اس لمحے ہم آپ سے زیر ذکر موضوع پر well considered گفتگو نہیں کر رہے ۔ بنیادی مقصد تو آپ کے سامنے اس ملک کے لیفٹ کو دیگر درپیش کئی مسائل کے ساتھ ساتھ علمی زوال پزیری کے موضوع کو independent subject کے طور پر رکھ کر اجتماعی دانش کی روشنی میں حل ڈھونڈنے کی سعی کرنا ہے ۔ویسے تو ہمارے نزدیک یہ عالمی مسلہ ہے ۔ اگر کوئی دوست عالمی تناظر میں اس موضوع پر گفتگو کرے تو خوشی بھی ہوگی اور جاننے کا موقعہ بھی ملے گا ۔ ہمارے نزدیک عالمی ہونے کے باوجود ابھی تک دنیا بھر کی 70 سے زائد کیمونسٹ ،ورکرز پارٹیز کے پلیٹ فارم نے کوئی comprehensive document نہیں لکھا ۔جس پر آج ہم بحث کر رہے ہوتے ۔
       بعض ساتھیوں کے نزدیک ہم نظریاتی تنظیمی سوالات پر بال کی کھال اتارتے ہیں ۔ یہ بات ایک حد تک درست ہو سکتی ہے۔ چونکہ ہمارے نزدیک جب تک لیفٹ کا نظریاتی قبلہ درست نہیں ہوگا ۔ لیفٹ میں unity of action پیدا نہیں ہو سکتا ۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے  نزدیک نظریاتی قبلہ کی درستی وہی ہوگی۔ جسے ہم درست سمجھتے ہیں ۔ ساتھ ہی ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ ہم عقل کل نہیں ہیں ۔ کسی دوسرے کی راۓ بھی درست ہو سکتی ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ درست کا فیصلہ کیسے ہوگا ۔ ہماری رائے میں دو ہی راستے ہیں ۔ پہلا دوستوں کے درمیان بغیر کسی کھچاؤ کے  کھلی debate ۔ جس کا ابھی تک مجموعی لیفٹ اور انفرادی طور پر ہمارے سمیت بائیں بازو کی جماعتوں میں ماحول نہیں بن پایا ۔ اس کی ذمہ داری ہمارے نزدیک ہم سب  کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مخصوص سوشواکنامک حالات قبائلی ،جاگیردارانہ کلچر بھی ہے  ۔ اس کی roots بہت گہری ہیں ۔ ہم اپنے قبلہ کی وضاحت تو کر سکتے ہیں ۔ لیکن دوسرے دوست خود اپنے نقظہ نظر کی وضاحت کریں تو ہی بہتر ہوگا ۔ ہم نے متعدد بار اپنے نقظہ نظر کی وضاحت کی ہے ۔ بار بار کرتے رہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے ۔ ہم اپنے آپ کو مارکسسٹ لیننسٹ سمجھتے ہیں اور بولشیوک legacy سے جوڑتے ہیں ۔ لفظ legacy بہت غور طلب ہے۔ ہم گزشتہ ایک صدی میں ٹیکنالوجی ،urbanization کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی سماجی تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کرنے پر مکمل ایمان رکھتے ہیں ۔ کوئی دوسرا ہماری بات کو کیسے interpret کرتا ہے ۔ ہم اس کی تشریح کے جواب دہ نہیں ۔ ہم جدلیات ، قدر زائد اور طبقاتی کشمکش کو آج بھی درست اور valid مانتے ہیں ۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجیکل سماجی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والی سماجی پیچیدگیوں کے نتیجہ میں نئی نئی طبقاتی پرتوں کو اپنے اندر سمونے کے پابند بھی ہیں ۔مثلا  IT لیبر وغیرہ، لیکن اس کے علاوہ بھی کئی ایک نئی نئی پرتیں معرضِ وجود آئی ہیں ۔   یہ تو ہو گیا ہمارا نقظہ نظر ۔ 
           اب رہی بات بال کی کھال اتارنے کی ۔ ہمارے نزدیک سوویت debacleکے بعد مذکورہ بالا main stream نظریاتی دھارا کمزور پڑتا گیا ۔ عالمی سطح پر بائیں بازو میں نظریاتی زوال پزیری بھی دن بدن بڑھتی گئی ۔اس مین سٹریم نظریاتی دھارے کے مقابل سوویت بلاک کی موجودگی میں بھی دیگر نظریاتی دھارے periphery میں موجود تھے ۔ لیکن مین سٹریم دھارے کے کمزور پڑنے کے نتیجہ میں سیکنڈری دھارے سنٹر کی طرف بڑھتے گئے ۔ ان سیکنڈری دھاروں کے پیچھے سامراجی پراجیکٹس بھی کام کر رہے تھے اور کر رہے ہیں ۔ باوجود چین ایک بڑی طاقت بن جانے کے اس نے سوویٹ دور کی ذمہ داری نہیں اٹھائی ۔ چین ابھی تک G to G relationship کو ترجیح دے رہا ہے ۔ چین نے سوویٹ انہدام سے کیا سبق سیکھے ہیں ۔ اس کی وضاحت بھی چین ہی کر سکتا ہے ۔ البتہ ہم آج بھی چین کو اپنی بعض reservations کے ساتھ اشتراکیت پزیری کی طرف گامزن سمجھتے ہیں ۔ بال کی کھال اتارنے کی بات پھر وہیں رہ گئی ۔ سوویٹ یونین کے گرنے سے بلعموم اور گزشتہ دس بارہ سال کے اپنے experience سےبالخصوص  ہم نے جو سیکھا ہے ۔ کہ جب تک زمین پر فکری clarity رکھنے والا کیڈر نہیں ہوگا ۔ پارٹی نہیں بنے گی۔ پارٹی، نظریاتی کیڈر بناتا ہے ۔ جو عمل سے بھی سیکھتا ہے ۔اس وقت ہم علم اور عمل کے جھگڑے میں نہیں پڑ رہے ۔ صرف علمی زوال پزیری پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس زوال پزیری کی ابتدا تو فری مارکیٹ اکانومی سے ہو گئ جب ٹریڈ یونین کے راستے مسدود ہونے لگے۔ لیکن آخری blow سوویٹ یونین کا گرنا تھا ۔ جس سے periphery نظریاتی دھاروں نے سنٹر کا رخ کیا ۔ ہمیں پتہ ہے کہ یہاں بعض دوست periphery نظریاتی دھاروں کا سوال پوچھیں گے ۔ ہم  اپنے متعدد آرٹیکلز میں وضاحت کر چکے ہیں ۔ اس بار ہم شعوری طور اجتناب کر رہے ہیں ۔ تاکہ ہمارا سوال غلط مباحث کی طرف نہ چلا جائے ۔ہمارے نزدیک جو دوست لیفٹ کے بکھرے یا کمزور ہونے کا ہر وقت طعنے دینے میں لگے رہتے ہیں ۔ وہ یہ بھی جان لیں کہ فلحال لیفٹ کے یک جان ہونے کے بہت کم امکانات ہیں ۔ اور جلد طاقتور بن جانے کے بھی فوری آثار دکھائی نہیں دیتے۔ 
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم 
ابھی تو چار چار افراد کی لیفٹ پارٹیز ، گروپس کھمبیوں ( mushrooms ) کی طرح آگھ رہی ہیں ۔ ہم ان کا یہ جمہوری حق سمجھتے ہیں ۔ لیکن زمینی حقائق کے ادراک کی غرض سے زکر کر رہے ہیں ۔ ایک دوسری مصیبت بھی ہے کہ ابھی تک ہم مڈل کلاس کے اندر ہی چھپن چھپائی کھیل رہےہیں ۔ تنظیموں کے پیچھے ورکنگ کلاس کی طاقت نہیں ہے ۔  ہم ہی نہیں ابھی تو پوری دنیا ایسی صورتحال کو Face کر رہی ہے ۔ کہنے کا مقصد ہےکہ یہ صبر آزما جدوجہد ہے۔ سیاسی تنظیمیں جتنی کمزور ہوں گی، سچ بھی اتنا ہی کمزور ہوگا۔ ہمارے سمیت ابھی تمام بائیں بازو کی جماعتوں میں 25 فیصد سچ بولا جا سکتا ہے۔ تنکا تنکا جوڑ کے جو بن رہا ہے ،اسے بکھیرنا نہیں جوڑنا مقصد ہے ۔لیکن نظریاتی compromise پر نہیں ۔انقلابات کی بیسویں صدی خود اس بات کی گواہ ہے کہ نظریاتی compromises کی بنیاد پر کبھی پارٹیاں نہیں چلیں ۔سوویٹ پارٹی میں اگر یلسن پولٹ بیورو تک پہنچ جاتا ہے ۔ تو نتیجہ اس کے علاوہ کیا ہو سکتا تھا ۔ مطلب ہے پارٹی پر توجہ کم ہو گئ تھی ۔سوویٹ Failure کی اور کئی وجوہات کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی وجہ پارٹی Failure تھا ۔ ہمارا اپنا تجربہ عوامی ورکرز پارٹی بناتے وقت ٹراٹسکائیٹس کے ساتھ سمجھوتہ کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔ بلآخر نہ چل سکے ۔ 
              
صاحب تحریر عوامی ورکرز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ زیر نظر آرٹیکل پر قارئین کو اپنی رائے دینے کی دعوت ہے