشکلات اور اندوہناک زندگی کے باوجود میں مطمئن ہوں ۔ مجھے اطمینان ہے کہ میں نے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہو کر پرانی روایتوں اور رسوم کا قلع قمع کیا۔ الیکشن کے دنوں میں عالم اسلام میں یہ چبھتا ہوا سوال زیر بحث تھا کہ اسلام میں ایک خاتون کا کیا کردار ہے؟ آخر میں ثابت ہوا کہ ایک عورت وزیراعظم منتخب ہوسکتی ہے، ایک ملک کی حکمران ہو سکتی ہے ،مردوں اور عورتوں کی واحد رہنما ہوسکتی ہے ۔ میں اس عزت افزائی پر پاکستان کے لوگوں کی شکر گزار ہوں ۔ اگر چہ جدت پسندوں اور انتہا پسندوں میں یہ بحث ابھی تک جاری ہے عالم اسلام میں عورتوں نے قدم آگے بڑھایا ہے اور جب میں نے 2 دسمبر 1988 ءکو وزارت عظمی کا حلف اٹھایا تو اس کے بعد یہ قدم آگے ہی بڑھے ہیں ۔ اس دنیا میں بہت کم افراد کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ سماج میں تبدیلی لاسکیں ، ملک کو نئے جدید دور میں لائیں عورتوں کے کردار کوگھسی  پٹی روایت تک محدود نہ رہنے دیں بلکہ محروم لوگوں کو روشن مستقبل کی امید دلائیں ۔
وہ کہتی ہیں کہ’’اس زندگی کو میں نے نہیں چنا مگر یہ زندگی ذمہ داری اور خواہشات کو پورا کر نے کی جدو جہد کا نام ہے اور میں بیس سال مزید قبل ، زندگی کے واقعات کی روشنی میں یعنی میرے والد کاقتل، میری حراست اور سیاست میں ذمہ داری نبھانے کی لگن ، اس دوران مجھے ذاتی فرحت یعنی محبت ، شادی اور اہل وعیال کی پرورش جیسی خوشیوں کی کم توقعات تھیں ۔انگلستان کی ملکہ ایلز بتھ اول کی طرح ، جس نے قید بھی برداشت کی اور مجر وزندگی کا ٹی میرا بھی خیال تھا کہ میں مجرد ہی رہوں گی ۔ تاہم میری ذاتی زندگی میں ایسا نہ ہوا۔ مشکلات کے باوجود مجھے شادی کی مسرتیں حاصل ہوئیں ۔ مجھے اپنے خاوند پرفخر ہے کہ وہ ہماری 19 سالہ شادی شدہ زندگی میں حوصلہ نہیں ہارا اور میرے ساتھ کھڑا رہا۔ اس عرصہ میں وہ یا تو وزیراعظم ہاؤس میں رہایا سیاسی قیدی رہا۔ اتنا عرصہ علیحدگی کے باوجود ہمارے تعلقات میں کشیدگی نہیں آئی حالانکہ کچھ لوگ رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے‘‘۔
محترمہ بینظیر بھٹو 1986میں جب اپنی جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آنے کی تیاریوں میں تھیں تو دنیا بھر کے میڈیا میں ان کی پاکستان واپسی کا ایشو توجہ کا مرکز بناہوا تھا ، ایک غیرملکی صحافی نے اپنے انٹرویو میں ان سے استفسار کیا کہ آپ کے سیاسی مقاصد میں سب سے اہم کیا ہوگا ؟ جس کے جواب میں محترمہ نے کہا ،ہمارے لئے سب سے اہم پاکستان کے عوام ہیں اور عوام کی خدمت ہی ہماری ترجیح ہوگی ، اگلا سوال تھا ، آپ کے والد نے پاکستان کے عوام کیلئے روٹی ، کپڑا اور مکان کو ان کابنیادی حق قرار دیا اور پھر انہوں نے اسے اپنا عوامی نعرہ بنایا جو ان کی سیاسی جدوجہد کا مرکز بنا ، اپنے والد کے بعد آپ کے پاس ایساکیا نیا دعوی ہوگا جسے آپ اپنی سیاسی ترجیحات کا مرکزبنائیں گی ؟ محترمہ نے جواب دیا ،ہمارے لئے اپنےعوام کی” بے بسی ” کا خاتمہ ہماری ترجیح ہوگا ، جس کی وضاحت کرتے ہوئے محترمہ نے کہا بے بسی سے مراد ایک ایسی صورتحال ہے کہ’’ کوئی انسان صرف اس لئے موت کے منہ میں چلاجائے کہ اس کے پاس علاج معالجے کے وسائل نہیں تھے ، اگر وسائل ہوتے تو وہ زندہ رہ سکتا تھا ، اس کے پاس وسائل نہیں تھے وہ بے بس تھا ، ہم ایسی بےبسی کے ہاتھوں زندگیوں کا خاتمہ نہیں ہونے دیں گے ، ہم اس کے خلاف لڑیں گے اور عوام میں بے بسی ختم کریں گے ، اسکے بعد اس نظریے کوابلاغ دیکر عوامی مشکلات ، محرومیوں اور بے بس ظبقوں کی بنیادی سہولتوں کے حصول کیلئے سیاسی جدوجہد ہمارا نعرہ ہوگا ‘‘. یہ ایک ایسی شخصیت کاویژن ہے جس کی خود اپنی زندگی میں بے بسی کے لمحوں کا حصہ زیادہ ہے ، اس سے بڑی بے بسی کیاکہ اسے اپنے باپ کی موت پر رونے کیلئے دوسراکندھا بھی نہ مل سکا ، وہ جیل میں پڑی بیماریوں سے لڑتی رہی اور اس کے دشمن اس کی بے بسیوں کو انجوائے کرتے رہے۔ اس نے بے بسی کی کیفیتوں کا مشاہدہ خود اپنی ذات سے کیا ۔جنہوں نے بے بسی کی ساری حالتوں کا مقا بلہ کیا اور سرخرو ہو ئیں ۔ قوم کی قیادت کی علامت بنی اورقوم کے ارادوں کو مضبوط کرتی رہیں ۔انہوں نے سول بالا دستی اور عوام کی منتخب قیادتوں کے حق اقتدار کے خلاف طالع آزما غاصب قوتوں کے خلاف تمام زندگی مزاحمت کی اور عوام کے جمہوری حقوق کے حصول کیلئے آخر دم تک جنگ کرتی ر ہیں ۔