بھارت میں عید پرریلیز ہونے والی  فلم ‘میدان’ کی بھرپور پذیرائی

 اجے دیوگن نے فٹ بال کے مشہور کوچ  سید عبدالرحیم کے کردار حقیقت کے قریب تر انداز میں پیش کیا ہے

 فلموں کا کھیلوں سے ایک مضبوط رشتہ بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ کھیل اور کھلاڑیوں پر مبنی کئی فلمیں بن چکی ہیں اوران میں سے زیادہ ترنےشاندار کامیابی بھی حاصل کی ہے، پھر چاہے وہ کرکٹ پر مبنی عامرخان کی فلم’لگان‘ ہو، ہاکی پر مبنی شاہ رخ خان کی ’چک دے انڈیا‘ ہو، کشتی پر مبنی عامر خان کی ’دنگل‘ ہو، کشتی ہی پر مبنی سلمان خان کی فلم ’سلطان‘ ہو، دوڑ پر مبنی فرحان اخترکی فلم ’بھاگ ملکھا بھاگ‘ ہو، باکسنگ پر مبنی پرینکا کی فلم ’میری کام‘ یا کرکٹر دھونی کی زندگی پر’ایم ایس دھونی‘ ہو، یہ تمام فلمیں اپنے اپنے وقت میں شاندار کامیابی حاصل کرچکی ہیں، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں میں کھیلوں پر مبنی اور بھی کئی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ اب اجے دیوگن فٹ بال پر مبنی ایک فلم ’میدان‘ لے کر آئے ہیں جو دراصل مشہور کوچ سید عبدالرحیم کی زندگی پر مبنی ہےکہ کس طرح انہوں نے اس کھیل کو جلا بخشی اور اولمپک مقابلوں میں اسے اپنا مقام دلایا لیکن ان کے بعد آج تک اس سے منسلک ہندوستانی کھلاڑی عالمی سطح پر کوئی مقام حاصل نہیں کرسکے۔

کہانی:جیسا کہ پہلے کہا گیافلم’میدان‘ فٹ بال کے مشہور کوچ سیدعبدالرحیم(اجے دیوگن) کی زندگی اور جدوجہد کی کہانی ہےجو 1950ء کے دور میں فٹ بال اسوسی ایشن کے ممبران کی بہانے بازیوں کےباوجود ملک بھر میں گھوم گھوم کر بہترین کھلاڑیوں کو منتخب کرکے ایک بہترین ٹیم بناتےہیں تاکہ عالمی سطح پر فٹ بال میں ہندوستان کا نام روشن کرسکیں۔ دراصل 1952 ء میں ہندوستانی فٹ بال ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ رحیم نے اپنی ٹیم میں چنی گوسوامی، پی کے بنرجی، پیٹر تھنگراج، جرنیل سنگھ، پردیوت برمن جیسے ہونہارکھلاڑی شامل کئے تھے۔ رحیم کے گھرمیں بیوی سائرہ (پریہ منی)، ایک بیٹا حکیم، بیٹی اور ان کی ماں ہیں۔ 1956ء کے ملبورن اولمپکس میں وہ اپنی ٹیم کےساتھ چوتھے نمبر پر آنےمیں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن انیس سو ساٹھ ءمیں روم اولمپکس میں ٹیم کی شاندار کارکردگی کے باوجودان کی ٹیم کوالیفائی نہیں کرپاتی۔ اس کے بعد رحیم اپنےمخالفین اور اسپورٹس جرنلسٹ(گجراج راؤ) کی سیاست کا شکارہوجاتےہیں اور انہیں کوچ کے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ وہ ابھی اس صدمہ میں ہی ہوتےہیں کہ انہیں معلوم ہوتاہے کہ انہیں پھیپھڑوں کا کینسرہے تو وہ اور بھی زیادہ مایوس ہوجاتے ہیں اور اسی مایوسی میں اپنے گھر پر آکر جیسے موت کا انتظارکرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں رحیم کی بیوی سائرہ انہیں دوبارہ جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس طرح وہ فٹ بال اسوسی ایشن کے دفترجاکرخود کو دوبارہ موقع دیئے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ خود کی خراب ہوتی صحت اور اپنی ٹیم کی پریشانیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ پھر انیس سو باسٹھ ء کے جکارتہ ایشین گیمز کیلئے اپنی ٹیم کوتیار کرتے ہیں۔ کیا وہ دوبارہ اپنامقام حاصل کرپاتے ہیں اور مقابلے میں گولڈ میڈل حاصل کرپاتے ہیں، یہ جاننے کیلئے آپ کو فلم دیکھنا ہوگی۔

ہدایتکاری :امیت شرماکی ہدایت کاری کی خاصیت یہ ہے کہ اس فلم کومیلو ڈراما نہیں بننے دیا۔ فلم کے پہلے ہاف میں وہ کرداروں اورکہانی کو ترتیب دینےمیں وقت صرف کرتےہیں لیکن دوسرے ہاف میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور آخری۲۰؍منٹ توناظرین پلک بھی نہیں جھپکاپاتے۔ تشاراور اینڈری ویلنٹسوف کی سنیماٹوگرافی قابل تعریف ہے خاص طورپرآخری مناظر میں کھیل کے میدان کو جس طرح کیمرے میں قید کیا گیا ہےلاجواب ہے۔ اس کے علاوہ ۶۰-۱۹۵۰ء کی دہائی کے کولکاتا کو بھی خوبصورتی سے دکھایاگیا ہے۔ ہدایت کارنےفلم کوقابل اعتماد بنانے کیلئے حقیقی فوٹیج کو خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ شہروں کے نام ظاہر کرنے کیلئے اردو کا بھی استعمال کیا گیاہے۔ وی ایف ایکس کااستعمال بھی اچھی طرح کیا گیا ہے۔ اے آر رحمان کی پُرسکون موسیقی کہانی کو آگے لے جاتی ہے۔

اداکاری :چار ؍مرتبہ نیشنل ایوارڈجیتنے والےاجے دیوگن اس بار بھی سید عبدالرحیم کے کردار میں سورج کی طرح چمک رہے ہیں۔ پریہ منی نےسائرہ کےکردار کوخوبصورتی سے نبھایا ہے۔ گجراج راؤ برے اور منفی اسپورٹس جرنلسٹ کو اپنے انداز سے یادگار بناتے ہیں۔
نتیجہ: ہندوستان میں فٹ بال کی تاریخ اور اسے عروج بخشنے والےسید عبدالرحیم کی زندگی کو جاننے اور اجے دیوگن کی عمدہ اداکاری کیلئے اس فلم کو ضرور دیکھنا چاہئے۔
اسٹار کاسٹ: اجے دیوگن، پریہ منی، گجراج رائو، نتانشی گوئل۔
ہدایتکار :امیت رویندرناتھ شرما
رائٹر:آکاش چائولہ، ارونو جوائے سین گپتا، سدھانت ماگو، رتیش شاہ، سائیون کواڈرس، امن رائے، اتل شاہی
پروڈیوسر:بونی کپور، آکاش چائولہ، ارونو سین گپتا
موسیقی:اے آر رحمان
ایڈیٹنگ:دیو رائو جادھو، شاہنواز موسانی
سنیماٹوگرافی:تشار کانتی رے، اینڈرے ویلنٹسوف
کاسٹیوم ڈیزائن:کیرتی مولونکر، ماریاتھاراکن
پروڈکشن ڈیزائن:کھیاتی موہن، کنچن
 ریٹنگ: ****