سلیم رضا ٹھاکر کی تین کتابوں پر تبصرہ۔

قارئین کی خدمت میں معروف ماہر تعلیم اور صاحب طرز قلم کار سلیم رضا ٹھاکر کی تین کتابوں کا تعارف پیش کر رہا ہوں۔ ٹھاکر صاحب کی دو کتابوں ” برزخ سے براہ راست ” اور ” مانتا ” نے چار ماہ قبل اکھٹے جنم لیا جب کہ ان کی پہلی کتاب ” سوچ نتارے ” تین سال پہلے تخلیق کی گئی تھی۔ سلیم رضا ٹھاکر ان چنیدہ لکھاریوں میں سے ہیں جن سے فیس بک کے توسط سے تعارف ہوا۔ روف کلاسرا اپنی حالیہ شائع ہونے والی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پہلی کتاب لکھنا سب سے آسان کام ہے۔ دنیا کا ہر انسان ایک کتاب لکھ سکتا ہے جسے آپ، آپ بیتی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن انسان کی تخلیقی صلاحیت کا پتا اس وقت چلتا ہے جب وہ دوسری کتاب لکھے، تیسری چوتھی اور پھر عمر بھر لکھتا رہے اور لوگ اسے پڑھتے رہیں بل کہ کتابوں کی دکان سے اس کی کتب ڈھونڈتے رہیں۔ پہلی کتاب کے تین سال بعد بیک وقت دو کتابیں لکھ کر سلیم رضا ٹھاکر صاحب نے ایک تو اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر مہر ثبت کر دی ہے اور دوسری طرف اپنا شمار مستند لکھاریوں اور ادیبوں میں کروا لیا ہے۔ سلیم رضا ٹھاکر کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے تین سال کے مختصر عرصہ میں تین مختلف نثری صنفوں میں طبع آزمائی کر ڈالی اور وہ بھی ایک سے زائد زبانوں میں، جی ہاں ٹھاکر صاحب نے اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی نثر نگاری میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور ایک لحاظ سے دیکھیں تو ان کی پنجابی نثر اردو نثر سے زیادہ مزے دار معلوم ہوتی ہے ” برزخ سے براہ راست ” اگرچہ کہانی کے انداز میں لکھی گئی ہے لیکن ٹھاکر صاحب کے قلمی سٹائل کو دیکھ کر ” دانتے ” کی ڈیوائن کامیڈی بھی ذہن میں آ جاتی ہے۔ خرم صادق چودھری کے بقول ” برزخ سے براہ راست ” پاکستان کی آبادی تک کی سیاسی تاریخ پر ہلکے پھلکے انداز میں لکھا گیا نوحہ ہے۔ عالم برزخ میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے پاکستان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ملاقات اور ان کے درمیان ہونے والے مکالموں کو کچھ ایسے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے کہ کتاب پر ڈرامے کا گمان بھی ہونے لگتا ہے۔ مختصر یہ کہ کتاب میں مختلف کرداروں کے ذریعے پاکستانی کی سماجی و مذہبی اور سیاسی و معاشی خرابیوں کا بڑے سبق آموز انداز میں احاطہ کیا گیا ہے سلیم رضا ٹھاکر کی ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ وہ اپنی تحریریوں اور نثر پاروں میں نہ تو عشق و محبت کے روایتی موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں اور نہ ہی دیو مالائی و افسانوی موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ ان کا مطمع نظر سماج سدھار ہے۔ برزخ سے براہ راست کتاب میں شامل تمام کرداروں کے ذریعے انہوں نے تلخ سماجی و معاشی حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ غلام عباس مرزا کے بقول وہ عالم برزخ کا ایک تصوراتی منظر تخلیق کرتے ہیں، کردار تراشتے ہیں، گفتگو چلتی ہے مگر اس سب کے پس منظر میں وہ ہمارے لاشعور تک پہنچ کر ہمیں جھنجوڑ جاتے ہیں، ہمیں کچھ نیا بتا جاتے ہیں، ہمیں ہمارے نسل در نسل چلنے والے مغالطوں سے آگاہ کر کے اپنے پرائے کی پہچان کرا جاتے ہیں۔ سلیم رضا ٹھاکر کی دوسری کتاب ” سوچ نتارے ” بھی اپنی جگہ شہکار کتاب ہے۔ پنجابی زبان میں لکھی گئی اس کتاب میں انہوں نے سوا تین سو مختلف عنوانات پر دو چار لائنوں سے لے کر دو تین پیراگراف تک کی کہانی کے انداز میں لکھی ہوئی مختصر لیکن بامعنی و بامقصد تحریریں ہیں۔ ڈاکٹر اظہر محمود چودھری کے بقول ” سوچ نتارے ” دیاں لکھتاں وچ ڈھیر صنفاں دی کھیڈ رچی ہوئی اے۔ سیاسی تے سماجی تبصرے، جگ ورتیاں تے ہڈ ورتیاں، مختصر یہ کہ ” سوچ نتارے ” نتریاں سوچاں دا گلدستہ اے۔ سوچ نتارے میں صاحب کتاب نے سماجی و مذہبی زندگی کے تقریبا تمام پہلوؤں اور مروجہ سیاسی و معاشی مسائل پر دلچسپ پیرائے میں گفتگو کرتے ہوئے حل بھی تجویز کیا ہے سلیم رضا ٹھاکر کی تیسری کتاب ” مانتا ” پنجابی زبان میں لکھا گیا ناول ہے۔ ناول کے ذریعے بھی مصنف نے تلخ سماجی حقائق اور المیوں کو آشکار کیا ہے۔ مانتا ایک کرداری ناول ہے جس کی کہانی اس کے مرکزی کردار ” مانتا” کے گردگھومتی ہے۔ ناول اور اس کے کرداروں بارے خرم صادق چودھری لکھتے ہیں۔ ” ناول دی کہانی، پلاٹ، ون سونے پاتر، تھاں تھاں تے پاتراں دیاں کیتیاں ڈونگھیاں گلاں تے ٹھیٹھ بولی دا ورتا ” مانتا ” نوں اک اُچ پدھر ناول بنا دیندا اے۔ مانتے ورگے بندے ساڈے آلے دوالے بتھیرے لبھدے نیں پر ” مانتا ” ورگا ناول سلیم ٹھاکر ای لکھ سکدے سن۔ انج لگا اے جیوں ماں بولی نوں اک ہور وڈا ناول لکھیار مل گیا اے کتابیں منگوانے کے لیے درج ذیل نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے 03006236537