اس گولی کو تو آپ نے پہنچان ہی لیا ہوگا۔ یہ ہے “پیناڈول” جو اصل میں “پیراسیٹامول” ہی ہے۔ وہی پیراسیٹامول جسے “شیر والی گولی” کا کہا جاتا تھا (کیونکہ اس کے پیکٹ پر شیر بنا ہوتا تھا)
تو پیراسیٹامول کو استعمال ہوتے سو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں، لیکن پتہ ہے اس میں خاص بات کیا ہے ؟ ہم ایک عرصے تک پیراسیٹامول کے کام کرنے کے درست طریقے کو نہ جان سکے۔
ہمارے جسم میں ایک کیمکل بلکہ کیمکلز کا گروپ ہوتا ہے جنہیں “پروسٹا گلینڈنز (prostaglandins)” کہا جاتا ہے۔ یہ بڑے کام کے کیمکلز ہوتے ہیں۔ ان کا ایک کام “انفلامیشن” میں کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اب یہ انفلامیشن کیا ہوتی ہے؟ موضوع کے حساب سے یہ سمجھ لیں کہ جب جسم کا کوئی ٹشو انجر ہوتا ہے، خواہ وہ انجری کسی چوٹ کی وجہ سے ہو، کسی بیماری کی وجہ سے یا کسی انفیکشن کی وجہ سے تو اس ٹشو اور آس پاس کی جگہ پر کچھ تبدیلیاں آنا شروع ہوتی ہیں؛ جیسے وہاں سوجن ہوجاتی ہے اور درد بھی ہوتا ہے۔ ان تبدیلیوں کو انفلامیشن کہا جاتا ہے۔ تو اصل میں انفلامیشن ٹشو کی انجری کے بعد کا رسپانس ہوتا ہے جس کا مقصد انجری زدہ ٹشو کا خیال کرنا ہوتا ہے۔
بات کے شروع میں، میں نے بتایا کہ اس انفلامیشن کے عمل میں “پروسٹا گلینڈنز” اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس میں سے ایک کردار ٹشو کے اس پاس موجود درد کا سگنل لینے والی نروز کو زیادہ حساس کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ ان نروز کے ذریعے دماغ تک سگنل جائے اور انجری زدہ ٹشو میں درد کا احساس ہو۔ اس کے علاؤہ پروسٹا گلینڈنز بخار وغیرہ میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔
تو اگر ان پروسٹا گلینڈنز کے بننے کو روک دیا جائے تو کیا یہ درد رک جائے گا یا کم ہوگا ؟ جی ہاں!!! اور ایسا کچھ ادویات کرتی بھی ہیں۔ جیسے ہماری ڈسپرین/اسپرین ان پروسٹا گلینڈنز کو بنانے والے انزائمز کو کام نہیں کرنے دیتی۔ جس وجہ سے پروسٹا گلینڈنز نہیں بنتے اور درد سے تھوڑی راحت ملتی ہے۔ پیراسیٹامول کے لیے بھی یہی سوچا جاتا تھا۔
لیکن جدید تحقیق یہ بتاتی ہے کہ پیراسیٹامول کے اس (پروسٹا گلینڈنز کو روکنے والے) طریقے سے زیادہ کام نہیں کرتی۔ بلکہ پیراسیٹامول کا زیادہ اثر ایک اور طریقے سے آتا ہے۔ یہ طریقہ ہے ڈائرکٹ دماغ کے اندر جاکر درد کا احساس پیدا کرنے والے نظام پر اثر کرنا۔
ہمارے پورے جسم میں نروز کا جال پھیلا ہے جو دماغ اور جسم کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ جب جسم کے کسی حصے پر کوئی انجری ہوتی ہے تو وہاں سے نروز دماغ کو سگنل بھیجتی ہیں، اور دماغ میں ایک نظام اس سگنل کے مطابق درد کا احساس پیدا کرتا ہے۔
پیراسیٹامول/ پیناڈول کی یہ گولی ہمارے نظام انہضام سے خون میں جذب ہوکر ہمارے جگر میں جاتی ہے، جہاں اس پر جگر کے انزائمز کی طرف سے مختلف کیمکل ریکشنز ہوتے ہیں (تقریباً سب ادویات کے ساتھ ہی ایسا ہوتا ہے)۔ یہ کیمکل ریکشنز پیراسیٹامول کو ناکارہ کرنے کی بجائے اس ایک زیادہ کارامد کیمکل میں بدل دیتے ہیں جسے “پی امائنو فینول” (p-aminophenol) کہا جاتا ہے۔ یہ کیمکل خون کے ذریعے دماغ تک پہنچتا ہے اور وہاں ایک اور زبردست کیمکل میں بدل جاتا ہے جسے AM404 کا نام دیا گیا ہے۔
یہ AM404 مختلف طریقوں سے دماغ میں موجود اس درد والے نظام پر اثر انداز ہوتا ہے اور درد کے احساس کو کم کرتا ہے۔ پیراسیٹامول کے لیے اس کا اثر “پروسٹا گلینڈنز کو کم کرنے والے طریقے” سے کافی زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی پیراسیٹامول کا درد کم کرنے کا بنیادی اور غالب طریقہ یہی ہے۔
یعنی نظام انہضام سے جگر میں جاکر ایک روپ بدلا، اور جگر سے دماغ میں جاکر دوسرا روپ بدلا اور پھر اس دوسرے روپ سے دماغ میں درد کے احساس کو کم کیا۔
پیراسیٹامول کا استعمال انیسویں صدی سے جاری ہے، لیکن اس کا یہ AM404 والے طریقے کا پتہ 2005 سے 2018 کے درمیان میں شائع ہونے والی مختلف ریسرچز کو ایک ساتھ دیکھ کر اخذ کیا گیا۔
آج پین کلر ادویات پیراسیٹامول/پیناڈول کو ڈسپرین وغیرہ جیسی پین کلرز کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھ جاتا ہے۔
غالباً اس کے کام کرنے پر مزید ریسرچز جاری ہیں، کیا معلوم عام کریانہ سٹوروں سے ملنے والی یہ تین روپے کی گولی اپنے اندر کچھ اور راز بھی رکھتی ہو۔۔۔