آج ہم آپ کو عوام کی آواز ہم عوام ویب سایٹ پر خوش آمدید کہتے ہیں

‘میرا زمانہ میری کہانی’

‘میرا زمانہ میری کہانی’

میرا زمانہ میری کہانی ” ستر اور اسی کی دہائی میں پی ٹی وی پر خبریں پڑھنے والی مشہور نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر کی خود نوشت ہے۔
گذرے ہوئے کل میں لکھی جانے والی ماہ پارہ صفدر کی کتاب ” میرا زمانہ میری کہانی ” کئی حوالوں سے غیر معمولی اہمیت کی حامل کتاب ہے۔ بظاہر اس کتاب میں مصنفہ کی زمانہ طالب علمی اور پیشہ ورانہ صحافتی زندگی کے اہم واقعات کو قلم بند کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں  یہ ستر اور اس کے بعد کے عشروں کے پاکستانی سماج اور سیاست کی غیر جانب دارانہ تاریخ ہے۔ قارئین کی سہولت اور دل چسپی کے لیے مصنفہ نے کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے علاوہ ہر حصے کو الگ الگ ذیلی ابواب کے ساتھ لکھا ہے۔ پہلے حصے میں مصنفہ نے ساٹھ اور ستر کے عشرے میں اپنے لڑکپن، کالج اور یونیورسٹی دور کے نجی اور سماجی حالات کی منظر کشی کی ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ ستر اور اسی کے عشرے میں رونما ہونے والے غیر معمولی نوعیت کے سماجی اور سیاسی واقعات و تبدیلیوں کو بیان کرتا ہے۔ کتاب کا تیسرا حصہ ایک میڈیا کارکن(بی بی سی اردو) کی حیثیت سے لندن سمیت دنیا بھر میں مصنفہ کے صحافتی مشاہدات و تجربات پر مبنی ہے۔ اس حصے میں انہوں نے بی بی سی اردو کے نمائندے کے طور پر  بلوچستان پر سیریز پروگرامز کرنے کا احوال قلمبند کرنے کے علاوہ ایران، عراق، شام اور مصر میں اپنے پیشہ ورانہ سفروں کی روداد بھی بہت دلچسپ انداز میں بیان کی ہے۔
کتاب میں پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں کے اصل اسباب و عوامل پر روشنی ڈالنے کے علاوہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ کتاب کے باب “بھٹو خود میں ایک سونامی” میں مصنفہ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے ہاں چند سال قبل عمران خان کی انتخابی مہم کو سونامی کا نام دیا گیا لیکن ان کے مطابق ستر کے عشرے میں بھٹو کسی شخص کا نام نہیں حقیقی سونامی کا نام تھا۔ کتاب میں بھٹو کی مقبولیت کا سیر حاصل تذکرہ بھی ہے اور بھٹو صاحب کی ان سیاسی غلطیوں کا بیان بھی ہے جو ملک میں تیسرے مارشل لاء لگانے اور عوامی لیڈر کو تختہ دار تک پہنچانے کا باعث بنیں۔ اس باب کے علاوہ بھی متعدد ابواب بار بار پڑھنے لائق ہیں۔
کتاب میں جنرل ضیاء کی آمد کے بعد ٹیلی ویژن کے بدلے منظر کا ذکر بڑے دلچسپ پیرائے میں کیا گیا ہے۔ ماہ پارہ لکھتی ہیں کہ دوپٹہ سر پر لینے کے انداز پر بار بار ٹوکے جانے کے بعد انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ دوپٹہ ایسے اوڑھنا شروع کر دیا جیسے عموما دوران نماز خواتین اوڑھ لیتی ہیں۔ جنرل ضیا کو ان کا ایسے دوپٹہ اوڑھنا سخت ناگوار گزرا اور انہوں نے اگلے ہی دن اپنے سیکرٹری انفارمیشن جنرل مجیب کے ذریعے پیغام بھیجا کہ ماہ پارہ سے پوچھیے کہ کیا وہ دوپٹے کا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کتاب کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ اس میں گھریلو، سماجی اور پیشہ ورانہ سطحوں پر خواتین سے روا رکھے جانے والے استحصالی اور امتیازی سلوک کی بار بار نشان دہی کی گئی ہے۔ کتاب کے آخری 30 صفحات ماہ پارہ صفدر کی شاعری کے لیے مختص ہیں۔ شاعری کا معیار بھی بہت اعلی اور متاثر کن ہے۔
بک کارنر جہلم کے تحت شائع کی جانے والی اس کتاب کی طباعت و اشاعت نہایت ہی اعلی اور خوب صورت ہے۔ 20 صفحات پر بلیک اینڈ وائٹ اور کلر تصاویر میں مصنفہ کے لڑکپن، زمانہ طالب علمی اور پیشہ ورانہ صحافتی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے جس نے کتاب کی خوب صورتی کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ کتاب کی تدوین استاد صحافت اسلم ملک صاحب نے کی ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک معلوماتی اور فکر انگیز کتاب ہے۔ سیاست و صحافت کے طالب علموں اور ملکی و عالمی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

About The Author

مظہر چوہدری

مظہر چودھری قومی سطح کے کالم نگار ہیں۔حقوق نسواں، حقوق اطفال اور محنت کشوں کے حقوق سمیت انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ لائسیم سائنس کے نام سےایک تعلیمی ادارہ بھی چلا رہے ہیں۔ سیر و سیاحت اور کتب بینی کے فروغ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

Leave a reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.