گزشتہ چند روز سے تمام موبائلز فون نیٹ ورک پر ڈیجیٹل نیٹ ورک کے بارے میں خاتون کی آواز میں پیغام نشر ہو رہا تھا کہ ڈیجیٹل نیٹ ورک کے استعمال میں احتیاط برتیں اور خصوصاً بچوں کے حوالے سے ہدایات تھیں یقیناً درست پیغام تھا اور ہے لیکن اب مرد کی آواز میں دھمکی آمیز پیغام دیا جا رہا ہے کہ احتیاط برتیں فلاں فلاں مواد سائبر کرائمز میں آتے ہیں اور آپ کے خلاف رپورٹنگ کے نتیجے میں قانونی کارروائی ہو سکتی ہے اس پیغام سے مجھے اپنے معصوم پروفیسر  محمّد اسمعیل  یاد آجاتے ہیں جو تاحال مقدمات بھگت رہے ہیں۔
 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ ہی کسی نے نعوذباللہ توہینِ مذہب یا رسالت کی ہے نہ ہی نفرت انگیزی کا مرتکب ہوتے ہیں نہ ہی کوئی ملک دشمن ہے البتہ اب آگر میری اس پوسٹ پر جس کو نہ میں جانتا ہوں نہ اس کے ساتھ کوئ تنازعہ ہے اور نہ ہی اس کا اتہ پتہ معلوم ہے جس طرح کہ ہمارے معصوم پروفیسر صاحب کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے۔
سوشل میڈیا کے لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف سب سے آگے ہے  جن کی اکثریت بیرون ممالک میں مقیم  ہیں حقیقت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے X یعنی ٹوئیٹر پر پابندی عائد کی گئی ہے باوجود عدالتی احکامات کے بلنکیٹ پابندی عائد ہے
 سوشل میڈیا پر پابندی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر احتجاج ہو رہے ہیں لازماً انٹرنیٹ سسٹم کے تحت آزادی کے پابند ہیں ،ہو سکتا ہے آئ ایم ایف ہی سوالات پوچھ لیں کہ سوشل میڈیا پر پابندی کیوں عائد کی گئی ہے
تمام موبائلز فون نیٹ ورک نے عدالتی بیان دیے ہیں کہ سسٹم کنٹرول میں ہیں اور گفتگو ریکارڈ ہونے کے ساتھ ساتھ سنی جاتی ہے ۔
 سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں میڈیا یقیناً کنٹرول میں ہے اسد علی طور ہو یا عمران ریاض یا کوئی بھی صحافی کالم نگار، یوٹیوبر بلاگرز  کون  سی احتسابی کارروائی کرتے ہیں اور کب سائبر کرائمز کا قانون لاگو کرتے ہیں۔ یہ وہ تمام مسائل ہیں جن سے عام شہری واقف نہیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ڈر اور خوف کی فضا پیدا کریں۔
پاکستان تحریک انصاف نے ان بلاگرز سے لاتعلقی کا برملا اعلان کیا ہے جو منفی پروپیگنڈہ کر رہے تھے۔
لہذا مثبت تبدیلی کے لئے مثبت تنقید کو برداشت کریں سوشل میڈیا پر پابندی سے نقصانات ہوسکتے ہیں فائدے نہیں بلکہ اب تو آرٹیفشل انٹیلیجنس کا دور ہے اور اس میں مہارت کی ضرورت ہے۔
دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ہمیں ان چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔