مسلمانوں کی  یہودیوں سے نفرت کیوں؟
مسلمانوں میں یہودیوں سے اس قدر نفرت کیوں ہے؟ آخر وہ کون سے عوامل، وجوہات اورمحرکات ہیں جو مسلمانوں کو یہودیوں کےخلاف ہمہ وقت کمر بستہ رکھتے ہیں۔ہر مولوی اور واعظ موقع بموقع یہودیوں کو رگیدنا اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہےحتی کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے مسلمان بھی دنیا میں ہونے والی ہرناانصافی اور زیادتی کا الزام یہودیوں کے سر تھوپتے ہیں۔
یہودیوں کے خلاف پائی جانے والی عمومی نفرت کے پس پشت صدیوں پر محیط مسیحی پراپیگنڈہ  ہے ۔یہ اسی  کا شاخسانہ ہے کہ شیکپیر جیسا ڈرامہ نگار بھی یہودیوں کو مطعون کرتا ہےاورانھیں ظالم،لالچی اور خود غرض قرار دیتا ہے۔
 دراصل مسیحیوں کو یہودی کافر سمجھتےتھے کیونکہ انہوں نے ایک یہودی المذہب حضرت مسیح علیہ السلام کو اپنا نبی تسلیم کرلیا تھا جو یہودیوں کے نزدیک قطعاً قابل قبول نہیں تھا۔دوسری وجہ یہودی اپنے مذہب کی تبلیغ پر یقین نہیں رکھتے تھےاورکوئی شخص کنورٹ نہیں ہوسکتا تھا یہ بات یہودی مذہب اوریہودیوں کو پراسرار بناتی اور دوسرے مذاہب اورسماج سے علیحدہ کردیتی تھی۔پراسراریت ہمیشہ خوف اور نفرت کا باعث بنتی ہے۔یہودیت اورمسیحیت کے مابین صدیوں پر محیط یہ مذہبی چپقلش مسلمانوں میں بھی منتقل ہوئی تھی۔ یہودیوں اور مسیحیوں نے ایک دوسرے کے مذہب اورمذہبی عقاید کے خلاف کتابیں لکھیں اور اپنے اپنے پیروکاروں کی ایک دوسرے کے خلاف ذہن سازی سازی کی تھی۔صنعتی انقلاب کے نتیجے میں یورپ میں یہودیوں کےخلاف منفی  پراپیگنڈہ کم ہونا شروع ہوا لیکن سیاسی اورسماجی فضا بدلنے کے باووجود اس کے اثرات بہت گہرے تھے۔نوآبادیاتی دور میں مسلمان ممالک میں مسیحی مشنریوں نے یہود مخالف جذبات مسلمانوں میں پھیلائے تھے۔یہودی تاجر اور بیوپاری تھےاورقرون وسطی میں تاجروں کو نفرت سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ عامۃ الناس کا استحصال کرتے ہیں۔اہل تشیع بارے جو تعصبات اور افواہیں مین سٹریم مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں وہ ہو بہو وہی ہیں جو مسیحیوں نے یہودیوں بارے مشہور کررکھی تھیں۔جیسا کہ شیعوں کے ہاں سے آنے والی نیاز نہیں کھانا چاہیے کیونکہ یہ ذوالجناح کی جوٹھی ہوتی ہے یا یہ کہ شعیہ جو نیاز دیگر مسلمانوں کی دیتے ہیں اس میں وہ تھوک دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ یہ باتیں صدیوں قبل مسیحیوں نے یہودیوں بارے پھیلائی ہوئی تھیں۔
جدید عہد میں یہودیوں کی سماجی،معاشی اور سائنسی میدان میں ترقی نے بھی پسماندہ ممالک کے داشوروں کو ان سے حسد اور نفرت میں مبتلا کردیا ہے آج سائنس کا شاذ ہی کوئی ایسا شعبہ ہوگا جس میں یہودی سائنس دانوں نے اپنے علم و تحقیق کی دھاک نہ بٹھائی ہو۔ یہودیوں کی اس ترقی اور کامیابی سے پسماندہ مسلمان ممالک کے دانشور سیکھنےاورمسابقت کرنے کی بجائے شکست خوردگی کے احساس کے زیر اثر نفرت اورغصے کا اظہار کرکےخود کو تسلی دیتے ہیں۔