لاہور شہر میں بچ جانے والی قدیمی عمارتوں کی اپنی پینٹنگز میں بھرپور عکاسی کرنے والے مصور ، ادیب اور کالم نگار ڈاکٹر اعجاز انور نے تقسیم ہند سے ایک سال پہلے لدھیانہ میں جنم لیا اور آزادی کے وقت والدین کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور چلے آئے تھے یہاں کے علاقے قلعہ گجر سنگھ میں ان کی پہلی رہائش رہی بعدازاں علامہ اقبال ٹاؤن منتقل ہو گئے تھے انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے (آنرز) کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی شعبہ فائن آرٹس ( اولڈ کیمپس ) سے 1967ء میں ایم اے کر کے گولڈ میڈل حاصل کیا اور 1972ء میں پنجاب یونیورسٹی شعبہ فائن آرٹس سے لیکچرار مسلم آرٹ کے طور پر ملازمت کا آغاز کردیا تھا پھر استنبول یونیورسٹی سے مسلم آرٹ کے موضوع پر پی ایچ ڈی اور اٹلی سے یونسکو کا کورس کرنے کے بعد میکرے یونیورسٹی کمپالہ (یوگنڈا) کے مارگریٹ سکول آف فائن آرٹ سے سینئر لیکچرار کے طور پر وابستہ ہوگئے تھے بعدازاں لاہور واپس آکر نیشنل کالج آف فائن آرٹس میں اسسٹنٹ پروفیسر بن گئے تھے پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ڈائریکٹر آرٹ گیلری کے عہدے سے ریٹائر ہو گئے تھے وفاقی حکومت نے ان کی فائن آرٹس کے لئے خدمات پر 1997ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس جبکہ صوبائی حکومت نے 2018 ء میں پرائیڈ آف پنجاب ایوارڈ سے نوازا تھا انہوں نے آرٹ کے طلبہ و طالبات کے لئے رائیونڈ روڈ پر چنار کوٹ میں ننھا ہاؤس بنا رکھا ہے جہاں ہر اتوار کو موجود ہوتے ہیں اور آرٹ کی سرگرمیاں کرتے ہیں ۔
   ڈاکٹر اعجاز انور لاہور شہر کے حوالے سے انگریزی اخبارات میں کالم لکھتے چلے آرہے ہیں سب سے پہلے انہوں نے ڈیلی پاکستان ٹائمز میں کالم لکھنا شروع کیا تھا اس وقت یہ اخبار سرکاری ملکیت میں آچکا تھا اورنیشنل پریس ٹرسٹ کے تحت شائع ہوتا تھا تقسیم ہند سے قبل 1947ء میں پاکستان ٹائمز جب پی پی ایل کے تحت میاں افتخار الدین نے جاری کیا تھا تو فیض احمد فیض اس کے پہلے چیف ایڈیٹر بنائے گئے تھے انہی دنوں ڈاکٹر اعجاز انور کے والد انور علی  بھی بطور کارٹونسٹ ڈیلی پاکستان ٹائمز کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے بعدازاں ادارہ پی پی ایل نے اردو اخبار روزنامہ امروز بھی جاری کرلیا تھا جنرل ایوب خان کے مارشل دور میں حکومت نے پی پی ایل کے ان دونوں انگریزی اور اردو اخبارات کو سرکاری قبضے میں لے لیا تھا بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں نیشنل پریس ٹرسٹ کےچیئرمین واجد شمس الحسن نے ٹرسٹ کے تمام اخبارات کو بند کرنے کے لئے فائل تیار کرلی تھی تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف ہوجانے پر نوازشریف کے پہلے دور میں اس پر عملدرآمد کردیا گیا تھا پاکستان ٹائمز کا ڈیکلریشن جنگ گروپ نے حاصل کر کے اخبار کو ڈمی بنادیا تھا ۔
     پاکستان ٹائمز کی بندش کے بعد ڈاکٹر اعجاز انور نے دی نیشن میں کالم لکھنا شروع کر دیا تھا پھر فرنٹیئر پوسٹ اور دی نیوز میں کالم لکھتے رہے تھے ڈیلی پاکستان ٹائمز میں انہیں فی کالم ڈیڑھ سو روپے اور ڈیلی دی نیشن میں 500 روپے معاوضہ ملتا تھا  اب یہ ڈیلی ڈان اخبار میں کالم لکھتے ہیں انہوں نے پاکستان ٹائمز میں لاہور کے حوالے سے شائع ہونے والے اپنے اولین کالموں کا مجموعہ شائع کرنے کا ارادہ کیا تو معروف محقق عتیق الرحمٰن نے پنجاب پبلک لائبریری کے ریکارڈ روم میں محفوظ پاکستان ٹائمز کے فائل سے 4  مارچ 1981ء سے 14 نومبر 1998ء تک چھپنے والے ان کے کالم تلاش کر دیئے جس پر انہوں نے ان انگریزی کالموں کا مجموعہ “سم کالمز فرام دی پاکستان ٹائمز ” کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیا تھا اور اس کا انتساب پاکستان ٹائمز کے میگزین ایڈیٹر رہنے والے سید غلام سرور کے نام کیا جن کے صاحبزادے ڈاکٹر سید منصور سرور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر رہے ہیں ، ڈاکٹر منصور سرور کے غالبا” تایازاد ڈاکٹر مجاہد کامران بھی پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں جن کے والد سید شبیر حسین شاہ بھی صحافی تھے اور اپنے بھائی سید غلام سرور کی طرح پاکستان ٹائمز سے ہی وابستہ رہے تھے ۔
      الحمرا آرٹس کونسل میں ڈاکٹر اعجاز انور کے کالموں کے اس مجموعے کی تقریب رونمائی ہوئی تھی تو انہوں نے سابق  میگزین ایڈیٹر پاکستان ٹائمز سید غلام سرور کے صاحبزادے پروفیسر منصور سرور کو بطور مہمان خصوصی بلایا تھا ہم فیصل آباد میں ہونے کی وجہ سے اس تقریب میں شریک نہ ہو سکے تھے  چند ماہ بعد اولڈ ٹولنٹن  مارکیٹ میں دی کنزرویشن سوسائٹی لاہور کے قیام کی تقریب میں ڈاکٹر اعجاز انور نے ہمیں اپنی دو کتابیں دی تھی جن میں سے ایک کتاب یہی پاکستان ٹائمز کے مطبوعہ انگریزی کالموں کا مجموعہ تھا جبکہ دوسری کتاب ان کی پنجابی کتاب ” نئیں ریساں شہر لہور دیاں” کا انگریزی ترجمہ تھی ان کے انگریزی کالموں کے مجموعے کا مسودہ عامر امین نے نئے سرے سے کمپوز کیا جس کی ایڈیٹنگ و پروف ریڈنگ مس علیسہ انور ، نظرثانی محمد عارف خان اور ڈیزائننگ اسد وحید نے کی یہ کتاب “ہاؤس آف ننھااعجاز اورانورعلی ٹرسٹ” کے تحت عمر پرنٹرز سے طبع ہوئی تھی ، بڑے سائز کی مجلد کتاب کی ضخامت 288صفحات پر محیط ہے اور اس میں ڈاکٹر اعجاز انور کے 69 مطبوعہ کالم شامل ہیں کتاب کی قیمت 1000 روپے رکھی گئی ہے کتاب کی فروخت سے ہونے والی آمدن غالبا”فلسطین فنڈ کیلئے دے دی جاتی ہے۔
     دیباچے میں ڈاکٹر اعجاز انور بتاتے ہیں کہ انہوں نے مسٹر نقاش کے کہنے پر ڈیلی پاکستان ٹائمز میں کالم لکھنے کا آغاز کیا تھا پہلا کالم انہوں نے گھروں کی تعمیر کے حوالے سے لکھا اس کے چھپ جانے پر انہوں نے “لاہور اور تزئین و آرائش” کے عنوان سے خاصا طویل کالم کھ دیا تھا اسے بھی مسٹر نقش نے میگزین ایڈیٹر غلام سرور شاہ  کو بھیج دیا تھا جنہوں نے ان کے کالم میں  کوئی بھی تبدیلی نہ کی تھی ڈاکٹر اعجاز انور آغاز میں آرٹ اور آرکیٹکچر کے علاوہ دہلی کی تاریخی عمارات پر بھی کالم لکھتے رہے اس دوران تجربہ کار صحافی آئی اے رحمان نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ لاہور کے سماجی مسائل پر کالم لکھا کریں ابھی کمپیوٹر ، ڈیجیٹل کیمرہ اور موبائل فون شروع نہیں ہوئے تھے ٹائپ رائٹر کا زمانہ تھا وہ ٹائپ رائٹر پر خود کالم ٹائپ کرتے کالم میں چھپنے والی تصاویر بھی خود جا کر بناتے ایمرجنسی میں کیمرے سے دو تین تصاویر کےلئے بھی 36 تصاویر والی پوری ریل ڈویلپ کروانا پڑتی تھی انہوں نے تاریخی مقام مقبرہ جہانگیر کے ارد گرد پائی جانے والی تجاوزات کی تصاویر کھینچیں  تو شاہدرہ کا مافیا اور غنڈہ عناصر ان کے خلاف متحرک ہو گئے تھے بعد میں جب لیڈی ولنگڈن ہسپتال کا نیا بلاگ تعمیر کیا جانے لگا تو انہوں نے تحریک چلا دی کہ نیا بلاک بننے سے شہریوں کو بادشاہی مسجد کا منظر دیکھنے میں رکاوٹ پیش آئے گی اسی طرح اولڈ ٹولنٹن مارکیٹ کی عمارت بھی انہوں نے جدوجہد کرکے بچالی تھی ۔
   کتاب کے مصنف دیباچہ میں گلہ کرتے ہیں کہ نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے سابق ڈائریکٹر جنرل خالد سعید بٹ نے جب پنجاب آرٹسٹس ایسوسی ایشن قائم کی تھی اور پروفیسر نسیم حفیظ قاضی کے بعد جب میاں اعجازالحسن کو چیئرمین بنایا گیا تو وہ ان کے ساتھ سیکرٹری بنے تھے میاں اعجاز الحسن ایسوسی ایشن کے تاحیات چیئرمین ہی بن گئے اسی طرح لاہور کنزرویشن سوسائٹی بھی خواجہ ظہیر الدین کی وفات کے بعد  فعال نہ رہی وقت پر انتخاب نہ کروائے گئے ماہانہ اجلاس نہ رکھے گئے غالبا” اسی وجہ سے مجبور ہو کر ڈاکٹر اعجاز انور نے چند ماہ قبل اولڈ ٹولنٹن مارکیٹ کے اجتماع میں کنزرویشن سوسائٹی لاہور کے نام سے نئی تنظیم قائم کرلی تھی اس تقریب میں ہم نے بھی شرکت کی تھی ، کتاب میں لاہور کے حوالے سے پہلا کالم شہر کی تزئین و آرائش بارے شامل ہے اس کالم میں ملٹی سٹوری بلڈنگ ایل ڈی اے پلازہ کی تعمیر کو لاہور کا چہرہ تبدیل کرنے کی طرف اہم قدم قرار دیا گیا لاہور کے حوالے سے دوسرا کالم انہوں نے لاہور کنزرویشن سوسائٹی کی جانب سے لاہور شہر کو محفوظ بنانے کے منصوبے بارے لکھا تھا تیسرا کالم شاہی قلعہ ، بادشاہی مسجد کے علاوہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج اور سر گنگا رام ہسپتال کے درمیان کوئنز روڈ کے نیچے زیرزمین راستہ بارے تحریر کیا تھا۔
     کتاب میں صفدر میر (زینو) کا کالم بھی شامل کیا گیا جس میں صفدر میر نے کنزرویشن سوسائٹی کی جانب سے دیال سنگھ مینشن والے پرانے پریس کلب میں لاہور کنزرویشن سوسائٹی کی پریس بریفنگ کے دوران ڈاکٹر اعجاز انور کی جانب سے مقبرہ جہانگیر کا احوال لکھا گیا تھا آگے چل کر راوی پل پار شاہدرہ میں جہانگیر ، نورجہاں ، آصف جاہ کے مقبروں اور اکبری سرائے وغیرہ کے حوالے سے لکھے جانے والے کالم کو شامل کیا گیا ہے اس کے علاوہ موچی دروازے کے رہائشی میو اسکول آف آرٹ (اب این سی اے ) کے استاد اور مصور لطیف چغتائی کی شخصیت و فن ، بصری آرٹ کی پانچویں قومی نمائش ، چوبر جی ، الحمرا میں پروفیسر نسیم حفیظ قاضی کے فن پاروں کی نمائش ، مصور اقبال احمد کے واٹر کلرز ، مصور اقبال حسین کے آئل کلرز ، مصور انور جلال شمزا ، حنیف را مے ، بی سی سانیال ، صادقین ، اینا مولکا احمد کی شخصیت اور فن پر تحریر کردہ کالم شامل کئے گئے ہیں ، انور جلال شمزا کے بارے میں اے حمید نے بھی بتایا تھا کہ وہ شملہ میں پیدا ہوئے تھے تاہم ڈاکٹر اعجاز انور بتاتے ہیں کہ انور جلال شمزا کے والد خواجہ صادق بٹ بطور سرکاری اکاؤنٹنٹ شملہ میں تعینات تھے تاہم ان کا تعلق ڈاکٹر اعجاز انور کے آبائی شہر لدھیانہ سے تھا اہوڈاکٹر اعجاز انور کے ڈیلی پاکستان ٹائمز میں چھپنے والے پرانے کالموں کا یہ مجموعہ پڑھ کر نہ صرف لاہور شہر کے بارے میں مزید جاننے میں مدد ملتی ہے بلکہ  لاہور کے مصوروں اور ان کے فن سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے اندرون و بیرون شہر لاہور کی پرانی عمارتوں کو بھی  ڈاکٹر اعجاز انور نے اپنی پینٹنگز کی شکل میں محفوظ کردیا ہے ان کا یہ کارنامہ لاہور شہر سے دلچسپی رکھنے والوں کو ہمیشہ یاد رہے گا