جب گائے پاکستانی مسلمانوں کے لیے مقدس درجہ رکھتی تھی

     گائے صدیوں تک زرعی معیشت میں اہم رول ادا کرتی رہی ہے۔ دودھ،دہی،مکھن ایندھن(گوبر)انسانی زندگی کی نشوونما اور بقا کے لئے اہم کردار کے حامل تھے۔اس کا بچھڑا( بیل) ہی تھا جو زرعی معشیت کا پہیہ چلاتا تھاکیونکہ اس  کے بغیرکاشت کاری ناممکن تھی۔انسانی زندگی کی بقا اور معیشت کے لئے اس کے اہم اور بنیادی کردار کی بدولت زرعی عہد میں اس کی پوجا شروع ہوئی اور اس کی توہین کرنے والا سماج کا دشمن قرارپایا۔ ہندومت نے اسے گاؤ ماتا کہہ کرمعاشی اور انسانی ضرورتوں کی تشفی کے لئے اس کے رول کا اقرارکیا تھا۔ گائے کا گوشت کھانا بلاسفیمی( توہین مذہب ) کے زمرے میں شمار ہوتا تھا۔ گائے کو ہندووں کی طرف سے احترام دینے کی بدولت دوسری کمیونٹیوں نے بھی اپنے اپنے انداز میں گائے کو عزت واحترام دینا شروع کردیا تھا۔ ہمارے بچپن میں ( نصف صدی قبل ) بیف/ بڑا گوشت  صرف غریب کھاتے تھے یعنی یہ دلت ہی تھے جو گائے کا گوشت کھاتے تھے جبکہ  ہندووں میں برہمن اور مسلمان اشرافیہ  بیف کھانے کو کم تردرجے کا فعل سمجھتے تھے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ ہوش ربا مہنگائی نے اب بیف کو غریب مسلمان توکجا اچھے بھلے خوشحال افراد کی پہنچ سے دور کردیا ہے۔
کمپوزٹ کے اثرات کی بدولت مسلمانوں میں بھی مقدس گائے کا تصور موجود تھا۔ ہم نے پچپن میں دیکھا کہ گائے کا ریوڑ محلوں  گلیوں اور میں گھوما کرتا تھا جنہیں بزرگ مرو وعورتیں بابا فرید کی گائیں کہا کرتے تھے۔ عورتیں انھیں آٹا کا پیڑا دیتی تھیں اور کچھ ان کے گلے میں کپڑے میں باندھ کر ایک روپہ اٹھنی یا چونی لٹکادیا کرتی تھیں۔ یہ گائیں جدھر چاہتی چلے جاتی تھیں اور بعض کھانے پینے کی دکانوں پر بھی منہ ماردیتیں تو دوکاندار انھیں پیار سے پرے دھکیل دیا کرتے تھے اور ان پر ڈنڈا اٹھانا گناہ سمجھا جاتا تھاستر کی دہائی آتے یہ مقدس ریوڑ ختم ہوتے چلے گئے کیونکہ وہ پیڑھی جس کا تعلق تقسیم سے قبل کے ہندوستان سے تھا ، بتدریج ناپید ہوتی چلی جارہی تھی.