سرکاری ذرائع کی چشم کشا رپورٹ
9 مئی کو پورے پاکستان میں چھوٹے بڑے شہروں میں باہر نکلنے والے افراد کی کل تعداد 44937 تھی۔ سب سے زیادہ افراد لاہور میں نکلے جن کی تعداد چار مقامات پر سات ہزار سے زائد رہی۔ دہشت گردی میں ملوث افراد کی کل تعداد 16028 تھی۔
دہشت گردوں کا کنٹرول 19 مختلف مقامات سے 54 مختلف لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ تمام دہشت گرد کارروائیوں کو کنٹرول کرنے والے یہ تمام افراد 6 مرکزی افراد کو لمحہ بہ لمحہ رپورٹ دے رہے تھے۔ یہ چھ مرکزی افراد ایک سابق ائرفورس کے اہلکار کے ذریعے تمام رپورٹ کسی مخصوص شخص تک پہنچا رہے تھے۔
16028 دہشت گردوں میں سے سی سی ٹی وی وڈیوز ، تصاویر اور دیگر ذرائع سے 13934 افراد کی شناخت کرلی گئی ہے۔ ان 13934 افراد میں سے اب تک ملک بھر سے 8911 افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔ جی ایچ کیو ، کور کمانڈر ہاؤس ، میانوالی اور فیصل باد میں حملہ آور مسلح دہشت گردوں کے بیک اپ کے ساتھ تھے اور ان میں زیادہ تر ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے سکہ بند دہشت گرد تھے۔
میانوالی میں دو سو سے زائد جدید اسلحہ سے لیس دہشت گردوں نے حملہ کیا اور ان کو مسلسل ہدایات مل رہی تھیں کہ کسی بھی طرح دیواریں توڑ کر اندر داخل ہوں اور یارڈ میں کھڑے پاک فضائیہ کے تمام طیاروں کو آگ لگائیں۔ تین سوزوکی گاڑیوں میں پٹرول کے ڈرم اس مقصد کے لیے ساتھ لائے گئے تھے۔ 
سکیورٹی ایجنسیوں کے مطابق باقی ماندہ دہشت گردوں کو بھی اگلے 48 گھنٹوں میں زندہ یا مردہ گرفتار کر لیا جائے گا۔ ریاست پاکستان اور افواج پاکستان پر اس منظم حملے کی سہولت کاری میں سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے کچھ جج طے شدہ منصوبے کا حصہ تھے۔ سول و ملٹری بیوروکریسی میں سے بھی متعدد افراد کی شناخت اور گرفتاری مکمل ہو چکی ہے۔ دو میڈیا چینل کلی اور تین میڈیا چینل جزوی طور پر سہولت کاری میں براہ راست ملوث رہے۔ 39 یوٹیوبر ، 13 ٹی وی اینکر/ صحافی کھلے عام اور  29 ڈھکے چھپے الفاظ میں ان کی حوصلہ افزائی اور دفاع کر رہے تھے۔
ٹوئٹر پر 427 ہینڈلز اور 800 روبوٹ سے اس دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی تھی اور افواج پاکستان پر حملے کیے جارہے تھے۔ 96 فیصد ریٹویٹس خود کار مشینی طریقہ سے پیشگی ادائیگی کے بعد حاصل کی گئیں۔ فیس بک پر 1380 اکاؤنٹ ملک دشمنی اور عداوت میں حد سے گزر رہے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے نصف سے زائد براہ راست انڈیا، یورپ اور امریکہ سے کنٹرول ہو رہی تھی۔ اس ساری کاروائی کا سرغنہ ایک خاتون کے ذریعے سے یہ رپورٹ پولیس لائنز میں موجود عمران خان کو ایک سرکاری ملازم کے فون پر دیتا رہا۔ عمران خان نے اس ساری دہشت گردی پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ، اور منصوبہ کے سرغنہ کو شاباشی کا پیغام بھیجا 
اہم بات یہ ہے کہ اس خاتون کا کوڈ نام “اعظم سواتی” رکھا گیا۔ یاد رہے کہ سینٹر اعظم سواتی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی اعظم سواتی کے ذریعے سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ بات کرکے اگلا تمام منصوبہ بشمول رہائی اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے لامتناعی ضمانتوں کا منصوبہ طے کیا گیا اور بعد ازاں اس پر عمل کیا گیا۔ اس تمام کاروائی کے تمام ثبوت اور ریکارڈنگز قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے اکھٹے کرلیے ہیں اور مناسب وقت اور مناسب فورم پر قوم کے سامنے لائے جائیں گے۔
ریاست پاکستان اور افواج پاکستان پر اس حملے کی منصوبہ بندی 13 مارچ 2023 کو کی گئی۔ افغانستان ، کرم ایجنسی ، مالاکنڈ ، سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان سے تربیت یافتہ دہشتگردوں کو 25 اپریل سے پہلے پہلے مطلوبہ اہداف تک پہنچایا جا چکا تھا۔ گرفتاری و رہائی محض ایک ڈرامہ تھا تمام منصوبہ پہلے سے طے شدہ تھا اور اس پر “منظم فوجی حملے” کی طرح عملدرآمد کیا گیا۔
حملوں کے اگلے دن پورے ملک میں 20 سے کچھ زائد لوگ نکلے اور جن میں  مذکورہ بالا تمام دہشت گرد شامل تھے یعنی عام شہریوں یا تحریک انصاف کے حامیوں کی تعداد 4 ہزار تھی۔ اور تیسرے دن دہشت گردوں کی اکثریت روپوش ہو گئی اور صرف چند سو افراد نکلے۔ یعنی عملی طور پر مزاحمت دم توڑ چکی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس نے فوری طور پر عمران خان کو رہا کر دیا۔ 
ممکنہ طور پر اس سازش میں ملوث سیاسی کرداروں ، اور ججوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ اور آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 59/60 اور 74 کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ پی ٹی آئی کے “بیرون ملک مقیم کارکنوں اور ہمدردوں” کو سیاسی سرگرمیوں سے باز رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اس سے ان کے خاندان، ملازمت اور معاش کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔